حج۔۔۔ عظیم تربیت ساز روحانی اجتماع
(Rasheed Ahmed Naeem, Patoki)
(دنیا میں امن قائم کرنے، قوموں کی دشمنیوں
کو مٹانے اور لڑائی جھگڑوں کی بجائے محبت و دوستی اور اخوت و برادری کی فضا
پیدا کرنے کے لیے حج سے بہتر نسخہ کسی نے تجویز نہیں کیایہ وہ نعمت ہے جو
اسلام کے سوا اولاد ِ آدم کو کسی نے عطا نہیں کی۔حج کے موقع پر خصوصی
تحریر)
اسلام کے پانچ ارکان میں حج پانچواں رکن ہے ۔حج عربی زبان کا لفظ ہے جس کے
لغوی معانی ’’ ارادہ کرنا‘‘ہے یعنی زیارت کا ارادہ کرنا۔ شریعت میں اسے حج
اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں ایک مسلمان بیت اﷲ شریف کی زیارت کا ارادہ
کرتا ہے ۔حج ہر عاقل ،بالغ اور صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت پر زندگی
میں ایک بار فرض ہے۔ارشاد خدا وندی ہے ’لوگوں پر اﷲ کا یہ حق ہے کہ جو بھی
استطاعت رکھتا ہو ، وہ اس کے گھر کا حج کرے‘‘ جبکہ ارشاد نبویﷺ ہے ’’جس شخص
کو بیماری ، واقعی
ضرورت یا ظالم حکمران نے روک نہ رکھا ہو اور وہ اس کے باوجود حج نہ کرے ،
تو چاہے وہ یہودی مرے، چاہے نصرانی‘‘دین ِ اسلام میں حج کو بہت اہمیت حاصل
ہے۔حج ادا کرنے والوں کے لیے بہت زیادہ اجر و ثواب ہے ۔سفر ِ حج کا ارداہ
کرنے کے بعد جوں جوں انسان اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے ، اس کے اندر نیکی کا
جزبہ پروان چڑھتا ہے ۔اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس سے کسی کو اذیت نہ پہنچے۔
وہ حرم الہی کا مسافر ہونے کی حیثیت سے ہر بُرے کام سے باز رہتا ہے۔ اس طرح
اس کا یہ پورا سفر عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ وہ اپنا دامن نیکیوں سے بھرنے
میں مصروف رہتا ہے۔حج مسلمانوں میں روحانی پاکیزگی حاصل کرنے، زندگی بھر کے
گناہ بخشوانے،آئندہ گناہوں سے بچنے، اور باہمی اتحاد اور نظم و ضبط پیدا
کرنے کا بے مثال ذریعہ ہے۔حج اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کے گھر میں حاضر
ہو کر اس کی بندگی کا بہتر ین موقع فراہم کرتا ہے۔حج سے بے شمار روحانی
فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔حج کے عمل سے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص وابستگی کی
تربیت ملتی ہے۔حج ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کو ایک وقت میں ، ایک ہی مرکز
پر لاکھوں کی تعداد میں جمع کرتا ہے ۔ جو اجتماعی عبادت کے ذریعے گناہوں کی
معافی مانگتے ہیں روحانی پاکیزگی حاصل کرتے ہیں۔ذرا اس خوبصورت منظر کا
تصور تو کیجیے کہ بے شمار اقوام و ممالک کے لاکھوں لوگ ہزاروں راستوں سے ہو
کر ایک مرکز کی طرف چلے آ رہے ہیں۔شکلیں،رنگ اور زبانیں مختلف ہیں مگر مرکز
ایک ہے ، منزل ایک ہے اور پھر مرکز کے قریب ایک خاص حد تک پہنچتے ہی سب
اپنے اپنے قومی لباس ترک کر دیتے ہیں۔ایک ہی طرز کا سادہ سا یونیفارم پہن
لیتے ہیں جسے احرام کہا جاتا ہے۔ اس کے پہنتے ہی ایسا لگتا ہے کہ سلطان ِ
عالم اور زمین و آسمان کے مالک کی یہ فوج جودنیا کی ہزاروں قوموں سے بھرتی
ہو کر آرہی ہے۔ایک ہی بادشاہ کی فوج ہے۔سب ایک ہی بادشاہ کے دربار میں پیش
ہونے جا رہے ہیں۔یہ یونیفارم پہنتے ہی،اﷲ کے یہ سپاہی جب( میقات احرام
باندھنے کی مقررہ جگہ) سے آگے چلتے ہیں تو ان سب کی زبانوں پر ایک ہی نعرہ
بلند ہوتا ہے ’’ حاضر ہوں اے اﷲ میں حاضر ہوں ۔ میں حاضر ہوں۔تیرا کوئی
شریک نہیں ہے۔ میں حاضر ہوں۔یقینا تعریف سب تیرے ہی لیے ہے۔نعمت سب تیری
ہے۔ساری بادشاہی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘‘۔بولیاں سب کی مختلف ہیں
مگر نعرہ سب کا ایک ہے ۔ایک ساتھ نمازیں پڑھتے ہیں۔سب کا امام ایک ،سب کی
ایک حرکت،سب کی عبادت کی ایک زبان ، سب ایک اﷲ اکبر کے اشارے پر اُٹھتے
بیٹھتے اور رکوع و سجود کرتے ہیں۔سب ایک قرآن کو پڑھتے اور سنتے ہیں۔یوں
زبانوں، نسلوں،قومیتوں،ملکوں،علاقوں اور رنگوں کا امتیاز وفرق اور اختلاف
مٹ جاتا ہے۔ایک اﷲ کے ماننے والوں کی ایک عالمگیر جماعت تشکیل پاتی ہے۔اور
پھر جب یہ عظیم اجتماع یک زبان ہو کر حاضر ہوں اے اﷲ میں حاضر ہوں کا نعرہ
بلند کرتا ہے تو ایک عجیب سی فضا پیدا ہوتی ہے جس کے نشے میں سرشار ہوکر
آدمی اپنی ذات کو بھول جاتا ہے اور اس لبیک کی کیفیت میں کھو کر رہ جاتا
ہے۔مناسک ِ حج کی ادائیگی کے لیے سب کا منیٰ میں کیمپ لگانا،عرفات کی طرف
کُوچ کرنا ،وہاں ایک امام سے خطبہ سننا،رات کو مزولفہ میں چھاؤنی ڈالنا،پھر
سب کا منیٰ کی طرف پلٹنا ، جمرات پر کنکریاں مارنا،سب کا ایک ساتھ قربانی
کرنا اور پھر سب کا ایک ساتھ کعبے کی طرف پلٹ کر طواف زیارۃ کرنا اور سب
کاایک ہی مرکز کے گرد نماز ادا کرنا ۔۔۔۔ یہ سب اعمال وہ کیفیت پیدا کرتے
ہیں جس کی مثال پوری دنیا میں یا کسی مذہب میں نہیں ملتی۔مسلمانوں کے لیے
حج ایک عظیم نعمت ہے ارشاد ِ نبویﷺ ہے کہ ’’ بے شک حج گناہوں کو اس طرح دھو
ڈالتا ہے جیسے پانی میل کچیل کو دھو ڈالتا ہے‘‘۔حج ایک عظیم عبادت ہے۔اﷲ
تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں حاجی اپنے گھر بار چھوڑ کر حج کے واسطے مشقت
بھرا سفر اختیار کرتے ہیں، اس طرح حج ان کو عیش و عشرت اور آرام و سکون
چھوڑ کر مالک ِ حقیقی کی سچی راہ اختیار کرنے کی تربیت دیتا ہے۔برابری اور
مساوات کا خاص احساس پیدا کرتا ہے۔سنت ِ ابراہیمی کے مطابق قربانی کرنے سے
حاجیوں کو ذاتی مال و دولت اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کی تربیت فراہم کرتا
ہے۔شیطان سے نفرت کے اظہار کے لیے کنکر برسائے جاتے ہیں جس سے حاجیوں کو
انسان کے کھلے دشمن شیطان سے بچاؤ کا موئثر سبق ملتا ہے۔دنیا میں امن قائم
کرنے، قوموں کی دشمنیوں کو مٹانے اور لڑائی جھگڑوں کی بجائے محبت و دوستی
اور اخوت و برادری کی فضا پیدا کرنے کے لیے حج سے بہتر نسخہ کسی نے تجویز
نہیں کیایہ وہ نعمت ہے جو اسلام کے سوا اولاد ِ آدم کو کسی نے عطا نہیں کی |
|