لبرل طبقہ اور پاکستان دشمنی کی تاریخ
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
دہشت گرد ، صرف دہشت گرد ہوتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی فرد مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردی کرے تو اس کی آڑ میں سارے دین بیزار اسلام پر حملے شروع کردیتے ہیں۔ ایسا تاثر دیا جاتا ہے گویا کہ پاکستان کے سارے مسائل کے ذمہ دار مذہبی طبقے اور مذہبی جماعتیں ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار یہی لبرل سیکولر طبقہ ہے۔ یہ دین بیزار طبقہ اول روز سے پاکستان کا دشمن ہے۔ اس مضمون میں اس کی تفصیل دی جارہی ہے۔ |
|
|
دہشت گرد ، صرف دہشت گرد ہوتا ہے۔ غدار صرف
غدار ہوتا ہے۔ ہم کہتے تو یہی ہیں کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتالیکن
اگر کوئی فرد مذہب کا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردی کرے تو سارے دین بیزار اس
ایک فرد کی آڑ میں سارے مذہبی طبقے کو معطون کریں، دین اسلام پر حملے
کریں، تمام دینی و مذہبی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے لیکن جب
کوئی لبرل اور سیکولر ذہن کا فرد دہشت گردی کرے، وہ ملک کے خلاف سازشیں
کرے، اعلانیہ طور پر ملک دشمن سرگرمیاں کرے تو اس کو سیاسی لیڈر اور سیاسی
مسئلہ کہہ کر اس کی حمایت کی جاتی ہے۔
مذہبی طبقے کی جانب سے آج تک علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں چلائی گئی، کبھی
ان کی طرف سے پاکستان کے خلاف کسی ملک سے مدد نہیں مانگی گئی، کبھی ان کی
جانب سے پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا گیا۔ لیکن سیکولر لبرل طبقہ
اور سیکولر میڈیا اس کے بارے میں ایسا تاثر دیتا ہے کہ گویا کہ یہ ملک کے
غدار ہیں، امت کے غدار ہیں، اور ملک کے سارے مسائل کی جڑ یہی ہیں۔ اس کے
برعکس سیکولر لبرل طبقہ اول روز سے ہی اقتدار پر قابض ہے۔ ملکی خزانہ لوٹنے
کی بات ہو، یا کرپشن کا معاملہ ، مفاد پرستی کی سیاست ہو یا علیحدگی کی
تحریکیں ان سب کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس میں سیکولر اور دین بیزار لبرل
طبقے کا ہاتھ رہا ہے۔سندھو دیش کی تحریک چلانے والے جی ایم سید نام کے
مسلمان لیکن نظریاتی اور عملی طور پر کمیونسٹ اور سیاسی طور پر علیحدگی
پسند تھے۔پاکستان کو دو لخت کرنے والے بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن
بھی کسی مذہبی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ بھی سیکولر طبقے سے
تعلق رکھتے تھے اور سیاسی طور پر علیحدگی پسند تھے۔ اِدھر ہم اُدھر تم کا
نعرہ لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو بھی سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے۔پاکستان
سے فرار ہوکر برطانیہ میں بیٹھے ہوئے براہمداغ بگٹی کا تعلق بھی کسی مذہبی
گروہ سے نہیں ہے بلکہ وہ بھی سیکولر نظریات کے حامل ہیں۔ بلوچستان میں
علیحدگی کی تحریک چلانے والی بلوچ لبریشن آرمی بھی قوم پرست ہے ، اس کا
تعلق بھی کسی مذہبی یا دینی جماعت سے نہیں ہے۔گریٹر پختونستان کے حامی باچا
خان اور ان کے پیرو کار بھی مذہبی طبقے سے نہیں بلکہ وہ بھی سیکولر طبقے سے
تعلق رکھتے ہیں ۔الطاف حسین بھی سیکولر اور لادین نظریات کے حامل ہیں،وہ اس
وقت پاکستان میں لبرل طبقے کے روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں، ان کی پاکستان
دشمنی اور علیحدگی پسندگی اب کوئی ڈھکی چھیپی بات نہیں رہی ، اپنی سیاست کے
آغاز سے اب تک وہ علیحدگی اور پاکستان دشمنی پر قائم ہیں۔گلگت بلتستان میں
علیحدگی کی تحریک چلانے والے بابا جان کا تعلق بھی لبرل سیکولر طبقے سے ہے۔
یہاں ہم نے ان چیدہ چیدہ سیاستدانوں کے نام لکھے ہیں جن کی پاکستان دشمنی
اور علیحدگی پسندی کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جب کہ ان جیسے سینکڑوں
اور بھی ہیں۔اس کے مقابلے میں آپ کسی بھی مذہبی ، دینی جماعت ، ان کی
سیاست اور ان کے رہنمائوں کا جائزہ لیں تو ڈھونڈنے سے بھی کبھی ان کا
پاکستان کے خلاف کوئی بیان، کوئی اقدام نظر نہیں آئے گا، نہ ہی ان کی جانب
سے کبھی بھی علیحدگی کی بات کی گئی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ پر
قابض دین بیزار طبقہ ان سارے افراد اور ان کے پیروکاروں کو تو سیاسی
کارکنان، سیاسی رہنما، سیاسی قیدی کہہ کر ان کی حمایت کرتا ہے لیکن مذہبی
طبقے اور دینی جماعتوں کے بارے میں ایسا تاثر دیتا ہے گویا کہ ملک کے سارے
مسائل کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ میرے خیال میں اب یہ ڈرامہ بند ہونا چاہیے،
عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کون ملک کے ساتھ مخلص ہے اور کون ملک کا غدار
اور ملک دشمن ہے، ان غداروں، ان کے پیروکاروں اور ان کے حامیوں کو پہچانے
اور ان کامحاسبہ کرے۔جب کہ لبرل طبقے سے ہماری گزارش ہے کہ اب دینی جماعتوں
کے خلاف اپنا چورن بیچنا بند کریں، عوام کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے
بجائے اب وہ لوگوں کو حقائق بتائیں کہ ملک کو تباہ و برباد کرنے والے اور
کرپشن کی دلدل میں دھکیلنے والا مذہبی طبقہ نہیں ہے بلکہ یہی دین بیزار
طبقہ ہے۔ |
|