ستمبر کی ایک خوشگوار صبح میں اپنی بیگم
کے ساتھ جب سیرکرکے واپس آرہا تھا تو راستے میں فوجی جوانوں سے بھرے تین
ٹرک چلتے ہوئے دکھائی دیئے۔ فوجی جوانوں کو دیکھ کر یکدم میرا خون جوش
مارنے لگا اور یہ دیکھے بغیر کہ میں بائیک چلا رہا ہوں ٗ میں نے فوجی
بھائیوں کو سیلوٹ مارا ۔ بیگم نے حیرت سے پوچھا خیریت تو ہے آج فوجی
بھائیوں کو بہت سیلوٹ مارے جارہے ہیں ۔میں نے جواب دیا۔ان عظیم فوجیوں کو
کیوں سیلوٹ نہ ماروں جو میرے وطن عزیزکی خاطر اپنی جانوں کو نذرانہ پیش
کرتے ہیں ۔ میں نے کہا تمہیں یاد ہے کہ جب 1965ء کی پاک بھارت جنگ ٗمیں اس
وقت دس سال کا تھااور لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹروں میں والدین کے ہمراہ
رہائش پذیر تھا۔ سرحد پر جب توپوں کے گولے چلتے تو نہ صرف ان کے شعلے
دکھائی دیتے بلکہ ہمارے گھروں کے در دیوار ہلنے لگتے۔ جبکہ پاک فوج کے ایسے
ہی جوان سیہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دشمن کو منہ توڑ جواب دے رہے تھے۔ ا س
لمحے والدہ نے مجھے چارپائی کے نیچے چھپا رکھا تھا ۔ جب خطرے کا سائرن بجتا
تو ہم مورچے میں چھپ جاتے لیکن شدید خطرے کے ان لمحات میں ہمارے فضائی
سرفروش بھارتی طیاروں کا نہ صرف راستہ روکتے بلکہ ان کا غرور خاک میں ملا
دیتے۔ پھر میں جب والدہ کے ہمراہ لاہور سے عارف والا ( ننھیال ) بذریعہ
ٹرین جارہا تھا ۔جب گاڑی گنگن پور اسٹیشن کے قریب پہنچی تو دو بھارتی
طیاروں نے انتہائی نچلی پرواز کرکے ٹرین میں سوار تمام مسافروں کو خوفزدہ
کردیا۔اس لمحے ہمیں سیٹوں کے نیچے چھپا کر ماں آیت الکرسی پڑھ کر کھڑکی سے
دشمن طیاروں پر پھونکیں مارنے لگیں ۔شاید ماں کی انہی پھونکوں کااثر تھا کہ
چند ہی منٹوں بعد سرگودھا سے پاک فضائیہ کاایک شاہین مدد کو آپہنچا اس نے
دونوں بھارتی طیاروں کا کچھ اس طرح تعاقب کیا کہ وہ ٹرین پر بم نہ گرا سکے
۔بالاخر دونوں کو تباہ کرکے وہ شاہین مسافروں کے نعروں کی گونج میں واپس
چلاگیا۔میں نے بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تمہیں اس بات کی خبر ہے جب1948ء
میں بھارتی فوج نے وادی کشمیر پر زبردستی قبضہ کرلیا تھا یہ قبضہ چھڑانے کے
لیے پاک فوج کی بکھری ہوئی نفری نے کیپٹن راجہ محمد سرور کی قیادت میں اپنی
جان کا نذرانہ پیش کرکے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کروایا جسے آج ہم آزادکشمیر
کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔1958ء میں جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان کے
سرحدی قصبے لکشمی پور پر رات کے اندھیرے میں قبضہ کرلیا تھا ۔پاک سرزمین کے
اس حصے کو دشمن کے ناپاک وجود سے آزاد کروانے کے لیے میجر طفیل محمد کی
قیادت میں ایک ایسا خونی معرکہ لڑاگیا جس میں میجر طفیل محمدنے چند ساتھیوں
جام شہادت نوش کیا لیکن وطن عزیز کے اس گوشے کو دشمن سے آزاد کروا لیا ۔65
کی جنگ میں سیالکوٹ پر بھارتی فوج چھ سو ٹینکوں کے ساتھ حملہ آور ہوئی تھی
اور اتنی بڑی تعداد میں ٹینکوں سے لیس بھارتی فوج کو روکنا تقریبا ناممکن
تھا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ پا ک فوج کے ایسے ہی جوانوں نے اپنے جسموں سے بم
باندھ کر نیچے لیٹ کر ٹینکوں کے ایسے پرخچے اڑائے کہ بھارتی فوج کو الٹے
پاؤں بھگانا پڑا ۔ میں نے کہا تم نے نہیں دیکھا کہ جب بھارتی فوج اور لاہور
کے درمیان صرف بی آر بی کی رکاوٹ ہی باقی رہ گئی تھی تو کس طرح میجر عزیز
بھٹی کی قیادت میں پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر لاہور کی
جانب بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے قدم روک دیئے تھے۔ میں نے کہا تمہیں یادنہیں
جب 20 اگست 1971ء کو پاک فضائیہ کے ایک طیارے کو بھارتی ایجنٹ انسٹرکٹر کے
روپ میں اغوا کرکے بھارت لے جانا چاہتا تھا تو راشد منہاس نے اس منصوبے کو
کیسے ناکام بنایااور خود جام شہادت نوش کیا تاکہ وطن کی عزت اور وقار پر
کوئی حرف نہ آئے۔میں نے بیگم سے مخاطب ہوکر کہا تم میجر شبیر شریف کو جانتی
ہو 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران دسمبر کے اس مہینے جبکہ سردی سے نہروں
اور دریاؤں کا پانی بھی جم جاتا ہے پاک فوج کے اس شیر دل افسر نے اپنے
ساتھیوں سمیت ہیڈسلیمانکی سیکٹر میں برف کی طرح ٹھنڈے پانی میں کود کر نہر
کو اس لمحے عبور کیا جب بھارتی فوج شدید ترین گولہ باری کررہی تھی اور دس
کلومیٹر بھارتی علاقہ فتح کرکے دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا ۔
تم سوار محمد حسین کا نام تو سن رکھاہوگا جس نے ڈرائیور ہونے کے
باوجود1971ء کی پاک بھارت جنگ میں ظفروال سیکٹر کے علاقے میں اس قدر بہادری
کا مظاہرہ کیا کہ دشمن کے بڑھتے ہوئے قدم روک گئے۔اس کے بھی بیوی بچے تھے
اس کا دل بھی چاہتا ہوگا کہ وہ بھی اپنی زندگی آرام سے گزارے پھر کس نے اس
کو مجبور کیا کہ وہ اپنی فرائض منصبی سے بڑھ کر ملک و قوم کی سلامتی کے لیے
اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے ۔ آج کی نوجوان نسل نے مشرقی پاکستان کا نام تو
شاید سنا ہو لیکن مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے پاک فوج کے کتنے سرفروشوں
نے جانوں کانذرانہ پیش کیا اس کا ہماری نوجوان نسل کو علم نہیں ہے۔ میجر
محمداکرم جنہیں بعد از شہادت پاک فوج کی جانب سے نشان حیدر دیاگیا وہ دیناج
پور سیکٹر کے ہلی محاذ پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے رہے ۔لانس
نائیک محمد محفوظ شہید ٗکیپٹن (کرنل )شیرخان شہید ٗ حوالدار لالک جان شہید
یہ پاک فوج کے وہ سرفروش ہیں جنہوں نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے
بھارتی فوج کو ایسا سبق سیکھایا جس کو عسکری تاریخ میں سنہری لفظوں سے
ہمیشہ لکھاجاتارہے گا ۔ وطن عزیز کی حفاظت کے لیے اتنی بڑی قربانیوں کے
باوجود کیا میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو سیلوٹ نہ کروں کیا ان کا
یہ حق نہیں ہے ۔ یہ سیلوٹ فوجی جوانوں کو معمولی خراج تحسین ہے ۔ جس کے وہ
بلاشبہ حق دار ہیں اور یہ حق ہر محب وطن پاکستانی کو ادا کرنا چاہیئے۔ |