کسی بھی شاعر کے افکار و نظریات پر بحث کرتے وقت اگرچہ
اکثر حالتوں میں اس کے اپنے ہی کلام سے ایسی بہت سی شہادتیں دستیاب ہو جاتی
ہیں جو زیرِ بحث موضوع کیلئے کافی ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود بیرونی و
خارجی اثرات کا مطالعہ الجھے ہوئے مسائل کو روشن اور واضح کرنے کیلئے ضروری
ہوتا ہے۔
علامہ اقبال نے جس زمانے میں آنکھ کھولی اس وقت مشرق و مغرب میں زندگی کے
مختلف شعبوں میں عجیب و غریب انقلاب ظہور پذیرہو رہا تھا۔ مشرق کی جہانگیری
و جہانبانی ختم ہو چکی تھی اور ہر سمت زوال اور پستی کا دور دورہ تھا۔
ہندوستان کی فضا سوراج کے نغموں سے معمور تھی۔ ان حالات میں اقبال نے وطنیت
کے جذبے کو اُجاگر کرنے کیلئے خوبصورت نظمیں لکھیں جن میں اہلِ مشرق کومغرب
کی تقلید سے بازرکھنے اور ان میں وطن اور قوم سے محبت کا جذبہ پیدا کرنے کی
بات کی گئی۔ مزید برآں اقبال نے مرد مومن کا آفاقی تصوّر پیش کیا۔
کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انقلاب ہمیشہ مرد ِمومن کا مرہونِ منت رہا ہے۔
یوں تو نطشے، برگساں اور ارسطو نے بھی اس سے ملتے جُلتے نظریات پیش کئے ہیں
اور خصوصاً نطشے نے جو مردِ کامل کا نظریہ پیش کیا وہ اقبال کے نظریہ سے
کافی حد تک مماثلت بھی رکھتا ہے لیکن اقبال کا مردِ مومن نطشے کے فوق البشر
کی مانند نہیں جو جس آئین اور مقصد کی پابندی کر رہا ہوتا ہے وہ اس کی
تفصیل اور اغراض و مقاصد سے بھی آگاہ نہیں ہوتا۔ اور نہ اقبال کا مردِ مومن
ارسطو کے خیالی انسان کی طرح ہے جس کے اعمال کی تفصیل اور سوسائٹی کا خاکہ
تک دستیاب نہیں۔ اقبال کا مردِ مومن تو جلال و جمال کا مجموعہ ہے، اس پر
قرآن کی گہری چھاپ نظر آتی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اقبال خود مفکرِّ
قرآن تھا۔ اقبال کا مردِ مومن قرآن و حدیث کا پابند ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ
جو لوگ دنیا کو حاصل کرنے کو کوشش کرتے ہیں دنیا اُن کے آگے آگے بھاگتی ہے
اور جو لوگ دنیا سے بے گانہ ہو جاتے ہیں دنیا اُن کے پیچھے بھاگتی ہے۔
اقبال نے بھی مردِ مومن کے ضمن میں حدیث کے یہی الفاط دہرائے ہیں اور
فرماتے ہیں۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گُم اِس میں ہے آفاق
اقبال کا مردِ مومن پیکرِ صبرو رضاہے،حلیم الطبع اور منکسر المزاج ہے لیکن
جب اس کی مسکراتی انسانیت ا ور شگفتہ تہذیب کی طرف کوئی میلی آنکھ سے
دیکھتا ہے تو پھر یہی حلیم الطبع انسان شعلۂ جوالہ بن جاتا ہے۔ مردِ مومن
کی اس صفت کے بارے میں قرآن پاک کے الفاظ ہیں۔
وَالَّذِینَ مَعَہ‘ اَشّدَِا ء‘ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَا ءُ بَینَھُم
’’ یعنی یہ لوگ آپس میں نرم مگر دشمنوں کیلئے سخت ہیں‘‘
مردِمومن کے ضمن میں قرآن پاک کے ان الفاظ کو علامہ اپنے ایک شعر میں یوں
بیان کرتے ہیں:
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رز م ِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اقبال کا مردِمومن عشق کو عقل پر ترجیح دیتا ہے اور جو عشق تابع عقل ہو
اُسے خام گردانتا ہے وہ عشق جو مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر آتشِ نمرود میں
کود پڑتا ہے اور اپنے لخت جگر کو اپنی آنکھوں کے سامنے رضائے خدا کی خاطر
قربان کرنے پر تُل جاتا ہے۔
اقبال کا مردِ مومن مصلحت اندیشی پر اپنے وقار کو ترجیح دیتا ہے اور وہ سرِ
ساحل اپنی کشتیوں کو صرف اس لئے نذر آتش کرتا ہے کہ وہ فتح یا شہادت کے
علاوہ کسی تیسری صورتِ حال سے سمجھوتہ کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔
مردِ مومن کا یہی عشق کبھی صلاح الدین ایوبی کو فتح سے ہمکنار کرتا ہے تو
کبھی غزنی سے محمود غزنوی کی صورت مین نکلتا ہے اور سومنات کے جھوٹے خداؤں
کو پاش پاش کرتا ہوا پورے ہندوستان پر چھا جاتا ہے۔ یہی عشق تھا جس کی
بدولت محمدبن قاسم ایک مظلوم بہن کی آواز سن کر صحرائے عرب سے اُٹھتا ہے
اور سندھ کے لق و دق صحراؤں میں راجہ داہر کو درسِ انسانیت دینے پہنچ جاتا
ہے۔اقبال کا دیا ہوا درس ِعشق ہی تھا جس نے تحریک ِپاکستان میں قائداعظم
اور اُن کے رفقاء کوبلند حوصلگی بخشی اور وہ اس قابل ہوئے کہ دنیا کے نقشے
پر ایک نئے ملک کا اضافہ ہوا جو کہ پاکستان تھا۔
اقبال کے مردِ مومن کا ایک اور وصف اس کی خودی ہے۔ خودی فارسی زبان کا لفظ
ہے جس کے معنی ہیں اپنی ذات اور اپنے نفس کا مکمل شعور۔ بقول اقبال جب بندہ
اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے تو اس کی ذات کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ اقبال کا یہ
نظریہ حضورؑ کی ایک حدیث کا
عکس ہے۔ حدیث کے الفاظ ہیں۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدُ عَرَفَ رَبُّہٗ
ترجمہ:جس نے اپنے نفس کو پہچانا تو بے شک اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
اسی ضمن میں سقراط کا قول ملاحظہ ہو Know thy self - choose thy self گویا
عرفانِ ذات عرفانِ خدا وندی کا ذریعہ ہے۔ خودی کے متعلق اقبال نے اپنے
الفاظ ملاحظہ ہوں۔
’’خودی خواہ مسولینی کی ہو خواہ ہٹلرکی قانون ِالہی کی پابند ہو جائے تو
مسلمان ہو جاتی ہے۔مسولینی نے حبشہ کو محض جوع الارض کی تسکین کے لئے پامال
کیا جبکہ مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانے میں حبشہ کی آزادی کو محفوظ رکھا۔
فرق صرف اس قدر ہے کہ پہلی صورت میں خودی کسی قانون کی پابند نہیں جبکہ
دوسری صورت میں قانون ِالہی کی پابند ہے‘‘۔
اقبال کا فوق البشر چونکہ مسلمان ہے اس لیے اس کی خودی اطاعتِ الہی کی
پابند ہے۔ اقبال کا مردِ مومن محض جوع الارض کی تسکین کیلئے انسانیت کے
سکون کو تباہ و برباد نہیں کرتا لیکن جب اس کی خودی کو ٹھیس پہنچائی جائے،
اس کی خودی کو للکارا جائے تو پھر یہ مردِ مومن کبھی بی۔آر۔بی پر عزیز بھٹی
کی صورت میں دشمن پر ابرِ قہر بن کر برستا ہے توکبھی اکرم ،شبیرشریف اور
سرور کی طرح سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے اور پھر یہ مردِ قلندر ناموسِ وطن
کی خاطر سینے سے بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے کود جانے کو اپنی زندگی تصوّر
کرتا ہے۔ کیونکہ اقبال کے مردِ مومن کا نظریہ حیات و ممات بھی تمام نظریہ
حیات سے مختلف ہے۔ بقول اقبال
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ ِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوام ِ زندگی
اقبال کے مردِ مومن پر مفصّل بحث کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ بعض نام
نہادنقادوں نے اقبال کے نظریہ مردِ مومن اور نطشے کے فوق البشر( Super Man
) کے تصوّر میں جو مماثلت بیان کی ہے وہ کسی حد تک درست ہے۔
ڈاکٹر یوسف حسین خان اپنی کتاب ’’اوجِ اقبال‘‘ میں اس مسئلے پر بحث کرتے
ہوئے لکھتے ہیں
’’ اقبال کے مردِ مومن اور جرمن مفّکر کے فوق البشر (Super Man) میں بنیادی
فرق یہ ہے کہ اقبال کا انسانِ کامل اخلاقِ فاضلہ کا نمونہ ہے جبکہ فوق
البشر کسی اخلاق کا قائل نہیں۔
اس کے نزدیک رزم ِحیات میں نیکی نہیں قوت درکار ہے‘‘ ۔
اس کے علاوہ پروفیسر عزیز احمد نے اپنی کتاب ’’ اقبال۔نئی تشکیل‘‘ میں اس
بات کو واضح کیا ہے کہ اقبال کا نظریہ نطشے سے مماثل نہیں۔ البتہ اس کی
اساس مسلمان صوفیاء ابن مشکویہ اور عبدالکریم الجبلی کے نظریات پر رکھی گئی
ہے لیکن کسی مغربی مفّکر کے نظریہ پر نہیں۔درج بالا حقائق سے واضح ہے کہ
اقبال کا مردِ مومن کا نظریہ اقبال کی ذہنی اختراع تھی نہ کہ نطشے کے نظریہ
کا عکس۔
مضمون کا اختتام ہم اقبال کی اُس نظم سے کرتے ہیں جس میں اقبال نے مومن کی
خوبیاں بیان کی ہیں۔ اس نظم کا نام ’’ مومن‘‘ ہے جو ’’ ضربِ کلیم‘‘ میں
موجود ہے۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
بچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جبریل و سرافیل کا صیّاد ہے مومن
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
حوروں کو شکایت ہے کہ کم آمیز ہے مومن |