بچوں کی پسندناپسند،ذوق،مزاج ،مخصوص سوچ،تدریجی
ارتقاء،تقاضوں،نفسیات،جذبات،عادات و اطوار، احساسات، میلانات، ضروریات، فہم
و ادراک ، فطری رحجانات، صلاحیتوں اور عمر کو مدِنظر رکھتے ہوئے نثری و
نظمی تخلیق کیے گئے ادب کو بچوں کا ادب (ادبِ اطفال)کہا جاتا ہے۔ اُردو ہو
یا انگلش یا پھر کوئی بھی زبان ہو ادب کی اِس صنف کو مشکل ترین تصور کیا
جاتا ہے اور اکثر قدآور ادیب و شاعر بھی اِس صنف میں طباع آزمائی کرنے سے
ہچکچاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک اندازے کیمطابق پاکستان میں موجود چار کروڑ
بچوں کی آبادی کے تناسب سے ادب کے صنف پر صرف ۲۵ فیصد کام ہوتا رہا جو کہ
ایک قابلِ فکر اور قابلِ تشویش بات بھی ہے۔ادبِ اطفال کی اہمیت سے وہی اہل
قلم آشنا ہیں جن کے اندر آنے والیں نسلوں کے روشن مستقبل کی تڑپ بہے علامہ
اقبال،کمال احمد رضوی، صوفی تبسم کے علاوہ، مجیب ظفر انوار حمیدی، شفیع
الدین نیر،صالحہ عابد حسین، ڈاکٹر ذاکر حسین،محسن احسان،اشتیاق احمد،منشی
پریم چند، مائل خیر آبادی،کرشن چندر،عبدالرشید فاروقی، محبوب الہی، خواجہ
مظہر صدیقی، محمد مزمل صدیقی، مسعود احمد برکاتی، سید نظر زیدی، اختر
عباس،غلام عباس، احمد ندیم قاسمی،خاطر غزنوی، خالد بزمی، اسماعیل میرٹھی،
عزیز اثری،شعیب مرزا، جاوید امتیازی، نذیر انبالوی سمیت دیگر کا شماربھی
ایسی ہی تڑپ کے ساتھ ادبِ اطفال کے حوالے سے گراں قدر خدمات پیش کرنے والیں
عظیم شخصیات میں ہوتا ہے۔میری رائے میں عصرِ حاضر میں انفرادی اور اجتماعی
سطح پر کسی نا کسی صورت میں ادبِ اطفال کے فروغ کے رفتا رِ مشن میں نت نئے
تجربوں سے قدرے تیزی آئی ہے اور نئے لکھاری کی بھی آمد آمد ہے ۔احمد عدنان
طارق، علی اکمل تصور، امان اﷲ نئیرشوکت، مجید احمد جائی ملتانی، اختر سردار
چوہدری کسووال، عبداﷲ نظامی، نور محمد جمالی،فرخ شہباز وڑائچ، عرفات ظہور،
شاہد حفیظ، ڈاکٹر افتخار کھوکھر، عاطف اسلم، علی عمران ممتاز، محمد صالح،
عبدالصمد مظفر، محمد عرفان رامے، حافظ نعیم سیال،ڈاکٹر عمران مشتاق، حاجی
محمد لطیف کھوکھر، محمد ندیم اختر، نوشاد عادل، محبوب الہی، اظہرعباس، شیخ
فرید، رانا محمد شاہد، محمد زبیر ارشد، محمد وسیم کھوکھر، غلام محی الدین
ترک، محمد سراج جتوئی، ڈاکٹر طارق ریاض، ساجد محمود ساجد، خرم درانی، محمد
وقاص اسلم، محمد ناصر زیدی اور دیگر نام بھی انہیں کی فہرست میں شامل ہوا
جاتا ہے جو ادب اطفال کی اہمیت، ضرورت اور افادیت بارے باخوبی واقف ہیں
اوربچوں میں مہد سے لحد تک تعلیمی رحجانات کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈال
رہے ہیں۔
عصرِ حاضر کی ایک بڑی قدآورادبی شخصیت۔۔حافظ محمد مظفر محسنؔ۔۔کسی تعارف کے
محتاج نہیں۔۔بڑی ہی پہلو دار شخصیت ہیں۔ صرف نام کے ہی نہیں بلکہ حقیقتاً
محسنِ ادب ہیں۔بچوں کے ادب کے حوالے سے اِنکی بے لوث اور بھرپور خدمات کے
اعتراف میں انہیں ہر سطح پر پذیرائی حاصل ہے جبکہ شاعری ہو،طنزومزاح نگاری
ہو،کہانی نگاری ہو یا کالم نگاری ہی کیوں نہ ہو رہر صنف میں بھی اپنے نام
کا لوہا خوب منوایا ہے ۔آپ اپنی دل آویز شخصیت کی بدولت دنیائے ادب میں
اپنا خاص مقام رکھتے ہیں،حافظ صاحب کی محفل ہو اور ہنسی مذاق،قہقے، گپ شپ
،ہلے گلے نہ ہوں یہ تو ممکن ہی نہیں،دوست احباب انکے ساتھ وقت گزارنے کو بے
تاب رہتے ہیں ۔انکا اخلاق،اخلاص، خوش مزاجی، خوشی کلامی ان سے ایک بار
ملاقات کر لینے والے کو انہی کا بنا دیتی ہیں۔۔۔۔
حافظ محمد مظفر محسن نے سیاسیات اور تاریخ میں ماسٹر کیا،اپنے قلمی سفر کا
آغاز ۱۹۷۶ میں ادبِ اطفال سے کیااور ماہنامہ ’’کھلونا‘‘ میں پہلی تحریر
شائع ہوئی، انکی بچوں کیلئے نظموں کے حوالے سے کتاب ’’جاگو ہوا سویرا‘‘
کو۱۹۸۵ رائیٹرز گلڈ ادبی انعام سے نوازا جا چکا ہے،انکی دوسری کاوش بچوں
کیلئے کہانیوں کی کتاب ’’روشن آنکھیں‘‘ کو بھی نیشنل بک فاؤنڈیشن نے ایوارڈ
سے نوازا ہے، انکی تیسری قلمی کاوش بچوں کے لئے لکھی گئیں مزاحیہ تحریروں
کا مجموعہ ’’سکندر خان کی واپسی‘‘ بھی مقبول عام ہے۔بچوں کے لئے مجموعہ
نظم’’نظمیں‘‘ اور ’’جگمگ میرا دیس‘‘ہیں۔۔اور ’’نظمیں‘‘ نئی صدی ہجری ایوارڈ
بھی حاصل کر چکی ہے۔انکی دیگر طنزیہ ،مزاحیہ اور سنجیدہ تحریروں کے مجموعہ
میں ’’بوٹا مائی فرینڈ‘‘، ’’ستارے اپنی اپنی قسمت کے‘‘، ’’ھلمٹ، لفافہ اور
سیاسی آلودگی‘‘، ’’سفر و حج وعمرہ و مع فتاوی‘‘، ’’آلویز ویلکم‘‘، ’’بوٹا
نہیں بے وقوف‘‘، ’’آدھ کھلا گلاب‘‘، ’’نیا دور۔۔جدید ہتھیار‘‘، ’’پل بھاگڑ
کا آدم خور‘‘، ’’محبت کے بھیگتے پل(ترتیب)‘‘،۔گیارہ کتابوں کے تراجم بھی کر
چکے ہیں۔مجموعہ شاعری ’’جب بھی دیکھا، اُداس ہی دیکھا‘‘ ۔حافظ صاحب کی
تحریریں نوائے وقت، سنڈے میگزین، فیملی میگزین، پھول میگزین، نئی بات،
ارژنگ، بیاض،معاصر اور ادبیات کے علاوہ کئی اخبارات اور جریدوں میں تواتر
سے شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ۲۰۰۴ اور ۲۰۰۶ میں ماہنامہ پھول کی جانب سے بہترین
ادیب ایوارڈ سے نوازا گیا اور ۲۰۰۹ اور ۲۰۱۰ میں ماہنامہ’’گو گو‘‘ کراچی نے
بھی انہیں بہترین ادیب کے ایوارڈ سے نوازا۔
انکے قلمی سفر کے حوالے سے عہد کی نامور ادبی شخصیات اپنے خوبصورت تاثرات
میں انہیں بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتیں رہتی ہیں۔انکے مجموعہ نظم کے حوالے
امجد اسلام امجد اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی، روزمرہ کی اور
سامنے کی باتیں،سیدھے سادے الفاظ اور مفہوم بالکل واضح ہیں اس لئے یہ نظمیں
ہر اعتبار سے حوصلہ افزائی اور تعریف کی مستحق ہیں۔سید ضمیر جعفری کا کہنا
ہے کہ حافظ مظفر محسن کی نظمیں جذبے کے لحاظ سے توجہ اور قدر کے لائق ہیں
۔مجھے امید ہے کہ ان کی روشنی ترتیبِ کردار کے لئے مفید ثابت ہو گی۔عطاء
الحق قاسمی کا بھی کہنا ہے کہ ’’مجھے یہ شخص پسند ہے کیونکہ وہ ایک سچا اور
مخلص انسان ہی نہیں بلکہ ایک شگفتہ اور جینوئن مزاح نگار بھی ہے‘‘۔مزاح
لکھنا جان جوکھوں کا کام ہے لکھنے بیٹھو تو دانت تلے پسینہ آ جاتا ہے اور
اگر کسی جملے کا وار صیح نہ پڑے تو پڑھنے والا دانت کچکچانے لگتا ہے چنانچہ
طنزومزاح لکھنے والے نہ ہوں تو جریدے کہاں سے نکلیں؟۔۔انکی فنی وفکری
ہنرمندیوں اور شخصیت کے روشن پہلوؤں کے حوالے سے اُردو زبان میں اپنی نوعیت
کا واحد طنزیہ و مزاحیہ میگزین’’مزاح،کراچی‘‘ بھی ۱۱۲ صفحات پر مشتمل
’’نمبری ادیب۔حافظ مظفر محسن‘‘ بھی شائع ہوچکا ہے،جس میں عصر حاضر کے نامور
ادیب، صحافی، شاعروں کے دلچسپ مضامین شامل ہیں۔اِسی کتاب میں شائع ہونے
والے اپنے سوفٹ انٹرویو میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی
زندگی سے مطمن ہیں ۔احمد فراز کی شاعری پسند ہے، مگر مرزا غالبؔ اور علامہ
اقبالؔ کو اپنا استاد مانتے ہیں، رات کی اُداسی میں شاعری لکھتے ہیں۔میدانِ
ادب میں شوکت نواز پیرزادہ، محمد صفدر راجہ، امتیاز جاوید، چوہدری محمد
اقبال کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں۔جبکہ مجید نظامی اور فرحت عباس شاہ
انکی پسندیدہ شخصیات میں شامل ہیں۔اور اپنے دوستوں کی فہرست بارے پوچھے گئے
سوال بارے انکا کہنا ہے کہ مسعود مفتی، محمد شعیب مرزا، نذیر انبالوی، عابد
کمالوی، فہیم انور چغتائی، محمد اویس غوری، شیخ اصغر، خالد بھٹہ، خواجہ
نجیب اﷲ، طارق فاروق، ملک ظفر اقبال اعوان، مرزا ارشد، چوہدری علی احمد،
امجد گجر، اعظم وڑائچ، علی نواز شاہ سمیت سیکڑوں شامل ہیں ۔۔ بحثیت کالم
نگار دوستوں کے لئے پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ اپنے دل صاف رکھیں،دوستوں
کو امتحان میں کبھی مت ڈالیں، دن کو دن کہیں اور رات کو رات، یہ یاد رکھیں
کہ ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں اِس دور کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ
حکومت، اپوزیشن اور سیاسی رہنماؤں سب کے نظریات ایک ہیں، کیوں کہ یہی آج کی
ضرورت ہے اور یہی حالات کا تقاضا ہے۔اسی لئے تو کہتے ہیں۔۔۔
تھک گیا ہوں لگا لگا کے میں
ایک کے بعد دوسری امید
حافظ مظفر محسن کا ’’امن اور ترقی کے حوالے سے ادب اطفال کے کردار‘‘ بارے
اپنے خیالات میں کہنا ہے کہ ۔۔۔۔پاکستان اور اردگرد کے حالات اس بات کے
غماز ہیں کہ نئی نسل کی تربیت قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق کرنی
ہے،صبروتحمل، ایثار وقربانی کا جذبہ ان حالات میں پہلے سے کہیں زیادہ ہمارے
اندر موجود ہونا چاہیے کیونکہ شدت پسندی بہرحال کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں
ہوتی۔ان حالات میں جبکہ کتب بینی کا رحجان کم ہوتا دکھائی دیتا ہے ہمیں
اچھے تخلیق کاروں کی بے حد ضرورت ہے ،جو چند ادیب شاعر بچوں کیلئے ادب
تخلیق کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور انہیں یہ باور کرانا بڑا ضروری ہے
کہ وہ ایک بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہے ہیں۔بحثیت وائس چیئرمین اکادمی
ادبیات اطفال حافظ صاحب اکادمی ادیبات اطفال کی بچوں کیلئے ادبی تخلیق کرنے
والوں کی تربیت اور انکی حوصلہ افزائی وپذیرائی کے حوالے سے کئے گئے مثبت
اقدامات پر بہت اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فروغِ ادب اطفال کا
سلسلہ جاری رہے گا انشا ء اﷲ تعالی تا کہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا جا
سکے اور ہمارے ادیب و شاعر مقامی اور عالمی امن کی ترویج و ترقی کیلئے اپنے
قلم کے ہتھیار سے ہر دم کوشاں رہ سکیں۔بچوں کے تابناک مستقبل کے لئے بے
کراں نظر آتے ہیں اسی لئے اپنے اظہار خیال میں اکثر کہتے ہیں کہ’’کیونکہ
فروغ ادب سے ہماری نسلوں کو اچھی تربیت سے قوم کے معمار بنایا جا سکتا ہے
اور بچوں کی انفرادیوں صلاحیتوں کو ابھارا کر ملک و قوم کے تابناک مستقبل
کے لئے سامان بھی مہیا کیا جاسکتا ہے۔صرف ادب ہی جس سے بچوں میں اعلی
اخلاقی قدروں کی پاسداری ،قومی و ملی جذبہ پروان چڑ سکتی ہے اور اپنی تہذیب
،ثقافت، وراثت، مذہب سے لگاؤ پیدا ہو سکتا ہے۔تو اِس لئے ہراہل قلم کا فرض
ہے ادب کی اِس صنف کو نظرانداز نہ کریں تا کہ انکی کاوشوں سے شعور کی دہلیز
پر قدم رکھتے یہ نونہال معاشرے کی ترقی میں اپنا کلیدی کردار اداکرسکیں۔۔۔ |