پچھلی قسط کے آخری سطور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور طلب علم کے مراحل کو بحسن و خوبی طے کرلیا۔ تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ آپ
تقریبا تیس سے پینتیس سال تک طلب علم میں لگے رہے۔ واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تدریس اور تزکیہ نفس کے لئے مسند نشینی
علم ظاہر و باطن کی تکمیل کے بعد آپ کا خیال ہوا کہ آبادی کو چھوڑ کر کہیں
جنگل و صحراء میں چلے جائیں اور وہاں رہ کر عبادت و ریاضت میں مشغول رہیں،
کیونکہ اس وقت بغداد سخت سیاسی کشمکش کا شکار تھا ،سلجوقی سلاطین عباسی
سلطنت کو ختم کرنا چاہتے تھے، عام لوگوں کی توجہ مادیت کی طرف بڑھتی جارہی
تھی اہل علم کا ایک بڑا طبقہ حاکموں اور امراؤں کے یہاں کاسہ لیسی میں
مشغول نظر آرہا تھا۔ عام لوگ علم دین اور اخلاص سے دور امرا و حکام کا تقرب
حاصل کرنے میں لگے ہوئے تھے، علم دین کے حصول کا مقصد دنیا حاصل کرنا ہوگیا
تھا شیخ عبد القادر جیلانی ان تمام حالات سے بہت ہی کبیدہ خاطر تھے اس لئے
تعلیم سے فراغت کے بعد ارادہ کیا کہ صحرا نوردی اور رہبانیت کی زندگی بسر
کریں یقیناً یہ خیال ان کے اندر صوفیوں کے ساتھ میل جول اور شیخ حماد
الدباس کی صحبت کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ چنانچہ ان کے شاگرد عبد اللہ بن
ابو الحسن الجبائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے شیخ عبد القادر
جیلانی نے بیان فرمایا کہ میری خواہش تھی کہ میں صحراؤں اور جنگلوں میں نکل
جاؤں اور وہیں رہ کر عبادت و ریاضت میں مشغول رہوں نہ مخلوق مجھے دیکھے اور
نہ میں لوگوں کو دیکھوں، لیکن اللہ تعالیٰ کو میرے ذریعہ اپنے بندوں کا نفع
منظور تھا چنانچہ میرے ہاتھ پر پچاس ہزار سے زائد یہودی اور عیسائی مسلمان
ہوچکے ہیں اور عیاروں اور جرائم پیشہ لوگوں میں سے ایک لاکھ سے زائد توبہ
کرچکے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ [السیر ۴۴۷/۲۰، تاریخ دعوت و
عزیمت ۲۰۱/۱]۔
شاید انہیں دنوں کا واقعہ ہے جسے حضرت شیخ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک بار
ایسا ہوا کہ مجھے جنوں جیسی کیفیت لاحق ہوئی لوگ مجھے ہسپتال پہنچا دئیے
وہاں میری ایسی حالت ہوگئی کہ لوگوں نے یہ سمجھا کہ میں مرچکا ہوں چنانچہ
میرے لئے کفن لایا گیا مجھے نہلانے کے لئےابھی تختہ پر رکھا ہی تھا کہ میری
وہ کیفیت زائل ہوگئی پھر میرے دل میں خیال آیا کہ بغداد اس قدر پر فتن
ہوچکا ہے لہٰذا یہاں سے مجھے نکل جانا چاہئے چنانچہ باب حلبہ کی طرف سے میں
بغداد کو خیر باد کہہ رہا تھا کہ ایک غیبی آواز آئی تم کہاں جارہے ہو؟ اور
مجھے ایسا دھکا لگا کہ میں گر پڑا، مجھ سے کہا گیا کہ واپس جاؤ کیونکہ
لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے میں نے کہا: میں اپنے دین و ایمان کی سلامتی
چاہتا ہوں، جواب ملتا ہے کہ یہ تمہیں حاصل ہوگا۔ [السیر ۴۴۵،۴۴۶/۲۰، ذیل
الطبقات ۲۹۹/۱]
درج ذیل مشہور واقعہ بھی انہیں دنوں کا محسوس ہوتا ہے حضرت شیخ عبد القادر
جیلانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض وہ ایام جن میں میدانوں میں سیاحت
کے لئے نکلنا تھا ایک بار ایسا ہوا کہ کئی دن گزر گئے اور مجھے کھانے پینے
کو کوئی چیز نہ مل سکی جب پیاس سخت محسوس ہوئی تو اچانک ایک بدلی نے مجھ پر
سایہ کرلیا اور اس میں سے شبنم جیسی کوئی چیز نازل ہوئی جس سے میری پیاس
جاتی رہی پھر ایک بڑی عظیم الشان روشنی ظاہر ہوئی جس سے آسمان کے دونوں
کنارے روشن ہوگئے پھر اس سے ایک صورت ظاہر ہوئی ، اس نے مجھ سے خطاب کرکے
کہا: اے عبد القادر میں تمہارا رب ہوں، میں نے تمہارے لئے وہ تمام محرمات
حلال کردئیے ہیں جو لوگوں پر حرام ہیں، میں نے کہا: اعوذ باللہ من الشیطان
الرجیم ، اے ملعون دور ہو یہ کہتے ہی وہ روشنی ظلمت میں بدل گئی اور وہ
صورت دھواں میں تبدیل ہوگئی پھر وہی شخص مجھ سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: اے عبد
القادر اللہ تعالی نے تمہیں تمہارے علم و سمجھ کی وجہ سے بچا لیا ورنہ اس
طرح تو میں اب تک ستر صوفیوں کو گمراہ کرچکا ہوں، تو میں نے کہا کہ یہ اللہ
تبارک و تعالیٰ کا فضل اور اسکا احسان ہے، کسی نے عرض کیا کہ حضرت آپ کیسے
سمجھے کہ یہ شیطان ہے؟، فرمایا: اس کے کہنے سے کہ"میں نے حرام چیزوں کو
تمہارے لئے حلال کردیا'۔ [ذیل الطبقات ۲۹۴/۱، تاریخ دعوت و عزیمت ۲۰۳/۱]۔
خلاصہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی تایید غیبی رہی کہ حضرت شیخ رحمہ اللہ
نے رہبانیت و صحرا نوردی کا خیال ترک کرکے علم کے پیاسوں کو سیراب کرنے اور
مردہ دلوں کی مسیحائی کے لَئے تیار ہوئے اور اپنے استاد خاص ابو سعد
المخرمی رحمہ اللہ بنائے ہوئے مدرسے میں درس و تدریس کے لئے ۵۲۱ھ میں مسند
نشین ہوئے۔
آپ کا مسند درس و ارشاد پر بیٹھنا تھا کہ لوگوں کا آپ کی طرف ہجوم ہونا
شروع ہوگیا علم ظاہر و باطن کے پیاسے آپ کے پاس جوق در جوق حاضر ہونے لگے
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں آپ کی ایسی مقبولیت ڈالی کہ سارا بغداد
آپ کے مواعظ پر ٹوٹ پڑا اور ایسا ہجوم بڑھا کہ بہت جلد مدرسہ میں جگہ تنگ
پڑگئی اور لوگوں نے مدرسہ کی توسیع کی ضرورت محسوس کی، مشہورامام فقہ حافظ
موفق الدین ابن قدامہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو دین کی وجہ سے آپ
سے بڑھ کر وجہ تعظیم نہیں دیکھا۔ [السیر ۴۴۲/۲، ذیل الطبقات ۲۹۲/۱]۔
خلاصہ یہ کہ عوام و خواص دونوں نے بڑھ چڑھ کر مدرسہ کی توسیع میں حصہ لیا،
جس سے جو کچھ بھی ہوسکتا کم زیادہ لا کر شیخ کی خدمت میں پیش کردیتا، حتیٰ
کہ ایک بار ایک مسکین و فقیر عورت اپنے شوہر کو لے کر آتی ہے اس کا شوہر
بھی ایک غریب اور مزدور آدمی تھا وہ عورت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ
سے کہنے لگی کہ یہ میرا شوہر ہے اس پر مہر کا میر ا بیس دینار باقی ہے جس
میں سے آدھی رقم میں اسے ہبہ کرتی ہوں بشرطیکہ باقی آدھی رقم کے عوض یہ آپ
کے مدرسہ میں کام کرے ہم نے اس پر اتفاق کرلیا ہے شوہر نے بھی عورت کے بات
کی تصدیق کی، یہ کہہ کر عورت نے دستاویز شیخ عبدالقادر کے حوالہ کردی،
چنانچہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے اسے اپنے مدرسہ میں کام پر لگا
دیا اسے محتاج سمجھتے ہوئے ایک دن کی مزدوری اسے دے دیتے اور ایک دن کی
مزدوری نہ دیتے یہاں تک کہ جب شوہر نے پانچ دینار کا کام کرلیا تو شیخ نے
باقی پانچ دینار معاف کردئے اور دستاویز اس کے حوالہ کردی۔ [ذیل الطبقات
۲۹۱/۱]۔
اس مدرسہ میں شیخ حدیث و فقہ، اصول و عقیدہ اور علم سلوک کا درس دیا کرتے
تھے، کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے حتیٰ کہ بعض لوگوں نے مبالغہ کے طور پر
یہاں تک کہہ دیا ہے کہ آپ کے درس میں ۷۵ ہزار کی تعداد ہوتی تھی البتہ یہ
حقیقت ہے کہ آپ کے پاس عالم و جاہل، محدث و فقیہ اور اصولی و نحوی سبھی قسم
کے لوگ حاضر ہوتے تھے۔ رحمہ اللہ ۔
حضرت شیخ عبد القادر کی زندگی ہی میں آپ کے فتوؤں اور علم فقہ میں باریک
بینی کی شہرت بغداد اور اس کے اطراف اکناف میں پھیل گئی اہل علم آپ کے
فتوؤں کو سنتے اور آپ کی علمی باریک بینی پر تعجب کرتے اور کہتے کہ سبحان
اللہ کہ ان کے اوپر اللہ کا یہ فضل ہوا ہے۔ آپ کی فقہی باریک بینی کا ایک
واقعہ اس طرح نقل کیا جاتا ہے کہ ایک بار ایک شخص نے یہ قسم کھالی کہ اگر
میں کوئی ایسی عبادت نہ کرسکوں جس میں میرے ساتھ کوئی شریک نہ ہو تو میری
بیوی کو طلاق ہے اس وقت کے اہل علم حیرت میں پڑگئے لیکن جب یہ مسئلہ جب شیخ
عبد القادر رحمہ اللہ کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا: اس شخص سے کہا
جائے کہ وہ مکہ مکرمہ جائے اس کے لئے مطاف کو خالی کرایا جائے اور سات چکر
طواف کر کے اپنی قسم کو پوری کرلے۔ [ذیل الطبقات ۲۹۴/۱، دائرۃُ المعارف
الاسلامیہ ۶۲۲/۱۱]۔
وفات
اس طرح شیخ عبدا لقادر رحمہ اللہ تقریباً چالیس سال تک علم کے پیاسوں کو
سیراب کرکے، اپنے ظاہری و باطنی کمالات سے ایک عالم کو مستفید کرکے، بہت سے
مردہ دلوں کو زندگی بخش کرکے عالم آخرت کی طرف کوچ کرگئے۔ چنانچہ ربیع
الاول ۵۶۱ھ بروز ہفتہ دنیا کو روشن کرنے والا یہ چراغ خود بجھ گیا۔ اس وقت
ان کی عمر ۹۰ سال کے قریب تھی، وفات کے وقت اپنے بیٹے عبد الوہاب کو آپکی
آخری وصیت یہ تھی کہ تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اس کے علاوہ کسی
اور سے نہ ڈرنا اور نہ اس کے سوا کسی سے امید رکھنا اپنی تمام ضروریات صرف
اسی کے حوالے کرنا اسی سے طلب کرنا اس کے علاوہ کسی اور پر اعتماد و بھروسہ
نہ رکھنا توحید کو لازم پکڑنا کیونکہ توحید ہر کام کی جامع ہے۔ [الفتح
الربانی ۳۷۳، تاریخ دعوت و عزیمت ۲۲۲/۱]۔
زندگی کے آخری لمحات کا منظر ان کے صاحبزادے عبد الجبار بیان کرتے ہیں کہ
جب والد کا مرض بڑھ گیا اور تکلیف زیادہ محسوس ہونے لگی تو میں نے پوچھا کہ
آپ کے جسم میں کہاں تکلیف ہے؟ کہنے لگے میرے تمام اعضا مجھے تکلیف دے رہے
ہیں مگر میرے دل کو کوئی تکلیف نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق
صحیح ہے، پھر جب آخری وقت آگیا تو آپ فرمانے لگے میں اس اللہ سے مدد چاہتا
ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک و برتر ہے، زندہ ہے اور اس پر موت کے
طاری ہونے کا اندیشہ نہیں ہے وہ پاک ہے وہ ایسی ذات ہے جس نے اپنی قدرت سے
قوت ظاہر کی اور ہمیں موت دے کر بندوں پر اپنا غلبہ دکھایا، اللہ کے سوا
کوئی معبود نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، پھر تین بار
اللہ، اللہ ، اللہ فرمایا اس کے ساتھ آواز غائب ہوگئی آپ کی زبان تالو سے
چپک گئی اور روح جسم سے رخصت ہوگئی ۔ رحمہ اللہ و رضی عنہ۔ [تکملہ الفتح
الربانی ۲۷۳، تاریخ دعوت و عزیمت ۲۲۳/۱]۔
آپ کی وفات ہفتہ کے دن شام کو ہوئی اور اسی رات تغسیل و تکفین کے بعد اسی
مدرسہ کے ایک گوشے میں نماز جنازہ کے بعد دفن کردیا گیا۔
آپ کی چار بیویاں تھیں جن سے آپ کی انچاس اولاد ہوئیں، ستائیس لڑکے اور
باقی لڑکیاں، ان میں سے بعض لڑکے زیادہ مشہور ہیں جیسے شیخ عبد الوہاب اور
شیخ عبد الرزاق رحمہم اللہ اجمعین۔ [شذرات الذھب ۲۰۲/۴]۔
شیخ عبد القادر جیلانی کی شخصیت
دنیا کی کسی بھی بڑی ونادر شخصیت کی طرح شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ
کی شخصیت بھی متنازع رہی ہے کچھ لوگوں نے آپ کے بارے میں اسقدر غلو سے کام
لیا کہ انہیں الوہیت اور ربوبیت کے مقام پر پہنچا دیا۔ ان سے مرادیں مانگنے
لگے، ان سے اپنی بگڑی بنوانے لگے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر انہیں کو نفع
و نقصان کے لئے پکارنے لگے حتی کہ اس جماعت کے لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ
:
بادشاہ ہر دو عالم شیخ عبد القادر ہست
{دونوں عالم کے بادشاہ شیخ عبد القادر ہیں}
سرور اولاد آدم شیخ عبد القادر ہست
{اولاد آدم کے سردار شیخ عبد القادر ہیں}
آفتاب و ماہ تاب و عرش کرسی و قلم
{سورج اور چاند ، عرش کرسی اور قلم}
زیر پائے شیخ عبد القادر ہست
{شیخ عبد القادر کے پیر کے نیچے ہے}۔
بدقسمتی سے آج یہ اشعار شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے مزار پر لکھے
ہوئے ہیں۔ [الشیخ عبد القادر جیلانی ص ۴، سعید مسفر]۔
کسی اردو شاعر نے یہاں تک کہہ دیا:
بلاد اللہ ملکی تحت حکمی سے ہے یہ ظاہر
کہ عالم میں ہر ایک شے پر قبضہ غوث اعظم کا
گئے اک وقت میں ستر مریدوں کے یہاں آقا
سمجھ میں آنہیں سکتا کرشمہ غوث اعظم کا
یہ پورا قصیدہ جو تفسیر احسن البیان کے ضمیمہ پر موجود ہے اسے پڑھیں اور
عبرت حاصل کریں، نیز دیکھیں کہ اس شاعر نے اللہ کے لئے کیا چیز باقی چھوڑی
ہے، اس قصیدہ کو پڑھ کر آپ محسوس کریں گے کہ یہ ایسا شرک ہے جس کا ارتکاب
عرب کے جاہلی مشرکین نے بھی نہیں کیا تھا۔
ایک اور مشرک شاعر کہتا ہے:
ہے باب الشیخ کا دیوان خانہ خلد سے بڑھ کر
رواں بغداد پر اک قطب ربانی کی چادر ہے
اس جماعت نے غلو میں حضرت شیخ کی طرف ایسے اقوال و کرامتیں اور تصرفات
منسوب کئے ہیں جو حد بیان سے باہر ہیں، کہیں ملک الموت سے اپنے مرید کی روح
چھین لے رہے ہیں تو کہیں اللہ تعالی سے زبردستی ایک ایسے شخص کو سات بیٹے
دلوادے رہے ہیں جس کی تقدیر میں اللہ تعالی نے ایک بیٹا بھی نہیں رکھا تھا
حتیٰ کہ کہیں انکے غوث پاک صاحب میدان محشر میں اپنے مریدوں کو اللہ تعالیٰ
کی مرضی کے خلاف جہنم سے نکال کر جنت میں ڈال رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
شیخ عبد القادر جیلانی سے متعلق ایک اور جماعت ہے جو شیخ کی بزرگی، ولایت
اور ان کے فضائل کا اقرار ہی نہیں کرتی بلکہ ان کی وہ باتیں جس میں تاویل
کی بھی گنجائش ہے اس میں شیخ کو متہم کرتی ہے، کہا جاتا ہے کہ حافظ ابن
الجوزی رحمہ اللہ نے اس جماعت کی تردید میں ایک مستقل کتاب بھی لکھی ہے ۔
[ذیل الطبقات ۲۹۵/۱]۔
آج کتنے لوگ ہیں جو اپنے کو مسلک سلف کا حامل سجمھتے ہیں حالانکہ وہ حضرات
اہل بدعت کی مخالفت میں شیخ کا نام لینا، انکی کتابیں پڑھنا اور ان کے
بارےمیں کچھ معلومات حاصل کرنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
تیسری جماعت اہل سنت وجماعت یا اہل حدیثوں کی ہے جو شیخ عبد القادر جیلانی
کو اپنے اماموں میں سے ایک امام تسلیم کرتی ہے، انہیں امت محمدیہ کا ایک
بڑا عالم مانتی ہے، اعمال قلوب اور اصلاح باطن میں انہیں اپنے وقت کا مجدد
تسلیم کرتی ہے، ان کی سچی کرامات کا اعتراف کرتی ہے، ان کے بارے میں غلو سے
کام نہیں لیتی اور نہ ہی ان کی حق تلفی کرتی ہے بلکہ افراط و تفریط کی
درمیانی راہ پر رہ کر شیخ عبد القادر جیلانی کو احترام و تقدیر کی نظر سے
دیکھتی ہے البتہ انہیں عام اماموں، عالموں، فقیہوں اور بزرگوں کی طرح ایک
انسان لیکن عام انسانوں سے بہت اونچا تسلیم کرنے کے باوجود خطا ونسیان سے
بری نہیں سمجھتی۔
مثال کے طور پر امام ذہبی رحمہ اللہ ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:
"الشیخ الامام العالم الزاھد العارف القدوۃ شیخ الاسلام علم الاولیاء محی
الدین ۔۔۔شیخ بغداد" [السیر ۴۲۹/۲۰]۔
ان تعریفی القاب کے ساتھ ساتھ ان کے تذکرہ کے آخر میں لکھتے ہیں:
خلاصہ یہ کہ شیخ عبدا لقادر بڑی شان والے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ ان کے بعض
اقوال و دعوے قابل گرفت ہیں۔ حاضری اللہ کے پاس ہے۔ ان کی طرف منسوب بعض
اقوال ان پر الزام تراشی ہے۔ [السیر ۴۵۱/۲۰]۔
امام ذہبی کے ہم عصر ایک اور امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ان میں کافی زہد تھا۔۔۔ وہ صالح اور متقی تھے، انہوں غنیۃ الطالبین اور
فتوح الغیب جیسی کتابیں لکھیں ان میں بہت سی باتیں بڑی عمدہ ہیں البتہ ان
میں بہت سی ضعیف اور موضوع حدیثوں کو بھر دیا ہے، خلاصہ یہ کہ وہ مشایخ کے
سردار تھے۔ [البدایہ ۱/۲۷۰]۔
قریب قریب اسی زمانہ کے ایک حنبلی امام حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
الزاھد شیخ العصر وقدوۃ العارفین سلطان المشائخ وسید اھل الطریقۃ فی وقتہ
محی الدین ابو محمد صاحب المقامات والکرامات والعلوم والمعارف والاصول
المشہورۃ ۔ [ذیل طبقات الحنابلہ ۱/۲۹۰]۔
ان تعریفی القاب کے بعد ان کے تذکرہ میں ان کی طرف منسوب ایک قول کی تردید
و تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس قسم کے اقوال کے بارے میں سب سے اچھی بات
وہ ہے جو ابو حفص السہروردی نے اپنی کتاب عوارف المعارف میں کہی ہے کہ شیوخ
کی یہ وہ لفاظیاں ہیں جن میں ان کی اقتداء نہ کی جائے گی اور نہ ہی ان سے
ان کے مقامات و درجات میں فرق پڑتا ہے کیونکہ کوئی بھی ہو ہر ایک کی بات
مانی بھی جائے گی اور رد بھی کردی جائے گی سوائے معصوم صلی اللہ علیہ وسلم
کے {ہر بات مانی جائے گی کوئی بات رد نہ کی جائے گی}۔ [ذیل طبقات ۱/۲۹۵]۔
حاصل یہ کہ اگر اس قسم کے اقوال نقل کئے جائیں تو ان کے لئے مکمل دفتر کی
ضرورت ہے مقصد صرف یہ ہے کہ اہل سنت و جماعت نے نہ شیخ کو ان کے حق سے اوپر
اٹھا کر ان کے بارے میں غلو سے کام لیا نہ انہیں معصوم عن الخطا سمجھا، نہ
انہیں قادر مطلق اور مختار کل تسلیم کرکے شرک کے مرتکب ہوئے اور نہ ہی ان
کی حق تلفی کی کہ انہیں امام وقت، ولی اللہ اور صاحب کرامت بزرگ وغیرہ
ماننے سے انکار کردیا۔
سلسلہ جاری ہے |