عید قربان سے ایک روز قبل وٹس ایپ پر ایک پیغام ملا کہ "
اگرعید کے نماز کے دوران دوسری مرتبہ مولوی کے بجائے کسی اور طرف سے اللہ
اکبر کی آواز آجائے تو جلدی سے لیٹ جائیں " کیونکہ یہ کچھ اور ہوسکتا ہے-
تحریر پڑھ کر ہنسی بھی آئی لیکن ساتھ میں افسوس بھی ہوا کہ ہم اپنے آپ کو
دنیا بھر میں بہترین مسلمان کہلواتے ہیں اور ساتھ میں جنت کے ٹھیکیدار بھی
بنتے ہیں لیکن حال ہمارا یہ ہے-یہ پہلی عید تھی جوراقم گھر اور ملک سے دور
اپنے صحافی دوستوں کے ساتھ بھارتی شہر چنائی میں منارہا تھا سارک ممالک سے
تعلق رکھنے والے صحافیوں کی تربیت کیلئے کئے جانیوالے اس پروگرام میں
افغانستان ، پاکستان ، سری لنکا ، بھوٹا ن ، نیپال ، مالدیپ ، اور بنگلہ
دیش سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو مختلف شعبوں میں تربیت دی جارہی - یہاں
پر آنیوالے مختلف ممالک کے صحافیوں کے عید کے موقع پر اپنے ہی پروگرام تھے-
تاہم عید کی نماز سب کی پہلی ترجیح تھی ہاسٹل سے صبح سویرے نزدیکی مسجد چلے
گئے جہاں پر عید کی نماز ادا کی جارہی تھی مسجد خراسانی ادیار کے نام سے
مشہور اس مدرسے میں آنیوالے بیشترمقامی لوگوں نے دھوتی اور شرٹ جبکہ کچھ
لوگوں نے جینز اور ٹی شرٹ پہن کر نماز ادا کی -ہمارے ہاں تو جینز اور شرٹ
میں نماز پڑھنا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے ہمارے مولوی صاحبان سمجھتے ہیں کہ یہ
کافروں کا لباس ہے - اللہ ہی ہمارے حال پر ر حم کرے-
مسجد میں داخل ہوتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں بھک منگے تھے جن میں خواتین
اور بوڑھے اور بچے بھی شامل تھے جنہیں دیکھ کر یقین ہوگیا کہ یہاں بھی غربت
کافی ہے اور لوگوں کا ہاتھ پھیلانا دنیا بھر میں بڑھتا جارہا ہے ان میں
ایسے لوگ بھی دیکھے جو سب لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے تھے لیکن کوئی
دوسرا بھیک منگا نزدیک آتا تو اسے تامل زبان میں غصے کرتے کہ نزدیک مت آؤ-
مسجد میں جب جوتے رکھنے کی باری آئی تو افغانستان سے تعلق رکھنے والے صحافی
دوست نے کہہ دیا کہ چپلیاں مت اٹھاؤ ادھر ہی چھوڑ دو حالانکہ چپلیاں اٹھانے
اور ساتھ لے جانیکا مقصد چپلیاں چوری ہونے سے بچانا تھا ہماری وجہ سے بنگلہ
دیش سے تعلق رکھنے والے صحافی نے بھی چپلیاں چھوڑ دی - مسجد کے اندر داخل
ہوتے ہی موتیے کی خوبصورت خوشبو نے احساس دلا دیا کہ موتیے کے پھولوں کی
خوشبو یہاں بھی پہنچ ہوئی ہیں-مسجد میں بیٹھنے کے بعد دل ہی دل میں چپلیاں
چھوڑ دینے کے اپنے عمل کو غلط قرار دے رہا تھا کہ چلو عید کا دن ہے اگر کسی
نے چپل چرا لئے تو پھر ایک نئی مصیبت یہاں پیدا ہوگی-
ہمارے ہاں پشاور میں عید کے موقع پر لوگ چپلیوں کا خاص طور پر خیال رکھتے
ہیں کیونکہ اگر مسجد آپ نے باہر چھوڑ دئیے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے یہ
چپلیاں اگر پرانی ہو تو پھر کسی حد تک امکان ہے کہ چوری نہ ہو جائے لیکن
اگر نئی ہو تو پھر اس سے ہاتھ دھو ہی رکھے - اسی باعث ہم لوگ مسجدوں میں
جہاں اللہ کے سامنے سجدہ کرکے سر رکھتے ہیں وہیں پر چپلیاں بھی رکھتے ہیں
کیونکہ پیچھے رکھنے کی صورت میں چپلیاں چوری ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور
بیشتر لوگ نمازوں کے دوران پیچھے رہ جانیوالے چپلیوں کا سوچتے ہیں ایسے میں
اللہ کے سامنے کیسے نماز ہوتی ہے اس کا اندازہ سب کو ہے-ہمارے ہاں جمعہ کے
نماز اور عید کے نماز پر سیکوررٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں تلاشی دینے کے
بعد مسجدوں میں داخل ہوتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں کسی کو جانے کی اجازت
نہیں ملتی - اور یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ پشاور میں نماز جمعہ اور عید کے
موقع پر ہونیوالے نمازوں کے دوران میں حملوں اور دھماکوں کا سوچتا ہی
رہتاکہ خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے- لیکن....
چنائی میں نماز عید کے موقع پر ہونیوالے بڑے اجتماع پر کسی نے سیکورٹی کے
نام پر نہ تو تلاشی لی نہ ہی نماز کے دوران یہ ڈر لگا کہ خدانخواستہ کچھ ہو
جائے گا-نماز پڑھنے سے قبل مولوی صاحب نے تامل زبان کیساتھ ہندی زبان میں
نماز پڑھنے کا طریقہ بھی بتا دیا کہ عید کی نماز کی تکبیریں کس طرح پڑھنی
ہے- نماز پڑھ لی اور پھر جلدی سے مسجد کے باہر یہ دیکھنے کیلئے نکلاکہ کہیں
کوئی چپلیاں اٹھا کر نہیں لے گیا ہو- یہ دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ نہ صرف
میری چپلیاں بلکہ اس سے بہت قیمتی چپلیاں پڑی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ
خواتین ، بوڑھے اور بچے بھک منگے بیٹھے ہوئے تھے لیکن مجال ہے کہ کوئی چپلی
چوری ہوئی ہو- یا اللہ یہ کیسے کافروں کا ملک ہے جہاں چپلیاں چوری نہیں
ہوتی- ہم تو مسلمان ہیں لیکن ہمارے مسجدوں میں چپلیاں چوری ہوتی ہیں-مسجدیں
بم دھماکوں اور خودکش حملوں کا نشانہ بنتی ہیں اور ساتھ میں بغیر ڈکار لئے
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی اسلامی ٹھیکیدار ہیں - اپنی سوچ پر افسوس بھی
ہوا- نماز عید کے بعد جموں و کشمیر کے چند دوستوں سے ملاقات ہوئی جو یہاں
کے مقامی یونیورسٹی میں پڑھنے کیلئے آئے تھے اور ماحولیات پرریسرچ کررہے
تھے ان کی تین سال کی پی ایچ ڈی تھی اور ان لوگوں کو بھارتی حکومت سالانہ
امداد دے رہی تھی-یہاں کے مقامی یونیورسٹی میں پڑھنے والے ان ریسرچر میں
تین مرد اور ایک خاتون بھی شامل تھی جو نماز عید پڑھنے کیلئے آئی تھی-ہم
لوگوں کے ذہنوں میں کشمیر کا تصور کیا ہے اور یہاں کشمیری نوجوانوں کو دیکھ
کر خوشی بھی ہوئی ان کشمیری نوجوانوں نے عید اور کرکٹ کے حوالے سے کہا کہ
ہم عید اور کرکٹ پرپاکستان کو سپورٹ کرتے ہیں باقی ہمارا کچھ لینا دینا
نہیں-خوشی اس بات کی ہوئی کہ یہ ریسرچر بھارتی حکومت کی امداد پر یہاں
انوائرمنٹ کے شعبے میں ریسرچ کررہے تھے ان کے ساتھ گپ شپ ہوئی-افغانستان سے
تعلق رکھنے والے ہمارے ساتھی نے مقامی ہوٹل میں پراٹھے کھانے کا پروگرام
بنایا اور پھر کشمیری ریسرچرز کیساتھ پراٹھے کھائے- جس کا اپنا ہی مزہ تھا
-
بھارت میں بی جی پی کی حکومت آنے کے بعد گائے کو ذبح کرنے پر تو پابندی ہے
لیکن یہاں کے مقامی مسلمان دنبے اور بکریاں عید پر ذبح کرتے دکھائی دئیے-
لیکن اس قربانی کی سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی طرح ہر کوئی
گلی گلی میں قربانی کرتا دکھائی نہیں دیگا بلکہ مخصوص جگہوں پر قربانیاں
ہوتی ہیں- مسجد کے ساتھ والی جگہ پر بکروں کو لایا گیا تھا جہاں پر بکروں
اور دنبوں کی قربانی کے بعد صاف گوشت لوگ اٹھا کر لے گئے ہمارے ہاں تو
قربانی کے بعد لوگ اوجھڑی گلی میں صاف کرتے ہیں اور پھر گندگی نالی میں ڈال
دیتے ہیں تاکہ بروقت ضرورت کام آئے اور لوگوں کو یہ بھی اندازہ ہو کہ ہم
لوگوں نے قربانی کی ہے - ہماری جھوٹی انا اور جھوٹی خواہشوں نے ہمیں کہاں
پر لاکھڑا کیا ہے اس کا اندازہ ہر ایک کو اپنے گریبان میں ڈال کر کرنے کی
ضرورت ہے-فریزروں میں گوشت رکھ کر مہینوں تک کھانے والے ہم مسلمانوں سے اس
سیکولر ملک میں رہنے والے مسلمان ہی اچھے ہیں جنہیں اس بات کا بھی اندازہ
ہے کہ گندگی نہیں ڈالنی اور ساتھ میں قربانی کے بعد پورا گوشت لے جانیکی
سوچ بھی نہیں-
مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد کالج کے ہاسٹل میں آتے ہی طلباء و طالبات جن
میں بیشتر ہندوں اور سکھ سمیت جین مذہب کے لوگ بھی تھے اتنی خوش اخلاقی سے
ہر کوئی آکر عید کی مبارک باد دیتا کہ حیرانگی ہورہی تھی تہوار ہمارا ہے
اور اتنے اچھے انداز میں تو ہم مختلف مسلمان ممالک سے آنیوالے صحافیوں نے
بھی ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد نہیں دی جتنی کہ ان لوگوں نے دی- کمرے
میں بیٹھ کر ہم دوست یہی ڈسکس کرتے رہے کہ ہم لوگ کہنے کو تو مسلمان ہیں
لیکن ہماری بداخلاقی عروج پر ہے جبکہ بقول ہمارے یہ کافروں کا سیکولر ملک
ہے لیکن ان لوگوں کی خوش اخلاقی اور مختلف ممالک کیساتھ تعلق رکھنے والے
طلباء و طالبات کیساتھ ان کا رویہ ہی انہیں سب سے منفرد بنا رہا ہے- اسی
بحث کے دوران فیس بک پر میسج ملا کہ پاکستانی شہر شکارپورر سمیت سوات میں
دہشت گردوں نے پولیس موبائل کو ٹارگٹ کردیا- یہ پڑھ کر افسوس بھی ہواکہ یہ
کیا ہورہا ہے اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنیوالے ملک میں مذہب کے نام
پر لوگوں کومارا جارہا ہے -خدا ہمارے حال پر رحم کریا |