مودی یاموذی؟

ظلم کی توایک رات ہی برسوں پرمحیط ہوتی ہے جوانسان کو زندگی بھرذہن سے محونہیں ہوتی لیکن بھارتی درندوں نے کشمیرجنت نظیر کوپچھلی سات دہائیوں سے جہنم زاربناکر رکھا ہواہے ۔اب تک لاکھ سے زائدبے گناہ معصوم کشمیری جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں اوراب ایک مرتبہ پھر گزشتہ دومہینوں سے بھارتی فوج اورسیکورٹی فورسزکے بے محاباظلم وستم اور جانوروں کاشکار کرنے والی پیلٹ گن کا بے تحاشہ استعمال سے نوجوانوں کی بصارت کوختم کرکے ان کی زندگیوں کودائمی اندھیروں میں غرق کرنے کے انسانیت سوزبہیمانہ عمل ، اندھادھند فائرنگ، فوجی محاصرے،مسلسل کرفیو کے باوجودنوجوانوں کاجذبہ جدوجہدآزادی دن بدن بڑھتاجارہاہے۔بھارتی فوج نے اپنے مذموم منصوبوں کی تکمیل کیلئے اب مساجد کے گردگھیرے تنگ،گلی گلی کوچہ کوچہ کشمیرکے مرغزاروں میں اندھادھند گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے جموں وکشمیرکامنظرتبدیل کردیاہے۔

خوف ودہشت کے بے تحاشہ مناظرہرروز دیکھنے کومل رہے ہیں لیکن اس کے باوجودکشمیری اپنے سینے تانے سروں پرکفن باندھ کرشہادت کی تمنا لئے میدان میں موجود ہیں اور ہر آنے والادن کشمیرپربھارتی فوج کاشکنجہ کمزورہوتا جا رہاہے۔ ایسے میں اہل کشمیر،بھارتی مسلمان،عیسائی اورہندو، دلت اوردوسری اقلیتیں بھی مودی کوموذی سمجھ کراس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے یک زبان ہورہے ہیں۔بھارتی سیاستدان،دانشور،یونیورسٹی کے طلباء اورطالبات اور خاموش اکثریت بھی دہائی دیتے ہوئے اس نتیجے پرپہنچے چکے ہیں کہ مودی پورے بھارت کیلئے تخریب اور شکست وریخت کاباعث بنتے جا رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کہ اب بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالامیں بھی بہت سے ارکان نے مودی کی ظالمانہ پالیسیوں کوبھارت کے کشمیرپرناجائز قبضے کوہی نہیں خود بھارت کے اپنے استحکام کیلئے بھی چیلنج قراردے دیاہے۔اس سلسلے میں خودبھارتی سپریم کورٹ کے سربراہ ٹی ایس ٹھاکر مودی کے حالیہ اقدامات، پالیسیوں اورمنصوبوں کوملک کے وفاقی وعدالتی نظام کیلئے خطرناک قراردے چکے ہیں۔

دوسری طرف اہل کشمیربھارتی قابض فوج اوران کے سرپرست مودی کی تمام ریشہ دوانیوں کے باوجوداپنے جذبۂ آزادی کوایک نئے آہنگ اورابھرتی جوانیوں کی قربانیوں کے ساتھ سامنے لانے کے بعدپوری استقامت کے ساتھ میدانِ عمل میں کھڑے ہیں۔اس کے باوجودکہ اب تک بھارتی قابض فوج کی اپنی مرتب کردہ رپورٹ جسے بھارتی ریزرو پولیس نے ہائی کورٹ میں پیش کیا ،اس کے مطابق ٨ جولائی سے لیکریکم اگست تک٢٢ لاکھ چھرے اور گولیاں چلا ئی جس سے ٧ہزارسے زائدزخمی اور٥٥جام شہادت نوش کرچکے تھے۔یادرہے کہ ان زخمیوں میں دوہزارسے زائد کشمیریوں کی آنکھیں اور بصارت متاثرہوئی اور صرف صدرہسپتال اورجے وی سی میں ایسے٦٤٠مریضوں کاعلاج کیاگیا اوریہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ان زخمیوں میں کالجوں اوراسکولوں کے چارسو سے زائدبچے اوربچیاں بھی شامل ہیں جن کی آنکھون میں تاک تاک کرچھرے مارے گئے اورانہیں بینائی سے محروم کردیاگیا۔

اس ظلم وجبر کی خبریں وادی کشمیرسے باہرنکلنے سے روکنے کیلئے دنیابھر میں خودکوایک بڑی جمہوریت کادعویٰ کرنے والے بھارت نے سوشل میڈیا، انٹرنیٹ،فیس بک،موبائلزفونزپر مسلسل پابندیاں عائدکررکھی ہیں۔٨جولائی سے ١٨/ اگست تک بغیرکسی ناغے کے مسلسل کرفیوجاری رکھالیکن رات کوکرفیو اٹھالیاجاتارہاکہ دن کے وقت اہل کشمیرکوسڑکوں پرنکلنے سے روکاجائے اور رات کونرمی کرکے پہلگام جانے والے اورپہلگام سے واپس بھارت جانے والے ہندویاتریوں کی آمدورفت میں رخنہ نہ آسکے۔ہندویاتریوں کی کی آمدورفت ممکن بنانے کیلئے فوجی دستے بھی متحرک رہے لیکن دوسری جانب کشمیری عوام پرنہ صرف یہ کہ ہرقسم کی قدغنیں مسلسل بڑھائی جارہی ہیں بلکہ اب ١٨/اگست کے بعدسے جبکہ ہندو یاتریوں کی واپسی مکمل ہوگئی ہے توبھارتی قابض فوج نے کشمیری عوام کے خلاف چوبیس گھنٹوں کاکرفیو نافذکر رکھا ہے۔ایک شہر سے دوسرے شہرتک سفرکے تمام راستے مسدود کر دیئے گئے ہیں۔اس مقصد کیلئے کرفیوکے علاوہ ہرطرح کی پبلک وپرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی آمدورفت مفلوج کردی گئی ہے ۔

تقریباًپچھلے ٥٥دنوں سے دوسرے شہروں میں اپنے کسی کام کاج کیلئے یارشتہ داروں اورعزیزوں سے ملاقات ممکن نہیں رہی۔سرینگرمیں یہ عمومی رائے ہے کہ اگرحزب المجاہدین کے کمانڈربرہان مظفروانی شہیدکے صرف آدھے گھنٹے کے دوران فوج کرفیونافذ نہ کرتی تواس تاریخی جنازے میں شرکت کرنے والے کشمیری عوام کی تعداداس ٹھاٹھیں مارتے سمندرسے کئی گنازیادہ ہوتی۔سرینگر میں مجھے اپنے ذرائع سے معلوم ہواکہ کمانڈر برہان مظفروانی کی شہادت کا واقعہ شام ساڑھے چھ بجے ہواتوتھوڑی دیرمیں موبائل فونزپرسرینگرمیں اطلاع مل گئی اوراس کے ساتھ ہی لوگ سڑکوں پرنکل آئے ،ان میں بچوں اورنوجوانوں کے علاوہ بوڑھے اورخواتین بھی شامل تھے لیکن آدھے گھنٹے کے دوران ہی فوج نے پوری وادی میں کرفیولگادیا۔ رات ساڑھے آٹھ بجے ای ٹی وی نے تفصیل کے ساتھ خبردی تواس کے ساتھ ہی ترال کے قریبی قصبوں اوردیہاتوں سے لوگوں نے پیدل ہی ترال کی طرف چلناشروع کردیا تاکہ اپنے محبوب کمانڈر کے آخری سفرمیں شرکت کرسکیں۔

مقبوضہ کشمیرمیںبرہان وانی شہیدکی ایک ہی عیدگاہ میں پچاس مرتبہ نمازجنازہ اداکی گئی ،لوگ عیدگاہ میں آتے اور نماز جنازہ اداکرکے چلے جاتے اور نئے لوگوں کے آنے پردوبارہ نمازجنازہ اداکی جاتی،اس طرح برہان وانی شہیدکی پچاس مرتبہ نمازجنازہ اداکی گئی جوکہ تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے ۔اس سے پہلے کسی بھی شخصیت کی پچاس مرتبہ نمازجنازہ ادانہیں کی گئی ۔یہی وجہ ہے کہ اب بھارتی قابض فوج نے خوفزدہ ہوکر فوری طورپرمقبوضہ وادی کے شہروں،قصبوں کی بستیوں اوربادیوں کاآپس کازمینی اورمواصلاتی رابطہ بھی ناممکن بنادیاہے۔ کرفیولگاکروادیٔ کے شہروں سرینگر،بڈگام، اسلام آباد بارہ مولا، سوپور،پٹن،شوپیاں،بانڈی پورہ،ککرناگ،ترال،پلوامہ،بڈگام اورقصبات کوایک دوسرے سے کاٹ دیاگیا ہے حتیٰ کہ ان شہروں اور قصبوں کے اندرقائم بستیاں بھی باہم کٹی ہوئی نظرآتی ہیں۔ایسابھی ہورہاہے کہ ایک بستی میں کسی شہری کی شہادت یاانتقال کی خبرکئی کئی روزتک دوسری بستی اورمحلے میں رہنے والے ان کے رشتہ داروں کے علم میں نہیں آپاتی۔

سرینگراوردوسری بڑے شہروں کی سڑکوں پراب عام لوگوں کی گاڑیاں نہیں آ سکتی ہیں۔ان کی سڑکوں پراب صرف فوج اورپولیس کی گاڑیاں نظر آتی ہیں یا پھربھارتی قابض فوجی کی اندھادھندفائرنگ سے زخمی ہونے والوں کوہسپتالوں میں منتقل کرنے والی ایمبولنسزہوتی ہیں۔ان ایمبولنسزکے ڈرائیوروں کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے زخمیوں کوہسپتالوں میں اس طرح بھربھرکرلارہے ہیں جیسے کشمیرمیں کوئی جنگ ہورہی ہواورانہیں ہنگامی صورتحال کا سامنا ہو ۔ سرینگرکے تین بڑے ہسپتالوں میں صورہ میڈیکل انسٹیٹیوٹ،سرینگرمیڈیکل اسپتال اوربمناانسٹیٹیوٹ زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔زخمیوں کو ہسپتالوں میں لیکرآنے والے کئی کئی روزسے کرفیوکی وجہ سے گھروں کونہیں لوٹ پائے ہیں۔وادیٔ کشمیرسے تعلق رکھنے والے ایک واقف حال بتارہے تھے کہ کشمیری عوام بھارتی قابض فوج کی اس حکمت عملی کو ناکام بنارہی ہے اورکم ازکم دو ماہ تک مزیدبھی کرفیوجاری رکھاگیاتوکشمیری عوام اپنے لئے خوراک کی قلت پیداکرنے کی فوجی منصوبہ بندی کاتوڑکرسکیں گے۔اس واقف حال کے مطابق عام کشمیری کے گھروں میں مزیددوماہ یہی سلسلہ چلتارہاتوبھی کشمیری عوام کوبھارت پرمسلط ایک موذی وزیراعظم اپنی سازش کے مطابق بھوک سے نہیں مارسکے گا۔سرینگر کے ہسپتالوں میں کرفیوکے باعث اورزخمیوں کی حالت کے باعث پھنس کے رہ جانے والے تیمارداروں کی ضروریات اور مجبوریوں کے پیش نظرکشمیری نوجوانوں اور آس پاس کی بستیوں کے رہائشی اہل خیرنے ان تمام بڑے ہسپتالوں کے ساتھ زخمیوںاوران کے تیمارداروں کیلئے لنگروں کااہتمام کیاہے۔ہسپتالوں کے باہر کئی ہفتوں سے فعال اوران لنگروں سے متاثرین کومفت کھاناپیش کرنے کیلئے صبح وشام دیگیں پکائی جارہی ہیں۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے قابض فوج کی طرف سے مسلسل کرفیوکو مسترد کرتے ہوئے سڑکوں پرعوام کورکھنے کیلئے بنائی گئی حکمت عملی کے تحت اہل کشمیرسے ایک یہ اپیل کررکھی ہے کہ عوام نمازعصرمساجدسے باہرسڑکوں اورگلیوں میں اداکریں اورسرینگرسے ایک اطلاع کے مطابق یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے اورعوام بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ کرفیوکی پرواہ کئے بغیرنماز عصرکیلئے سڑکوںپرنکلتے ہیں۔یہ سب کچھ اس کے باوجود جاری ہے کہ صرف سرینگرشہرمیں کم ازکم پچاس بھارتی فوجی کیمپ قائم ہیں اوربھارتی قابض فوج کی تعداد وادیٔ میں مسلسل بڑھ رہی ہے ۔واضح رہے یہ فوجی کیمپ زیادہ سری نگرکے ڈاؤن ٹاؤن ایریازمیں قائم ہیں۔قابض فوج ایک جانب توکشمیری عوام کو دبانے کیلئے اورانہیں بھارت کے ساتھ وفاداری پرجبراًمائل کرنے کیلئے ظلم و ستم کے پہاڑتوڑ رہی ہے تودوسری جانب اس کے ذمہ کشمیرکی کٹھ پتلی حکومت اورکٹھ پتلی اسمبلی کے اراکین کو کشمیری عوام کے غیظ وغضب سے محفوظ رکھنے کیلئے حفاظتی ڈیوٹی انجام دے رہی ہے۔سرکاری بنگلوں میں مقیم اورمحصورہوکررہ جانے والی محبوبہ مفتی اوران کی کابینہ کے اراکین کوفوجی نگرانی میں نشاط باغ روڈ سے سیکرٹریٹ تک لمبے لمبے فوجی کانوائے کی صورت میں لاتی اورواپس لے جاتی ہے۔سرینگرکے حالات سے براہِ راست واقفیت رکھنے والوں کاکہناہے کہ سیکرٹریٹ میں مقامی کشمیریوں کی جگہ مقبوضہ صوبہ جموں اور دوسرے مقامات سے ہندوؤں کولاکر تعینات کیاگیاہے جومحض سیکرٹریٹ کے متحرک ہونے کاتاثراوربھرم قائم کرنے کیلئے بھاری معاوضے پر یہاں لاکر بٹھائے گئے ہیں۔ان ہندو دفتری اہلکاروں کونہ صرف یہ کہ خصوصی مراعات دی جاتی ہیں بلکہ ان کے طعام وقیام کوبھی سرکاری وسائل سے پورا کیا جاتا ہے تاکہ دنیاکویہ بتایا جاسکے کہ کشمیر حکومت کا سیکرٹریٹ مفلوج نہیں ہے اورسب اچھاہے۔

واقعہ یہ ہے کہ بھارتی قابض فوج کی طرف سے تقریباً دومہینوں کے دوران چلائی گئی گولیوں اورچھروں سے سیکڑوں کشمیریوں کی آنکھوں سے بینائی چھین کربھی بھارتی حکومت اس میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے کہ اہل کشمیرکواس کی آزادی کی راہ سے ہٹاسکے ۔سچی بات یہ ہے کہ بینائی سے محروم ہونے والے کشمیری نوجوانوں ،بچوں اورخواتین نے آزادی کی راہ دیکھ لی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جوں جوں بھارتی مظالم بڑھ رہے ہیںکشمیری نوجوانوں کی تحریک میںشدت آرہی ہے۔سرینگرکالال چوک محض اپنے نام کی وجہ سے نہیں بلکہ آزادی کے جذبے سے سرشار اہل کشمیرکے لہو کی وجہ سے لال ہے،اسی طرح کشمیرکے چنارکے روایتی درخت بھی کشمیرمیں بہائے جانے والے اہل کشمیر کے خون کی گواہی دے رہے ہیں۔ اپنی آزادی کی منزل پانے کیلئے اہل کشمیرنہ گولیوں سے ڈرنے کوتیارہیں نہ ہی ادویات کی قلت سے ان کے عزم میں کمزوری آسکی ہے اورنہ ہی انہیں بھوکوں مارنے کی مودی سازش اپنے راستے سے ہٹاسکی ہے ۔اب تک ٨٦سے زائدکشمیری برہان وانی کی شہادت کے بعداپنی جانیں قربان کرچکے ہیں جبکہ یہ تعدادان ہزاروں شہیدوں کی قربانی کاتسلسل ہے جنہوں نے ٩٠ء کی دہائی سے ایک نئے عزم کے ساتھ حریت کاسفرشروع کیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ ٨جولائی کو برہان وانی اپنے دوساتھیوں کے ساتھ شہیدہوئے تواگلے دن تین روزہ ہڑتال کے پہلے دن مزیدچارافرادنے اپنی جان جان آفرین کے سپردکردی۔ہڑتال کے تیسرے روزپھردوشہیدکردیئے گئے۔

وادیٔ کشمیرکاجنوبی علاقہ جوماضی میں جدوجہدآزادی کے حوالے سے شمالی کشمیرسے نسبتاًپیچھے سمجھاجاتاتھا،اب کی باراس نے بھی آگے بڑھ کرنہ صرف نعرۂ آزادی بلندکر دیاہے بلکہ جنوبی کشمیراس سفرمیں پیش پیش نظرآرہا ہے۔ اب کی بار تحریک آزادیٔ کشمیرکی خاص بات یہ ہے کہ اسے تھوڑے ہی وقت میں بھارت میں بھی محسوس کیا جانے لگاہے ۔پورا بھارت مودی کو اپنے لئے موذی سمجھنے لگاہے ۔نواب ہری سنگھ کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ نے بھی بھارتی راجیہ سبھامیں کہہ دیاہے کہ کشمیربھارت کااٹوٹ انگ نہیں ہے۔بھارتی کشمیرکی دفعہ ٣٧٠ اس کی عملی گواہی ہے جس میں کشمیرکوبھارت میں ضم ہوجانے والی ریاست کے طورپرنہیں دکھایاگیابلکہ ایک متنازعہ ریاست کے طورپرپیش کیاگیاہے۔اسی سبب دفعہ٣٧٠ میں ریاست جموں وکشمیرکو خصوصی اسٹیٹس دیاگیاہے لیکن سوال یہ ہے کہ کہ جنت نظیر کشمیرکوجہنم زار بنانے والے مودی سے موذی بن جانے والے بھارتی وزیراعظم کوعالمی برادری کب احساس دلائے گی، کب عالمی ضمیر جاگے گا،کب ذاتی تعلق پرقومی فرض اور ضمیرکی آوازغالب آئے گی؟؟؟وزیراعظم کی طرف سے بیس ارکان اسمبلی کو مختلف ممالک میں کشمیر کی صورتحال پربریفنگ کیلئے تو بھیجاجارہاہے لیکن کیایہ ممکن نہیں کہ آزادکشمیرکے حالیہ منتخب صدرجوکہ سابقہ سفارتی معاملات کابہترین تجربہ بھی رکھتے ہیں،ان کواس کام کیلئے اقوام عالم کی بڑی اور مؤثر طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے روانہ کیاجائے جوبھارت کوکشمیرکے معاملے پراقوام متحدہ کی قراردادوں پرعملدرآمد کیلئے مجبورکر سکیں نہ کہ بیس رکنی ارکان اسمبلی کوقومی خزانے کے خرچ پرسیرسپاٹے کیلئے روانہ کیاجائے۔

مقبوضہ کشمیرکی تحریک آزادیٔ میں مصروف کشمیریوں سے مکمل یکجہتی کیلئے اپنے دوست ممالک کی مددسے پاکستان کو فوری طورپراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کاہنگامی اجلاس بلانے کامطالبہ بھی کرناچاہئے جہاں اقوام عالم کاباورکرایاجائے کہ پاکستان اوربھارت دونوں جوہری طاقت بن جانے کے بعداب مسئلہ کشمیراقوام عالم کے امن کیلئے شدیدخطرہ ثابت ہوسکتاہے ۔بے گناہ معصوم کشمیریوں پربھارت کے ان مظالم پرپاکستانی قوم انتہائی کرب سے گزررہی ہے اورکہیں ایسانہ ہوکہ ایک معمولی سی چنگاری جہاں اس خطے کوبھسم کردے وہاں تیسری عالمی جنگ کاسبب بن جائے!
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.