قربانیْ۔۔ آدم اور ابلیس کی جنگ و کشمکش کا تسلسل
(Rasheed Ahmed Naeem, Patoki)
عید الاضحیٰ کا تعلق تاریخ ِ اسلام کے ایک
نہایت ہی درخشاں باب سے ہے ۔اگرچہ یہ عام لوگوں کی نظر میں صرف سنت ِ
ابراہیمی کی یاد گار کے طور پر دی جانے والی جانوروں کی قربانی کی حیثیت سے
زندہ ہے مگر در حقیقت یہ حضرت ابراہیم ٔکے اسوۂ حسنہ کی تائید و تجدید
ہے۔حقیقت اسلامی اور شریعت ِ الہیٰ کی تعبیر و تصویر ہے۔یہ دن ہمیں اس عظیم
مقصد کی یاد دلاتا ہے کہ عبدیت کیا چیز ہوتی ہے ؟ رب کی بندگی کس کو کہتے
ہیں ؟ یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ جب بندہ اپنے خالق و مالک سے بندگی کا عہد
کرتا ہے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ یہ روز سعید ہمیں بتا تا ہے کہ رب ِ
کائنات کے حکم کی تعمیل کس طرح کی جاتی ہے؟
قرب الہیٰ کے لیے اپنی عزیز ترین متاع کیسے قربان کی جاتی ہے َ؟ چشم فلک
بھی اس وقت آفرین کہنے پر مجبور ہو گیا جب سو سالہ بوڑھے والد حضرت ابراہیم
خلیل اﷲ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل کو اﷲ کے اشارے پر قربان کرنے پر تیار
ہو جاتے ہیں کیونکہ جب حضرت اسماعیل بلوغت کے قریب پہنچ گئے تو اﷲ تعالیٰ
نے حضرت ابراہیم سے آ پ کی قربانی مانگی تین دن تک آپ کو خواب آتے رہے کہ
اپنی عزیز ترین چیز اﷲ کی راہ میں قربان کی جائے تیسرے دن صبح سویرے حضرت
ابراہیم نے حضر ت ہاجرہ سے کہا کہ میں اور بیٹا اسماعیل ایک دعوت میں جا
رہے ہیں۔ اس لیے آپ اسے تیار کردیں حضرت ہاجرہ نے حضرت اسمعیل کو بہت اچھا
لباس پہنایا اور تیار کردیا آپ چھری اور رسی لے کرجنگل کی طرف چل دئیے جب
کعبہ شریف کے قریب پہنچے تو شیطان نے آپ کو اس قربانی سے روکنے کی کوشش کی
۔ شیطان سب سے پہلے بی بی ہاجرہ کے پاس گیا اور کہا کہ ’’ اے ہاجرہ۱ کیا آپ
جانتی ہیں کہ ابراہیم اسمعیل کو کہاں لے کر جا رہے ہیں ؟ ‘‘حضرت بی بی
ہاجرہ نے جواب دیاکہ ’’ وہ ایک دعوت پر گئے ہیں‘‘۔تب شیطا ن’’ بولا نہیں وہ
دعوت پر نہیں جا رہے ہیں بلکہ ابراہیم اسمعیل کو ذبح کرنے لے گئے ہیں‘‘۔
حضرت بی بی ہاجر ہ نے کہا کہ’’ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا ایک باپ بھی اپنے بیٹے
کو ذبح کر سکتا ہے؟ ‘‘شیطان نے کہا کہ’’ ابراہیم کا خیال ہے کہ انہیں اﷲ
تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میری راہ میں اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کردو ‘‘اس
پر حضرت بی بی ہاجرہ نے شیطان کی چال کو سمجھتے ہوئے جواب دیا کہ ’’ا گر
میرے خالق و مالک کا یہی حکم ہے تو میں کون ہوتی ہوں جو اس قربانی کی راہ
میں رکاوٹ بنوں؟۔ اﷲ تعالی ٰ کے حکم پر تو ایک سو اسمعیل ہوں تو ایک ایک
کرکے قربان کرتی چلی جاؤں‘‘ ا دھر سے مایوس ہونے کے بعد شیطان نے حضرت
اسمعیل کو ورغلانا چاہاانکے پاس جا کر کہنے لگا ’’تجھے تیرے والد ذبح کرنے
کے لئے لے جا رہے ہیں‘‘۔حضرت اسمعیل نے پوچھا’’کیوں ؟‘‘شیطان نے کہا ’’ان
کا خیال ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے‘‘ اس پر حضرت
اسمعیل نے فرمایا کہ ’’ اگر اﷲ تعالیٰ میری جان کی قربانی قبول کر لے تواس
سے بڑھ کر کیا سعادت ہوسکتی ہے ؟ ‘‘شیطان نے ہر طریقے سے حضرت ابراہیم
کوحضرت اسمعیل کی قربانی سے روکنا چاہامگرحضرت ابراہیم کے پختہ ارادے کے
سامنے شیطان کی ایک نہ چلی۔ حضرت ابراہیم نے حضرت اسمعیل کوایک پہاڑ کے
قریب لے جا کر کہا ’’اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر
رہا ہو ں بتا تیری کیا مرضی ہے؟‘‘ سعادت مند بیٹے نے جواب دیا’’ اے ابا جان
آپ کو جو حکم ملا ہے بلا خوف ِخطرپورا فرمائیے مجھے آپ انشا ء ﷲ صبر کرنے
والا پائیں گے‘‘ اور پھر شیطان نے حضرت ابراہیم سے کہ آپ یہ کیا غضب کررہے
ہیں؟ خواب کو سچ سمجھ کر بیٹے کو ذبح کرنے پر تیار ہو گئے ہیں ؟‘‘اے ملعون
مجھ پر تیرا داؤ نہیں چل سکتا۔
میرا خواب شیطانی نہیں رحمانی ہے نبی کا خواب وحی ِ الہی ہوتا ہے میں اﷲ کے
حکم سے ہر گز منہ نہیں موڑوں گا‘‘ شیطان نے ہر طرف سے مایوس ہو کر سر پیٹ
لیا کہ ہائے اب کیا ہوگا ؟جب باپ اوربیٹا دونوں رضائے الہی سے راضی ہوگئے
تو باپ نے بیٹے کو زمین پر جبین کے بل لٹا دیا۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا
ہے ’’دونوں تیار ہوگئے تو باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا ‘‘چھری
چلانے سے پہلے بیٹے نے باپ کو کہا’’ ابا جان میری تین باتیں قبول فرمائیں
پہلی یہ کہ میرے ہاتھ پاؤں رسی سے باند ھ دیں تاکہ کوئی خون کا چھینٹا آپ
کے لباس پر نہ پڑے دوسری یہ بات کہ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجئے کہیں
ایسا نہ ہو کہ ہاتھ میری محبت کی وجہ سے رک جائے اور تیسری بات یہ کہ میرا
خون آلود کرتا میری والدہ کے پاس پہنچا دیجئے وہ اسے دیکھ کر اپنے دل کو
تسلی دے لیا کریں گی‘‘ باپ نے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی تسلیم و رضا کا
یہ منظر آج تک چشم ِ فلک نے نہیں دیکھا ہوگا تیز چھری حضرت اسمعیل کے گلے
پر پہنچ کر کند ہوگئی۔ دو مرتبہ ایسا ہی ہوا حضرت ابراہیم نے اسے ایک پتھر
پر دے مارا پتھر کو چھری نے دو ٹکڑے کر دئیے ابراہیم نے چھری سے کہا تو نے
پتھر جیسی سخت چیز کودو ٹکڑ کردئیے لیکن اسمعیل کا گلا ریشم سے بھی نرم تھا
چھری نے کہا ’’خلیل اﷲ کہتا ہے کاٹ مگر جلیل کہتا ہے خبرداد جواسمعیل کا
بال بھی بیگا کیا‘‘۔جب خلیل اﷲ خود جلیل اﷲ کا حکم مان کر لٹائے بیٹھا ہے
تو میں کیسے انکار کر سکتی ہوں حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ’’ میں قربان کرنے
کے لئے اور میرا بیٹا قربان ہونے کے لئے تیار ہے تو توکیوں رکاوٹ بنتی
ہے‘‘حضرت ابراہیم نے پھر چھری اٹھائی چھری حضرت اسمعیل کی گردن پر پہنچنے
سے پہلے پہلے حضرت جبرائیل ایک مینڈھا لے آئے اس کو نیچے رکھ دیا اور حضرت
اسمعیل کو اٹھا لیا مینڈھا ذبح ہوگیا تو آواز آئی ’’اور ہم نے پکارا اے
ابراہیم ! تو نے خواب سچا کر دکھایا ہم نیکوں کو یوں ہی جزا دیتے ہیں۔ ´
بیشک یہ صاف آزمائش ہے ہم نے اس کا فدیہ ذبح عظیم کے ساتھ کردیا ۔ حضرت
اسماعیل علیہ السلام کو اﷲ کے حکم پر اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے لایا
گیا تھا۔ تین جگہ شیطان نے آپ کو اﷲ کے حکم سے انکار کے لئے بہکایا تھامگر
آپ نے تین مرتبہ شیطان کے بہکاوے میں آنے سے انکار کردیا تھا۔عید الاضحیٰ
کا تہوارہمیں اسی عظیم واقعہ کی یاد دلاتا ہے جب اﷲ تعالیٰ نے اس بندگی اور
بے مثال سرفروشی سے خوش ہو کر قربانی کی سنت کو قیامت تک آنے والے تمام اہل
ِ ایمان کے لیے سنت قرار دے دیا۔تمام اہل ایمان کے لیے سنت قرار دینے کا
مقصد یہ کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل سے ایک چھوٹی سی زندگی،ایک محدود
زندگی ، ایک فانی زندگی طلب کر کے ایک ایسی ابدی زندگی عطا فرمائی جو عزت و
کرامت کی انتہا پر ہے،آج زمین کے چپے چپے پر جہاں بھی مسلمان آباد ہیں اور
جہاں بھی قربانی ہو رہی ہے وہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے نام گونج
رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایک جانور کی قربانی دے کر فارغ ہیں
ِ؟کیا قربانی کا یہی مقصد ہے ؟ نہیں ، ہر گز نہیں کیونکہ قربانی آدم اور
ابلیس کی جنگ اور کشمکش کے تسلسل میں ہمارا ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے ہم
شیطان کے سارے حیلے بہانوں کو ناکام بناتے ہوئے اور اس کی خوش نما چالوں سے
بچتے ہوئے اپنا سب کچھ اﷲ کی راہ میں اﷲ کی ہدایات کے مطابق قربان کرنے کا
اعلان کرتے ہیں اﷲ نے سو رۃ الحج کی آیت میں ارشاد فرمایا کہ’’اور نہ ان کا
گوشت اﷲ کو پہنچتا ہے اور نہ خون۔مگر اس سے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔۔۔’’۔
تقویٰ کیا ہے؟ ’’وہ تمام کام کرنا جس سے اﷲ خوش ہوتا ہو اور ان تمام کاموں
سے رکنا جس سے اﷲ کے ناراض ہونے کا ڈر ہو’’۔ یہ دن ہم کو یاد دلاتا ہے کہ
اسلام کی اصل روح کیا ہے ۔ہم مسلمان ہیں۔ہم اسلام کے نام لیوا ہیں ۔ہمارا
دین اسلام ہے اور اسلام کا مطلب ہے کہ اﷲ کے ہر حکم کے آگے سر رتسلیم ِ خم
کیا جائے ،انسان کا ہر عمل اور اس کی پسند و نا پسند صرف اﷲ کی مرضی کے
تابع ہو ۔اﷲ کی کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا و خوشنودی کی خاطر بڑی سے
بڑی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے
مطابق بسر کیا جائے کیو نکہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے اﷲ کی عطا ہے،اﷲ کا ہی
دیا ہوا ہے ۔پھر اس ذات ِ اقدس کے احکامات کی تعمیل میں حیل و حجت کیسی
؟؟حج کے دوران منیٰ کے میدان میں جمرات پر کنکریاں مارنا دراصل اس بات کی
علامت ہے کہ جس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اﷲ کی اطاعت میں شیطان سے
دوری اختیار کی تھی اسی طرح زندگی کے ہر معاملے میں ہم اپنے نفس اور شیطان
کی پیروی نہیں کریں گے بلکہ ہر حال میں اﷲ کی اور اس کے پیارے حبیب ﷺکی
اطاعت اور فرماں برداری کو مقدم رکھیں گے ۔قربانی ہمیں اس بات کا درس دیتی
ہے کہ ہم صرف وہ کام کریں جو اﷲ اور اس کے پیارے رسول حضرت محمد ﷺ کو پسند
ہیں اور ہر اس کام سے اپنے آپ کو دور رکھیں جو ہمارے خالق و مالک اور محبوب
نبیﷺ کو پسند نہ ہو ۔عید صرف اس کی عید ہے جس نے اپنے رب کو راضی کر لیا۔
جس نے اپنی زندگی کو احکامات ِ الہیٰ کے تابع کر لیا۔ اپنے آپ کو نبی اکرم
ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھال لیا ۔اسلام میں قربانی کی بہت اہمیت ہے ۔ اس
کا بہت اجر و ثواب ہے حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا ’’یوم النحر (دس ذوالجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل اﷲ
تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں ہے۔ اور
قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ، بال او رکھروں کے ساتھ آئے گا اور
قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا
ہے۔اس لیے اسے خوش دل سے کرو ۔ایک اور جگہ قربانی کے اجر و ثواب کا ذکر کچھ
اس طرح کیا گیا ہے حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم سے بعض صحابہ نے عرض کیا ’’ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ علیہ و
سلم ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے ؟ ‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا ’’ یہ تمہارے ( روحانی اور نسلی) مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کی
سنت ہے۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا’’یا رسول اﷲ !صلی اﷲ علیہ و سلم ان
قربانیوں میں ہمارا کیا اجر ہے ؟ ‘‘ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ قربانی کے ہر جانور کے بال کے عوض ایک نیکی ہے۔‘‘ خدا کے لیے اتنے بڑے
اجر و ثواب والے عمل کو پورے خلوص سے ادا کیا جائے کسی بھی مقام پر اس میں
ریا کار عنصر نہ آنے پائے اور اچھے جانور کی قربانی کریں جو دیکھنے میں
اچھا لگے۔ جانور صحت مند ہو ۔ تندرست ہو ،حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے رات میں قربانی کرنے سے منع فرمایا۔(طبرانی) حدیث ِ
مبارکہ کے مطابق چارقسم کے جانورقربانی کے لئے درست نہیں اوّل کاناجس
کاکاناپن صاف ظاہرہو دوم جوبیمارظاہرہو،سوم جس کالنگڑاپن ظاہرہو،چہارم
جواتناکمزورہوکہ اس کی ہڈیوں پرگوشت نظرنہ آئے۔ جبکہ اسطاعت رکھنے کے
باوجود قربانی نہ کرنے والوں پسند نہیں کیا ارشاد نبوی ﷺ ہے ’’جس شخص نے
قربانی کرنے کی وسعت پائی پھر بھی قربانی نہیں کی بس وہ ہماری عید گا ہ میں
نہ آئے‘‘ |
|