قربانی کی کھالیں ہمیں دیجئے!

 جمعہ کی نماز کے بعد مسجد سے نکلے تو بہت سے بچے ہاتھوں میں پمفلٹ تھامے کھڑے تھے، وہ ہر گزرنے والے نمازی کو ایک ایک کاغذ دے رہے تھے، اسی وجہ سے مسجد کے گیٹ پر کچھ رش سا ہوگیا تھا، مسجد سے آنے والے کچھ بچے اچھل کر پمفلٹ اچکنا چاہتے تھے، تاہم تقسیم کرنے والوں کو بھی شاید ہدایت تھی کہ چھوٹے بچوں کو پمفلٹ نہیں دینے۔ دو مختلف پمفلٹ میرے ہاتھ بھی لگ گئے۔ ’’قربانی کی کھالیں ہمیں دیجئے‘‘۔ ایک پمفلٹ بہت ہی معیاری اور اچھے کاغذ پر تیار کیا گیا تھا، دونوں طرف تحریر تھی اور عالمی سطح کی مسجد کی ایک تصویر تھی، سیکڑوں کمروں پر مشتمل دو مختلف کیمپس تصویر میں موجود تھے۔ دیکھتے ہی میرا سر چکرا گیا، الہٰی! کیا اپنے ہاں بھی اس قسم کی پُر شکوہ اور عالیشان عمارات موجود ہیں؟ وہ کونسے خوش بخت بچے ہیں جو یہاں دین اور دنیا کی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں؟ وہ کتنے خوش نصیب اساتذہ ہیں جنہوں نے اس جامعہ کا بندوبست کیا ہوا ہے؟ تاہم میں نے پمفلٹ سنبھالا اور فیصلہ کیا کہ گھر جا کر تفصیل سے اس کا مطالعہ کروں گا۔ دوسرا پمفلٹ ایک سادہ سے کاغذ پر تھا، صفحہ کے ایک ہی طرف مختصر سی تحریر تھی۔

گھر جاکر پہلے پمفلٹ کا مطالعہ کیا تو اس کے پہلے صفحہ کے اوپر تو بہت عالیشان عمارتوں کی تصویر تھی، مگر اسی صفحہ کے آخر میں وسیع میدان کی تصویر تھی، جس کے پس منظر میں فصلیں دکھائی دے رہی تھیں، ایک چھوٹے سے پلاٹ کی بنیادیں بھی رکھی گئی تھیں، جس کے ایک حصے میں چند سریے سر اٹھائے کھڑے تھے، دوسری طرف چند سو اینٹیں پڑی تھیں۔ تحریر میں بتایا گیا تھا کہ یہ عالیشان جامعہ زیر تعمیر ہے، اس میں کوئی ہال بنوا کر، اینٹیں لگا کر ، سریا خرید کر، سیمنٹ دے کر ثوابِ دارین حاصل کیا جاسکتا ہے، جنت میں گھر بنوایا جاسکتا ہے، قربانی کی کھالوں کے علاوہ صدقات، خیرات، زکوٰۃ، عطیات وغیرہ کے لئے بھی مخیر حضرات سے اپیل کی گئی تھی۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس کا تخمینہ لاگت ایک ارب روپے لگایا گیا تھا۔ کیا جانئے کہ بیسیوں یا پچاسیوں سال بعد یہ میدان انہی عمارتوں کے نیچے چُھپ جائے جن کی تصاویر پمفلٹ پر دی گئی ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ آنے والی نسلیں یہی عمارت دیکھ پائیں، یا ممکن ہے اس سے بھی بہترعمارتیں وجود میں آ جائیں۔ فی الحال تو پر عزم لوگوں نے صرف امیدوں پر ہی ایک ارب روپے کے منصوبے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ دوسرا پمفلٹ جتنا سادہ تھا، اتنا ہی پیچیدہ بھی، اس کی پیچیدگی میری کم علمی سے وابستہ تھی۔ یہ بھی کسی مدرسے کی طرف سے ہی تھا، جس میں قربانی کی کھالوں کی پرزور اور بہت ہی محبت سے کی گئی اپیل تھی، اور ساتھ ہی قربانی کے جانور میں حصہ کی بات تھی (حصہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بڑے جانور کی کھال ہاتھ آجا تی ہے)لکھاتھا، ادنیٰ حصہ ․․اتنے روپے․․ درمیانہ حصہ ․․اتنے روپے اور اعلیٰ حصہ․․ اتنے روپے۔ تاہم یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اعلیٰ ادنیٰ کی یہ تقسیم گوشت کی نہیں جانور کی ہے۔ پیچیدگی بھی یہی ہے کہ قربانی تو قربانی ہوتی ہے، اسے اعلیٰ ادنیٰ میں تقسیم کرکے ثوابِ دارین کو بھی اعلیٰ ادنیٰ بنا دیا گیا، یہ لکھا جا سکتا تھا کہ ایک حصہ آٹھ سے بارہ ہزار روپے تک ہے، ہر کوئی اپنی مالی حالت کے مطابق اپنا حصہ ڈال سکتا تھا۔

شام ڈھلے میں گھر سے باہر نکلا تو گلی کے گارڈ نے نہایت احترام کے ساتھ مجھے سلام کیا، میری طرف قدم بڑھائے تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ میرے ساتھ کوئی بات کرنے والا ہے، بلکہ میں نے اس کے انداز سے اندازہ لگالیا کہ وہ کوئی مطالبہ کرنے والا ہے، سرجی کا حال چال معلوم کرنے کے بعداستفسار کیا، کیا آپ قربانی کریں گے،’’ انشاء اﷲ!‘‘ میں نے کہا، تو پھر سر جی قربانی کی کھال مجھے دینا سرجی! میرے لئے یہ سوال اچانک اور نیا تھا کہ کیا ایک گارڈ کو بھی قربانی کی کھال دی جاسکتی ہے؟ میں نے سوچنے کی مہلت لی اور اس سے اجازت چاہی۔ دو ایک دوستوں کے فون بھی آئے کہ انہیں قربانی کی کھالیں درکار تھیں۔اب یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہے کہ کھال کس کے حوالے کی جائے، ایسے میں حکومت کا معاملہ سب سے بہتر ہے، کہ وہ ذبح کئے بغیر ہی کھال اتار لیتی ہے، کسی جانور کی نہیں، انسانوں کی۔ اس مرتبہ کراچی والے بھی خوش نصیب قرار پائیں گے کہ قربانی کی کھالیں اپنی مرضی سے کسی کو دے سکیں گے، کھالوں کی وین لُوٹنے والے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ ہو چکے ہیں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428440 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.