عوام کو درپیش جملہ مسائل اور ریاستی نظام(حصہ اول)

جدیدریاستی نظام کے اجزائے ترکیبی میں زمین کا ٹکڑا اور عوام بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، ان دونوں اجزاء میں سب سے اہم جز ’’عوام‘‘ ہیں اور عوام کے پاس اختیار ہے کہ وہ اپنی سماجی زندگی کی تعمیر وتشکیل کے لئے ادارے وجود میں لائے،اور ان کی بہتری کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ اقدامات اٹھائے، اس طرح ریاست کا وجود مکمل اور مستحکم ہوتا چلا جاتا ہے۔ریاستی نظام تین بنیادی ستونوں پہ کھڑا ہوتا ہے جن میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ شامل ہیں، ان تینوں ستونوں کاعوامی فلاح و بہبود اور ریاستی مضبوطی میں اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے ،مقننہ میں پارلیمنٹ وسینٹ شامل ہیں۔ انتظامیہ میں بیورو کریسی(فوجی اور سول) اور عدلیہ میں ملک میں کام کرنے والی ہر سطح کی عدالتیں شامل ہیں۔یہ ادارے در اصل’’ عوام‘‘ ہی سے اورعوام کی مدد سے وجود میں آتے ہیں اور ان کا کام ’’عوام‘‘ ہی کی فلاح و بہبود کے ذریعے ریاست کی مضبوطی و استحکام ہے۔

ایک جمہوری ریاست میں مقننہ یعنی پارلیمنٹ ایک اہم ترین ادارہ ہوتا ہے جو کہ ریاست کو آئین دیتا ہے اور ایسے تمام قوانین بناتا ہے جن سے ریاست کا سیاسی نظام اور معاشی نظام نہ صرف مضبوط ہو سکے بلکہ اسے وقت کے تقاضوں کے مطابق بہتر سے بہتر بنایا جا سکے۔مقننہ حقیقت میں عوام کی امنگوں کی ترجمان ہوتی ہے ،اس کی تشکیل کے لئے عوامی الیکشن منعقد کئے جاتے ہیں اور عوام اپنے اپنے حلقوں سے افراد کو منتخب کرتے ہیں اور اس طرح سے پارلیمنٹ وجود میںآتی ہے، گویا پارلیمنٹ میں منتخب شدہ افراد عوام کے نمائندے ہوتے ہیں، انہیں عوام اس لئے منتخب کرتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں جا کر ان کے لئے ایسے قوانین بنائیں ، ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جو کہ ان کی معاشرتی زندگی میں بہتری لائیں ۔پارلیمنٹ میں یقیناً ایسے افراد کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جو عوام کے مسائل اور ان کے حل سے باخبر ہوں، اور ان کا مقصد عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بہتر سے بہتر قانون سازی کے ذریعے عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت دینے کے طریقوں پہ سوچنا ہوتا ہے۔پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین جن کا تعلق معاشی نظام سے ہو یا سیاسی و سماجی نظام سے، ان پہ عمل در آمد کرنے کی ذمہ داری انتظامیہ پہ عائد ہوتی ہے،حکومتی سطح پہ کابینہ اور ریاستی ڈھانچہ میں سول بیورو کریسی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ وہ عملی طور پہ ایک ضلع سے لے کر مرکز تک پورے ریاستی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور آئین اور قوانین کے مطابق تمام شعبہ ہائے زندگی کو چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔بیورو کریسی کو یہ ذمہ داری پارلیمنٹ تفویض کرتی ہے، یعنی عوام کی طرف سے وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے پابند کئے جاتے ہیں، ان کا کردار سول سرونٹ کا ہوتا ہے،اور اسی طرح فوجی بیورو کریسی بھی ملکی آئین اور قوانین کی روشنی میں ریاست اور عوام کے دفاع کی ذمہ داری ادا کرتی ہے،اس حوالے سے سول اور فوجی بیورو کریسی پارلیمنٹ کے تابع رہ کر اپنا کردار نبھاتی ہیں۔ اس کے بعد تیسرا ادارہ عدلیہ کا ہوتا ہے، اس میں عدلیہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملکی آئین اور قوانین کی عملداری میں اپنا کردار ادا کرے، معاشرے میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے، لوگوں کو سستا اور آسان انصاف مہیا ہو۔اور ہر ایسے کسی بھی غیر آئینی، غیر قانونی قدم کو چاہے کسی فرد یا گروہ یا ادارے کی طرف سے اٹھے ا سے روکنے کے لئے قانونی اقدامات کرے۔

اگر کسی ریاست کے یہ ا دارے باہمی تعاون اور ہم آہنگی سے نظم ونسق چلا رہے ہوں اوروہ اپنے مقصد حقیقی یعنی ’’عوام کی بہبود‘‘ کا کام احسن طریقے سے انجام دے رہے ہوں تو ریاست مضبوط سے مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔سیاسی نظام مستحکم اور معاشی ترقی کی نئی راہیں نکلتی ہیں۔اگر شعوری تجزیہ کیا جائے تو اداروں کا مفہوم پارلیمنٹ ، سیکریٹریٹ،عدالتوں کی بلڈنگوں اور ان میں پر تعیش سہولتوں کا نام نہیں ہے بلکہ ان اداروں کو چلانے والے افراد، ان کی صلاحیتوں اور کردار کے نتیجے میں پیدا شدہ معاشرتی، معاشی و سیاسی حالات اور ان اداروں کا عوام کی ضروریات کے ساتھ ربط و تعلق کا نام ہے۔ایسے ریاستی ادارے جو عوام کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنانے سے قاصر رہتے ہیں وہ حقیقی معنوں میں ادارے کہلانے کے مستحق نہیں ہوتے۔اگر ادارے انسانوں کی آبادی کی فلاح و بہبود اور ان کی تمدنی زندگی کے ارتقاء میں ناکام ہو جائیں تو اس ریاست کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔لہذا اداروں اور عوام کا براہ راست تعلق ہے، اداروں کی روح عوام کی بہبود ، اورترقی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔اب ہم اگر مزید اداروں کے کردار کی بحث میں جائیں، تو اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ ریاست کا ہر شہری ان اداروں کی پالیسیوں اورکردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر اداروں پہ کرپٹ ، نااہل،مفاد پرست افراد کا کنٹرول ہو جائے، تو اس کے اثرات معاشرے کے ہر فرد، ہر گھر، ہر گلی، ہر بازار،ہر شہر، ہر گاؤں، ہر دفتر میں محسوس ہوتے ہیں۔ہمیشہ کسی بھی ریاست میں موجود خرابیوں یا اچھائیوں کی وجہ یہی ادارے ہوتے ہیں۔ریاست کے شہریوں کی مثال بچوں جیسی ہوتی ہے اور ریاستی اداروں کی مثال والدین جیسی ہوتی ہے، جس طرح والدین بچوں کی فلاح و بہبود ، ان کی تربیت اور ان کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں بالکل اسی طرح یہ ادارے عوام کی جان ومال، عزت و آبرو، بود وباش، صحت وتعلیم ہر اس پہلو، اس ضرورت کے ذمہ دار ہوتے ہیں جس سے انسانوں کی ترقی اور خوشحالی وابستہ ہوتی ہے۔

ریاستی نظام کے اداروں کے اثرات انسانوں کی زندگی پہ بہت گہرے اور دوررس ہوتے ہیں، اگر یہ ادارے ایسا سیاسی نظام معاشرے میں قائم کرتے ہیں جس کا مقصد عوام کی رائے کا احترام ہو،عوام کو ایسی سیاسی مساوات میسر ہو کہ ووٹ کے ذریعے بغیر کسی دباؤ کہ اپنا فیصلہ سنا سکیں،آئین کو بالادستی ہو کسی فرد یا گروہ کو عوام کی امنگوں کے بغیر حکومت بنانے کی اجازت نہ ہو۔مقامی حکومتوں کا ایسا نظام موجود ہو جو عوام کو بنیادی سہولتیں بہم پہنچا سکے۔

اسی سیاسی نظام کے تابع ایسا معاشی نظام قائم ہو جس کے تحت ملکی معیشت، تجارت و صنعت پھلے پھولے، لوگوں کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں،معاشی خود کفالت ہو، معاشرے کے اندر ارتکاز دولت نہ ہوخوشحال معیشت کے ثمرات یکساں طور پہ پورے معاشرے تک پہنچیں،محنت کی قدر و اہمیت ہو، میرٹ پہ فیصلے ہوں، ہر شہری کو ترقی کرنے کے برابر مواقع میسر ہوں، معاشی عدم مساوات نہ ہو،ہر شہری کو بنیادی معاشی ضروریات بلا کسی رکاوٹ کے حاصل ہوں، انسانی حقوق کا تحفظ ہو، لوگوں کی جان و مال، محفوظ ہوں، تعلیمی نظام غیر طبقاتی ہو،صحت ورہائش کی مناسب سہولیات سب کو میسر ہوں، سستا ،آسان اور فوری انصاف میسر ہو، قانون کی حکمرانی ہو، کوئی فرد یا گرو کسی بھی طرح کے جبر سے کسی کے حقوق پامال کرنے کی جرات نہ کر سکے۔اگر ان خصوصیات کے حامل دارے ریاستی نظام چلا رہے ہوں تو اس ریاست کا ہر شہری انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک ان کے مثبت اثرات سے مستفیدہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔(جاری ہے)

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 134598 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More