بے بے ٹھیک کہندی سی
(Malik Abdul Rehman Jami, Abbotabad)
بیٹی اکثر وبیشتر ماں کی مصدقہ نقل ہوتی
ہے۔ماں اپنے زمانے کی مشہور دل پھینک تھی بیٹی کو بھی ظاہر ہے اسی کے نقش ِ
قدم پہ چلنا تھا۔اماں باوا کے گھر تو وہ کھل کھیلی۔ایسی لڑکیوں کی شادیاں
کم ہی ہوتی ہیں لیکن وہ قسمت کی دھنی تھی کہ ایک نمونہ ہاتھ لگ گیا اور اس
کے بھی ہاتھ پیلے ہو گئے۔کایاں ماں نے سمجھایا اب پرانی حرکتیں چھوڑ دو
ورنہ کسی دن بہت پچھتاؤ گی۔چور چوری سے جاتا ہے ہیرا پھیری سے نہیں۔ماں کی
نصیحت کو اس نے درخور اعتناء نہیں سمجھا اور شادی کے باوجود پرانے عشاق سے
میل جول جاری رکھا۔ایک دن اسی طرح کی ملاقات جاری تھی کہ میاں نے دروازے پہ
دستک دی۔راہِ فرار نہ پا کے خاتون نے بغیر دروازہ کھولے اندر ہی سے واویلا
شروع کیا ۔ہائے میں مر گئی "بے بے ٹھیک کہندی سی"میاں دروازہ کھٹکھٹاتا رہا
اور وہ اندر سے بار بار یہی فقرہ دھراتی رہی "بے بے ٹھیک کہندی سی"میاں
سادہ نہ ہوتا تو اس حرافہ سے شادی کرتا۔وہ خود پریشان ہو گیا اسے جب کچھ
سمجھ نہ آئی تو دوڑا دوڑا ساس کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ میری بیوی کو
کوئی دورہ پڑ گیا ہے۔میں دروازہ بجاتا ہوں تو دروازہ نہیں کھولتی بس ہائے"
بے بے ٹھیک کہندی سی" کہے جاتی ہے۔ماں کو سمجھنے میں ایک لمحہ نہیں لگا۔اس
نے داماد کو تسلی دی کہ فکر کی کوئی بات نہیں۔اسے کچھ عرصہ بعد یہ دورہ
پڑتا ہے تم جلدی سے پنساری کی دوکان سے خشخاش اور خمیرہ گاؤ زبان لے آؤ میں
جا کے اسے دیکھتی ہوں۔
میاں بگٹٹ بھاگا ۔پنساری کی دکان تین میل دور تھی۔دوسری طرف لڑکی کی ماں اس
کے گھر پہنچی اور بیٹی کے عاشق کو گھر سے نکالا اور ساتھ ہی بیٹی کو پہلے
لعن طعن کیا کہ تمہیں منع بھی کیا تھا کہ اب ان حرکتوں سے باز آ جاؤ لیکن
تم نہیں مانیں۔آج اگر میں نہ ہوتی تو تم نے تو اپنا گھر اجاڑ لیا تھا۔بعد
ازاں اس نے بیٹی کو بستر پہ لٹا دیا اور اسے ہوا دینے لگی۔اس کے لئے دودھ
گرم کیا اور داماد کی آمد کا انتظار کرنے لگی۔وہ بے چارا ہانپتا کانپتا
خشخاش اور خمیرہ گاؤ زبان لے کے پہنچا تو ماں نے بیٹی کو خمیرہ تو دودھ کے
ساتھ چٹا دیااور داماد سے کہا کہ وہ خشخاش رگڑ لائے۔خشخاش رگڑی گئی تو ماں
نے سردائی بنا کے بیٹی کو پلائی اور داماد کو بتایا کہ تمہاری بیوی کو اس
طرح کا دورہ کبھی کبھی پڑتا ہے۔اس کا علاج یہی ہے کہ پنساری سے خمیرہ گاؤ
زبان اور خشخاش لا کے گرم دودھ کے ساتھ اسے خمیرہ چٹا دیا جائے اور پھر
طاقت کے لئے سردائی پلائی جائے۔گھاگھ ماں دراصل بیٹی کے مستقبل کو بھی ساتھ
ہی ساتھ محفوظ کرنا چاہ رہی تھی۔داماد نے تشکر کے جذبات کے ساتھ ساس کی طرف
دیکھا اور وعدہ کیا کہ آئندہ اسے دورہ پڑا تو میں سب سنبھال لوں گا۔وہ دن
اور آج کادن بیگم کو ہر تین چار ماہ بعد یہ دورہ پڑتا ہے۔جونہی میاں کو بند
دروازے کے پیچھے سے" بے بے ٹھیک کہندی سی" کی آواز آتی ہے تو سادہ لوح میاں
خمیرہ گاؤ زبان اور خشخاش لینے پنساری کی دکان کی طرف بھاگتا ہے اور خاتون
دروازے کی کنڈی کھول کے اپنے تازہ ترین عاشق کو باہر نکالتی اور خود بستر
پہ لیٹ کے لمبے لمبے سانس لینے لگ جاتی ہے۔پھر خمیرہ آتا ہے اور سردائی
بنتی ہے۔کچھ ہی دیر میں بیگم کی طبیعت سنبھل جاتی ہے اور دولہا میاں نہال
ہو جاتے ہیں۔
یہ کہانی ہے اور بلاشبہ جھوٹی کہانی ہے۔ بھلا کوئی اتنا بے وقوف کیسے ہو
سکتا ہے کہ ہر بار وہ عین موقع پہ پہنچے اور اسے معاملہ سمجھ میں نہ آئے
لیکن کہتے ہیں ناں کہ محبت اندھی ہوتی ہے اور وہ محبت کرنے والے کو بھی
اندھا کر دیتی ہے۔اندھے سے دیکھنے اور معاملہ سمجھنے کی توقع عبث ہے۔یہ بھی
ذہن میں رہے کہ یہ کہانی یا قصہ بس قارئین کی تفنن طبع کے لئے ہے اور اس کا
ملک کی سیاسی صورتَِ حال سے کوئی تعلق نہیں۔نہ فاروق ستار کی گاڑی کے حادثے
سے نہ مصطفےٰ کمال کے واویلے سے،نہ پانامہ لیکس سے اور نہ عمران خان کے
رائے ونڈ میں دھرنے سے۔فاروق ستار کی گاڑی کو فقط حادثہ تھا جو پیش
آیا۔گاڑی کچے میں اتری اور اس نے پانچ قلابازیاں کھائیں اس کے باوجود منحنی
سے فاروق ستار اس حادثے میں محفوظ رہے۔یہ دیکھنے میں البتہ کوئی حرج نہیں
کہ کہیں گاڑی کے بریک کے ساتھ تو کسی نے کوئی چھیڑ خانی نہیں کی۔کہیں اس
حادثے کے پیچھے برطانیہ سے ہوا کوئی اشارہ تو نہیں۔نہیں ہوگا لیکن مصطفےٰ
کمال کے اندیشوں کے پیش نظر تسلی میں کیا حرج ہے۔
رہی بات پانامہ لیکس کی تو اس میں جو صاحبان ملوث ہیں انہوں نے مشہورِ
زمانہ اداکار رنگیلا سے باقاعدہ اداکاری سیکھ رکھی ہے۔رنگیلا نے تو انکی
صلاحیتوں سے مایوس ہوکے ان کی تربیت سے معذوری ظاہر کر دی تھی ۔اس کے
باوجود استاد کا رنگ تھوڑا بہت تو شاگرد پہ چڑھتا ہی ہے۔اس لئے ملک بھر میں
پانامہ لیکس کی مزاحیہ نمائش جاری ہے جس کے نمایاں فنکاروں میں اعتزاز احسن
اور خورشید شاہ بھی شامل ہیں بلکہ مہمان اداکار کی حیثیت سے بلاول بھٹو کی
کی بھی ایک آدھ جھلک نظر آتی ہے۔اس بے بڑا مزاح اور کیا ہوگا کہ ملک سے
کرپشن کے خلاف خاتمے کی مہم کی قیادت زرداری کا بیٹا بلاول کرے گا۔خان صاحب
واقعی کیا اتنے سادہ ہیں کہ بیماری کا سبب بننے والے حکیم ہی کے لونڈے سے
دوا لینے پہ مصر ہیں۔عمران خان کو ان کے مخالفین ماسٹر آف یو ٹرن کہتے
ہیں۔ہم چونکہ ان کے چاہنے والے ہیں اس لئے ہمیشہ سمجھتے ہیں کہ خان صاحب کو
جونہی احساس ہوتا ہے کہ ان کا سابقہ مؤقف غلط تھا وہ اپنی تصحیح کر لیتے
ہیں۔لیکن کب تک بھائی کوئی خان صاحب کا قریبی خان صاحب کو بتاتا کیوں نہیں
کہ حضور جو جتنا زیادہ بولتا ہے اتنی ہی زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔ویسے تو ان
کی ساری سیاست ہی اس طرح کے متعدد بیانات سے بھری پڑی ہے ۔تازہ ترین معاملہ
جاتی امراء میں شریفوں کے گھر کے گھیراؤ کا ہے۔خان صاحب ہیں تو پاکستانی
لیکن سیاست گوروں والی کرنا چاہتے ہیں۔کاش وہ جانتے کہ ٹین ڈوائننگ سٹریٹ
اور جاتی امراہ کے محلات میں کتنا فرق ہے۔اتنا ہی جتنا پاکستان اور برطانیہ
میں ہے۔
اس واقعے یا قصے کا پنجاب میں رینجرز کے آنے سے بھی کوئی تعلق نہیں۔
حالانکہ اب وہاں رانا ثناء اﷲ باقاعدہ سر پہ ہاتھ رکھ کے دھائی دے رہا ہے
کہ" ہائے ہائے بے بے ٹھیک کہندی سی"دولہا باہر کھڑا دروازے پہ دستک دے رہا
ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ دولہا اتنا سادہ بھی نہیں کہ ساس کے کہنے پہ
خمیرہ گاؤ زبان اور خشخاش لینے چلا جائے گا۔ساس کو تو پہلے ہی اپنی پڑی ہے
کہ وہ بھی تو رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے۔
|
|