وہ مسرت اب چہرے پر نظر آرہی تھی

صابر ---یہ تھا ان صاحب کا نام جو ہمارے محلے میں رہتے تھے - - یہ تقریباً پانچ عشرے یعنی پچاس سال قبل کی بات ہے -

گھر کا رہن سہن دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ روکھی سوکھی کھا کر خاموشی سے اس خاندان کے افراد زندگی کے دن گزار رہے ہیں - بچے جب باہر کھیلنے آتے تو پتہ چل جاتا تھا کہ کپڑے نئے چمکدار نہیں لیکن صاف ستھرے اور اجلے ضرور ہیں -

پھر خاندان میں کچھ ایسے مسائل در آئے کہ غربت صابر خان کے دروازے پر دستک دینے لگی - صابر خان کے والد کسی مرض کا شکار ہو کر پلنگ کے ہو رہے- ادھر دفتر میں بھی کسی غلطی کے سبب صابر خان کی تنخواہ میں کمی کردی گئی - دودھ والے نے محلے میں لوگوں کو بتایا کہ گھر والوں نے دودھ کی مقدار میں کمی کر دی ہے - بچے جو پہلےکسی جگہ ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے وہاں سے نکال کر کسی کم فیس والے ٹیوشن سینٹر میں داخل کر دیا گیا - محلے والوں نے بھی یہ دستک سن لی تھی- کچھ نے سنکر ان سنی کردی تھی اور کچھ نے سن کر قران سنا کیا اوراس کے حکم کے مطابق عمل کیا - اس خاندان سے تعاون کر نے لگے -

عید قربان آئی - قربانی ہوئی -لوگ صابر صاحب کے گھر خصوصی طور پر گوشت لے جا کر دیتے رہے - -مجھے یہ محسوس ہوا کہ گوشت پہنچتا تو ایک حقیقی مسرت کا تاثر صابر خان کے چہرے پرعیاں نہیں ہو تا تھا - لیکن اس کے باوجود وہ خوشی کا اظہار ضرور کرنے کی کوشش کرتے - لگتا تھا کہ کچھ پریشانی لاحق ہے -

وہ کیا شے ہے جو چہرے پرمسرت لائے گی ؟ میں اس وقت چودہ پندرہ برس کا تھا - میں نے اپنے آپ سے سوال کیا- لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آیا -

اچانک ایک بچہ عمر چھ سات سال ، جو ساتھ والے گھر میں رہتا تھا مجھے بلانے آیا کہ امی بلا رہی ہیں -

میں چلا گیا - "بیٹا منیر - یہ کھال لے جا کر صابر خان کے گھر پہنچا دو -" میں نے کھال اٹھائی - کافی بھاری تھی اور اس کے ساتھ ہی جو بوری تھی وہ بذات خود بھی بہت بھاری تھی - اس زمانے میں میں پٹ سن کی بنی ہوئی بوریاں استعمال کی جاتی تھیں - خیر میں نے لے جا کر کھال صابر خان کے گھر پہنچائی اور بوری واپس اس کے مالک کے گھر پہنچائی -

جب میں قربانی کی کھال صابر خان کے حوالے کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ان کے چہرے کی عجیب سی کیفیت ہو گئی تھی - ہونٹ ہلتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے - ایسا لگتا تھا کہ مسکراہٹ آئی ہے اور اس عالم میں ہونٹوں کی دہلیز پار کر نے میں ناکام ہو گئی ہے اور صرف ہونٹ ہلتے ہی رہ گئے - لیکن چشم نمیدہ نمیدہ تھی - آخر آنسو کا ایک قطرہ آنکھ کے کونے میں آکر ٹک ہی گیا اور ستارہ بن کر چمکنے لگا - لرزیدہ ہاتھوں سے کھال وصول کی-

کوئٹہ ان دنوں ایک چھوٹا سا شہر تھا - میں مارکیٹ چوک کے پاس گذر رہا تھا - صابر خان نظر آئے - ان کے ہاتھ میں کھال تھی - وہ کسی سے اس کا مول تول کر رہے تھے - میں ایک طرف کھڑا ہو گیا - میں نے دیکھا کہ صابر خان کو کافی پیسے مل گئے تھے - صابر خان قریب ہی واقع دواؤں کی دکان یعنی میڈیکل اسٹور گئے - اور دوائیاں خریدیں - مجھے یاد آیا کہ صابر خان کے والد کئی دنوں سے بیمار تھے -

وہ مسرت جس کا میں صابر خان کے چہرے پر متلاشی تھا اب نظر آرہی تھی -

عید الاضحیٰ کے موقع پر ہر جگہ گوشت کا تذکرہ ہوتا ہے - ٹی وی پر مذاکرے ہوتے ہیں کہ اس کی تقسیم کیسے کی جائے - ریڈیو سے اس بارے میں پند و نصائح نشر کئے جاتےہیں لیکن کھال کی بابت کم ہی بات کی جاتی ہے - ذرا اس کا بھی سوچیں - آج کل امتحانات کے نتائج آرہے ہیں - بچوں کو داخلے کے لئے - کتابوں کے لئے - مختلف فارموں کے لئے - نئی یونی فارم کے لئے - ایک دفتر سے دوسرے دفتر جانےکے لئے پیسوں کی ضرورت ہے - ایسے افراد کو قربانی کی کھال پہنچا کر ان کے مالی مسائل حل کئے جا سکتے ہیں-

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 332689 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More