سیار احمد شیخ کی زندگی کا یہ پہلا اور
آخری مظاہرہ ثابت ہوا۔ اس کی عمر ابھی 15سال تھی۔9ویں کلاس میں زیر تعلیم
یہ کم عمر نوجوان وادی میں قتل عام پر شدید افسردہ ہے۔آج وہ صبح سویرے
بیدار ہوا۔ نماز کے لئے مسجد گیا۔ واپس آ کر نیا لباس زیب تن کیا۔ جیسے وہ
کسی شادی میں شرکت کرنے والا ہے۔ اس کے دوست دانش کا کہنا ہے کہ سیار صبح
اس کے پاس آیا۔ مظاہرے میں جانے کا اصرار کیا اور کہا کہ اس کا شریک ہونا
ضروری ہے۔ وہ اپنے چھ دوستوں کے ساتھ ٹکرو گیا۔ جو ان کے گاؤں گنؤ پورہ سے
8کلو میٹر دور ہے۔ یہ شوپیاں ضلع ہے۔ جو جنوبی کشمیر میں شامل ہے۔ یہاں
گزشتہ دو ماہ میں سب سے زیادہ احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ دوست بھی اس
میں شامل ہو گئے۔ فورسز نے شیلنگ اور پیلٹ فائرنگ کی ۔ کئی چھرے سیار کی
آنکھوں اور سر میں پیوست ہو گئے۔ اسے ہسپتال لایا گیا۔ جہاں وہ جان کی بازی
ہار گیا۔
یہ ہفتہ 10ستمبر2016کا واقعہ ہے۔ جب وادی میں تین افراد شہید ہو 250سے
زیادہ زخمی ہوئے۔ شہداء کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ زخمیوں سے ہسپتال بھر چکے ہیں۔
ہزاروں نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ بھارتی فورسز اب رات کو گھروں پر
دھاوا بول رہے ہیں۔ مکینوں پر تشدد ہو رہا ہے۔ توڑپھوڑ کی جا رہی ہے۔
ہزاروں مکانوں اور گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔
جنوبی کشمیر میں اب بھارتی فوج کے مزید دستے پہنچ رہے ہیں۔ انہیں بھارت کی
ر یاستوں یا ٹریننگ سنٹرز سے یہاں پہنچایا جا رہا ہے۔ جنوبی کشمیر میں اننت
ناگ، کولگام، شوپیاں، پلوامہ جیسے اضلاع شامل ہیں۔ یہاں بھارتی فورسز پر
مجاہدین کے حملے بھی تیز ہو چکے ہیں۔ جنوبی کشمیر جیسی صورتحال شمالی کشمیر
اور وسطی کشمیر میں بھی ہے۔ بے لگام بھارتی فوجی قتل عام جاری رکھے ہوئے
ہیں۔ وہ مہلک ہتھیار اور زہریلی گیسیس استعمال کر ہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا
نہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ انہیں کھلی چھوٹ دے کر گئے ہیں۔ ان
کے ہمراہ کل جماعتی وفد بھی آیا تھا۔ جن پر کشمیریوں نے اپنے دروازے بند کر
دیئے۔ کیوں کہ وہ اس سے پہلے بھی 2008اور 2010کو جھوٹے دلاسے اور طفل
تسلیاں دے کر گئے۔ حالات کچھ ٹھیک ہوئے تو قتل عام پھر تیز ہو گیا۔
بھارت کی پالیسی سے سبھی آگاہ ہیں۔ جس طرح پہلے ایجی ٹیشن کے بعد کشمیری
خاموش ہو گئے۔ بھارت پھر اسی خاموشی کے لئے منتظر ہے۔وہ آزادی پسند
کشمیریوں اور پاکستان کو دیوار سے لگا نا چاہتا ہے۔ انہیں غیر متعلق کرنے
کا خواہشمند ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے 20پارلیمنٹیرینز کو دنیا میں روانہ
کرنے کا علان کیا ہے۔ جس میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں۔ جو کشمیر کے بارے میں
کچھ بھی نہیں جانتے۔ ا ن کی بریفنگ ضروری ہے۔ ہر ایک ٹیم میں اگر حریت
کانفرنس نمائیندگان، مہاجرین اور دیگر آزادی پسند کشمیریوں کو شامل کا جاتا
توکچھ فائدہ ہو سکتا تھا۔ شاید سنجیدگی کی کمی ہے۔ خانہ پری اور دل بہلانے
کی کوششیں پہلے بھی کی گئیں۔ مگر ان کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جو خود کچھ نہیں
جانتے، وہ دنیا کو کیا جانکاری دیں گے۔ یہ حکمت عملی اور پالیسی کا فقدان
ہے۔
پاکستان نے ابھی اعلان ہی کیا تھا۔ مگر بھارت پوری دنیا تک پہنچنے ک شروعات
بھی کر چکا ہے۔ نریندر مودی نے جی 20اور آسیان بھارت اجلاس میں پاکستان کو
دہشت گردی کا ذمہ دار قراردیا۔ اگر چہ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل عیاد
امین مدنی نے 20اگست کو پاکستان کا دورہ کیا۔ کشمیر پر حمایت کی یقین دہانی
کرائی۔ او آئی سی کا رابطہ گروپ نیو یارک میں19-20ستمبر کو اجلاس منعقد کر
رہا ہے۔ سید علی شاہ گیلانی اور میرواعظ مولوی عمر فاروق کو بھی اس اجلاس
میں او آئی سی کے دعوت نامے مل چکے ہیں۔ مگر او آئی سی بھارت پر حریت
رہنماؤں کے سفر پر پابندی ختم کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے سے گریز کر رہی ہے۔
بھارت نے دہشت گردی سے متاثرہ ممالک شام، عراق اور لبنان کے دورہ پر وزیر
خارجہ امور مملکت ایم جے اکبر کو روانہ کیا۔ تا کہ ان کی حمایت حاصل کی جا
سکے۔ مصر کے صدر عبد ل فتح السیسی نے دہلی کا دورہ کر کے بھارت سے پارٹنر
شپ قائم کرنے کا اعلان کیا۔ بھارتی وزیر آئی ٹی روی شنکر پرشاد اسٹونیا اور
لٹویا پہنچ چکے ہیں۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ہنگری اور وزیر ریلوے سریش
پربھو بوسنیا کے دورے پر ہیں۔ بھارتی وزیر خارہ سشما سوراج نے وزرائے کے
دنیا بھر کے دوروں کا ٹائم ٹیبل بنا رکھا ہے۔
بھارت گرفتار پاکستانیوں اور کشمیریوں کو جنگ بندی لائن پر پہنچا کر انہیں
فرضی جھڑپ میں شہید کر دیتا ہے۔ دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ پاکستان در
اندازی کرا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ سیشن کے موقع پر
بھی اس طرح کے بھارتی الزامات کا خدشہ ہے۔ تا کہ وہ پاکستان اور دہشت گردی
کے درمیان تعلق ظاہر کر سکے۔ دہلی کی سفارتکاری کا مرکزی نکتہ دہشت گردی
ہے۔ وہ کشمیر میں حقائق کو چھپا کرآزادی کی تحریک کو دہشت گری ثابت کر رہا
ہے۔ کشمیر میں فوج میں کمی کے بجائے مزید فوج داخل کی جا رہی ہے۔ کشمیر
پہلے ہی فوجی چھاؤنی تھی۔ اب اس میں توسیع ہو رہی ہے۔ نواز شریف حکومت بیان
بازی سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ اسے اندرونی طور پر سیاسی خلفشار کا سامنا
ہے۔ اگر کچھ بھی نہیں تو اسلام آباد کم از کم آزاد کشمیر حکومت کو ہی مسلہ
کشمیر دنیا بھر میں اجاگر کرے کا ٹاسک دے سکتا تھا۔ مولانا فضل الرحمان
جیسے اتحادیوں کو نوازنے اور مصروف رکھنے کے لئے آزاد کشمیر حکومت کو کردار
ادا کرنے کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ اس وقت کشمیر جل رہا ہے۔ ہر روز نوجوان
شہید ہو رہے ہیں۔ بھارت ان کی مایوسی اور گھٹنے ٹیکنے تک کاانتظار کر رہا
ہے۔ بھارت دنیا کے سامنے دہشت گردی کے ایک متاثرہ فریق کے طور پر پیش ہو تا
ہے۔ وہ مظلوم بن رہا ہے۔ اس کی معیشت سے دنیا مستفید ہونا چاہتی ہے۔ اس لئے
وہ بھارتی ریاستی دہشت گردی کو نظر انداز کرتی ہے۔ مسلے کا فریق پاکستان
اور خود کشمیری بھی بھارتی جارحیت اور قتل عام کے جاری رہنے میں حصہ دار
ہیں۔ کیوں کہ یہاں عملی اقدامات کے بجائے بیان بازی کا مقابلہ لگا ہو ا ہے۔
عوام کو سڑکوں پر لانے میں آزاد کشمیر حکومت یا اپوزیشن نے مجرمانہ خاموشی
اختیار کی ہوئی ہے۔ چکوٹھی مارچ یا جنگ بندی لائن توڑنے کا اعلان تک کرنے
کی انہیں فرصت نہیں۔
سیاراور اس کے دوست کم عمر طلباء کشمیر کی سڑکوں پر پاکستان زندہ باد اور
آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں۔ آزاد کشمیر حکومتعوام کو متحد
کر کے کوئی عملی کردار ادا کرنے کے بجائے انہیں برادریوں اور علاقوں میں
تقسیم کرنے میں مصروف ہے۔ سیار احمد نے شہید ہو کر جو پیغام دیا، شایداس
جانبجنگ بندی لائن کی دوسری طرف توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ |