جنرل ضیاء الحق کو اقتدار پر شب خون مارے
زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا ،بھٹو صاحب کے دور تک پاکستان میں انگور کی بیٹی
کے برے دنوں کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ملک کے بڑے شہروں کراچی اورلاہورکے بڑے
ہوٹلوں میں روزانہ شام کو ایک خاص طبقہ ڈانس پارٹیوں سے بھی لطف اٹھاتا
تھا۔مڈل کلاس کے لوگ تفریح کے لئے کم درجے کے ہوٹلوں کا رخ کرتے تھے۔ستر کی
دہائی تک پاکستان سیاحوں کے لئے ایک پرکشش مقام تھا اور بڑی تعداد میں غیر
ملکی اپنی چھٹیاں گزارنے کے لئے کراچی ،لاہور،کوئٹہ ،پشاور اورراولپنڈی کے
علاوہ پاکستان کے شمالی علاقوں کا رخ کرتے تھے ۔ راولپنڈی چونکہ مری یا
شمالی علاقوں کی طرف جانے کے لئے بیس کیمپ کی حیثیت رکھتا تھا اس لئے یہاں
ایلیٹ کلاس کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس کے غیر ملکیوں کی آمدو رفت بھی جاری رہتی
تھی ۔ان غیر ملکیوں کی تفریح طبع کے لئے راولپنڈی کا ایک ہوٹل بہت مشہور
تھا جہاں مقامی افراد بھی اپنی سہولت کے مطابق پہنچ جاتے تھے۔ جنرل ضیا ء
الحق اور ان کے ساتھیوں پر چونکہ اسلام نافذ کرنے کا بھوت سوار تھا اس لئے
ایک دن اس ہوٹل پرفوج کا چھاپہ پڑا اور مقامی افراد کے ساتھ ساتھ کچھ غیر
ملکی بھی دھر لئے گئے ۔ گرفتار ہونے والوں پر مقدمہ قائم ہوا اور کیس سرسری
سماعت کی فوجی عدالت کو بھیج دیا گیا ۔عدالت کا جج فوج کا ایک میجر جنرل
جوزف تھا۔فحش حرکا ت کے الزام میں پکڑے جانے والے مقامی افرادمیں سے بعض کے
ورثا کیس کی پیروی کے لئے ایک نوجوان وکیل راجہ ظفرالحق کے پاس پہنچے ۔
واقفیت کہیے یا رواداری، نوجوان وکیل نے فیس لئے بغیر ان کا کیس لڑنے کی
حامی بھر لی۔لیکن جب اس نے عدالت میں اپنا وکالت نامہ جمع کروایا تو فوجی
جج میجر جوزف نے نوجوان وکیل کو مشورہ دیا کہ’’ ہم ان ملزموں کو سزا دینے
کا فیصلہ کر چکے ہیں،کیس کی نوعیت بھی کچھ ایسی ہے کہ آپ کو شرمندگی ہو گی
اس لئے بہتر ہے کہ آپ یہ کیس نہ لڑیں‘‘نوجوان وکیل عدالت سے باہر نکلا اور
ملزموں کے ورثا سے معذرت کر لی۔میجر جوزف نے ان ملزموں کو سرعام کوڑے لگانے
کی سزا دی۔ راولپنڈی کے بینظیر ہسپتال کے سامنے اس وقت ایک بہت بڑا گراؤنڈ
ہوا کرتا تھا۔فیصلہ ہو ا کہ فحش حرکات کے مجرموں کو اسی گراؤنڈ میں کوڑے
مارے جائیں گے۔ راولپنڈی شہر گراؤنڈ میں امڈ آیا ،خلقت پر سکتہ طاری تھا ،
سرکاری ہرکاروں نے مجرموں کو ٹکٹکی پر با ندھا اور ان کی پیٹھ پر کوڑے
برسانے شروع کر دیئے۔کوڑا برستا تو مجرم کی چیخوں سے فضا گونج اٹھتی اور
گراؤنڈ میں جمع شہریوں کے دل دہل جاتے ۔ کوڑے مارنے کی یہ تصویر اگلے دن
بڑے اہتمام سے اخبارات میں شائع کی گئی ۔اس دور کو دیکھنے والے لوگ بتاتے
ہیں کہ اس واقع کے بعد راولپنڈی کے لوگ دور سے آتی کسی خاتون کو دیکھ کر
راستہ بدل لیتے تھے۔
نوجوان وکیل راجہ ظفرالحق نے، جو آج حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے صدر اور
سینیٹ میں قائد ایوان کے منصب پر فائز ہیں نے یہ کہانی خاکسارکو خود سنائی
۔ہم دونوں پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی کاوشوں سے
بننے والے ’’گلی دستور‘‘ میں موجود تھے اور تقریباََ پینتیس برس پرانی یہ
تصویر ہمارے سامنے آویزاں تھی ۔تصویر کے نیچے کیپشن تھا ’’آمریت کے خلاف
جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکن کو فوجی عدالت کے حکم پر کوڑے مارے جار ہے
ہیں‘‘۔راجہ صاحب نے کہا کہ یہ کوڑے فوجی عدالت کے حکم پر ہی مارے گئے لیکن
نہ تو یہ سیاسی کارکن ہے اور نہ ہی اسے سیاسی مقدمے میں سزا دی گئی ۔بجا
طور پر ان کایہ کہناتھا کہ تاریخ وہ مستند ہوتی ہے جس میں کوئی کمی بیشی نہ
کی جائے ،جب آپ فوجی آمریتوں کی تاریخ مرتب کرتے ہیں تو اس وقت بھی آپ کو
اپنے تعصبات یا نظریا ت کو ایک طرف رکھ کر مکمل غیر جانبداری سے اپنا فرض
ادا کرنا چاہیے ۔کسی بھی واقعے کی ادھوری نہیں بلکہ پوری تصویر پیش کرنی
چاہیے۔ ’’ گلی دستور‘‘ میں یحییٰ خان کی تصویر تو موجود ہے لیکن اس کی
کابینہ کی تصویر مو جود نہیں ہے اسی طرح ایوب خان کے عہد کو بھی ایک تاریک
دور کے طور پر دکھایا گیا ہے لیکن اس کی کابینہ کی کوئی تصویر اس گلی کی
زینت نہیں بن سکی ۔اس چیز سے انکار ممکن ہی نہیں کہ جنر ل ضیاء الحق نے
سیاسی کارکنوں پر مظالم ڈھائے اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر کے اس
ملک کی جڑوں کو مزید کھوکھلا کرنے میں بھرپور کردا ر ادا کیا۔لیکن بعض
اوقات عوام بھی ایسے نمائندے منتخب کرنے کی غلطی کر بیٹھتی ہے جو اپنی اصل
میں وردی والوں سے بڑھ کر آمر ہوتے ہیں ۔خاکسار کی رائے تو یہ ہے کہ آمریت
وردی میں نہیں ذہنوں میں پنپتی ہے۔
ایک چیز اس خاکسار نے بھی نوٹ کی کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں بنائی جانے والی اس
گلی میں محترمہ بینظیر بھٹو کی بطور وزیراعظم حلف لیتے ہوئے دونوں تصویریں
موجود ہیں لیکن ان دونوں تصویروں کے ساتھ وزیراعظم میاں نواز شریف کی وزارت
عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے ایک تصویر لگائی گئی ہے حالانکہ وہ تیسری بار وزارت
عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں ۔
چئیرمین سینیٹ کی طرف سے سیاسی اور عوامی حلقوں کو ملکی سیاسی تاریخ اور اس
کے اتار چڑھاؤ سے آگاہی دلانے کے لئے ’’گلی دستور‘‘ ایک اچھا آغاز ہے۔ گلی
دستورمیں پاکستانی تاریخ کے مدو جزر کو بیان کرنے کی ایک مستحسن کوشش کی
گئی ہے لیکن آئندہ نسلوں کو تاریخ کا سبق پڑھانے کے لئے یہ کافی نہیں ،ستر
برس کی تاریخ کو سات میٹر کی گلی میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن
ہے۔خاکسار کی تجویز ہے کہ ’’گلی دستور‘‘جو ایک منفرد آئیڈیا ہے اس کو ایک
پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر لیاجائے۔ اس کے ساتھ موجود کھلے ایریا کو شامل کر
کے یا الگ سے مناسب جگہ حاصل کر کے اپنی طرز کے اس میوزیم کو توسیع دی جائے
۔چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی مل کر تعلیم یافتہ اور قابل ارکان
پارلیمنٹ کے علاوہ غیر جانبدار مورخین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیں جو اس
توسیعی منصوبے میں رکھے جانے والے مواد کی منظوری دے ۔یہ مواد صرف تصاویر
اور فن پاروں پر مشتمل نہ ہو بلکہ اس میں صوتی اور بصری (آڈیو ،ویڈیو)مواد
کو اس طرح شامل کیاجائے کہ ’’گلی دستور‘‘ میں داخل ہونے والا فرد خود کو
قائد اعظم کے دور میں محسوس کرے اور پھر قدم بقدم تاریخ کا سفر مکمل کرے۔
یہ نہ صرف ایک تاریخی علمی کاوش ہو گی بلکہ عوام الناس کو ایک مثبت تفریح
بھی میسر آئے گی جس کی بدولت وہ اپنے وطن کی حقیقی تاریخ سے آگاہی حاصل کر
سکیں گے ۔ |