کھلنڈرا وزیراعلیٰ

سندھ کے نئے وزیراعلی مراد علی شاہ جو اب بڑی حد تک پرانے ہو چکے ہیں، اکثر ہفتہ کی شاموں کو کھیل کود میں مصروف نظر آتے ہیں۔ موصوف طبیعتاً اسپورٹس کی بہت شوقین نظر آتے ہیں اور سب سے زیادہ ان کو کرکٹ پسند ہے۔ وہ کبھی گلیوں میں نوجوانوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے پائے جاتے ہیں تو کبھی میدانوں میں بیٹنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ پرفارمنس بھی خاصی بہتر دیتے ہیں جس سے دیکھنے والے یہ بھی گمان کر بیٹھتے ہیں کہ ہماری قومی ٹیم کو ان کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ مراد علی شاہ اگر وزیر اعلی نہ ہوتے تو شاید کرکٹر ہوتے۔ گزشتہ دنوں جب پش اپس کی بیماری چلی تھی تو ان ہی کی کابینہ کے ایک اور وزیر نے پنجاب کی حکومت کو پش اپس کا چیلنج دے دیا تھا جس سے یقینا ان کی غیر سیاسی سوچ اور ذہنی نا پختگی کا اندازہ کر نا مشکل نہیں۔آج کل سندھ کابینہ کے وزیر اور کابینہ کے کپتان مراد علی شاہ جس طرح کھیل کو د میں وقت گزار رہے ہیں تو اسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاید اس طر ح کی اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ وزیراعلی بننے کے باوجود بہت ’’ریلکس‘‘ ہیں۔ یہاں بڑا اہم سوال یہ ہے کہ جس صوبے میں مسائل کا انبار ہو۔ جہاں عوام کو پینے کا پانی تک میسر نہ ہو ، جہاں کراچی جیسے شہر میں ٹوٹی ہوئی سڑکیں پکار پکار کر انتظامیہ اور حکومت کو دھائی دے رہی ہوں، جہاں بے روزگاری اپنے عروج پر ہو، جس صوبے کے سب سے بڑے اور اہم ترین شہر میں امن و امان بحال کرنے کے لئے سیکیورٹی ادارے شب و روز آپریشن میں مصروف ہوں، جس صوبے کی حدود میں تھر جیسے پسماندہ ترین علاقے آتے ہیں کہ جہاں روزانہ درجنوں بچے غذائی قلت اور دواؤں کی عدم دستیابی کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہوں، جس صوبے میں غربت کی شرح ملک بھر میں سب سے زیادہ ہو وہاں کا وزیراعلی اگر ہر ہفتہ کو کرکٹ کھیلے تو یہ حیران کن ہی نہیں بلکہ پریشان کن بات ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں حکومت کرنا اور بحیثیت حاکم تخت پر بیٹھنا کوئی آسان کام نہیں ، یہ کانٹوں کی سیج ہے ۔ اصولی طور پر تو اس ملک کا وزیراعظم بننے کے بعد یا ملک کے کسی بھی صوبے کا وزیراعلی بننے کے بعد اگر اس حاکم وقت کو راتوں کو سکون سے نیند آ جائے تو دو ہی باتیں ہو سکتی ہیں ۔ یا تو وہ حاکم بے حس انسان ہے اور اپنی موج مستیوں میں ڈوبا ہوا ہے یا پھر اس کا ذہنی توازن درست نہیں۔ سماجی اور دینی دونوں اعتبار سے حاکم وقت کے کاندھوں پر بہت زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور وہ ہر معمولی سے معمولی اور بڑی سے بڑی بات کا جواب دہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی وزیراعلی اسپورٹس کے لئے ہر ہفتہ وقت نکال لے تو پھر مذکورہ بالا دونوں باتوں میں کون سے بات اس پر صادر آتی ہے، اس کا فیصلہ قارئین خود کر لیں۔ نوجوانوں اور عوام کا مورال بڑھانے کیلئے یقینا حاکموں کو اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے لیکن جو حکمراں اس طرح کی غیر سیاسی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں اپنے آپ کو مسلسل مصروف رکھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو امور مملکت چلانے سے زیادہ اپنے شوق پورے کرنے میں دلچسپی ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کے گزشتہ آٹھ سال کو بد ترین ادوار میں شمار کیا جا رہا ہے کہ جس میں ایک ایسا وزیراعلی سندھ کے عوام پر مسلط تھا کہ جسے میڈیا پر بات کرتے وقت یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اسے کیا بولنا چاہیے ، کتنا بولنا چاہیے اور کہاں بولنا چاہیے؟ اب یہ دوسرا وزیراعلی ہے جو جواں سال ہے اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے عوام کے لئے کیا کرنا چاہیے، کتنا کرنا چاہیے ، کس وقت کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی صورت میں سندھ میں پیپلزپارٹی آئندہ مزید کتنے الیکشن جیت سکے گی ، یہ سیاسی پنڈتوں کے لئے اہم ترین سوال ہے جس کا جواب وقت کے سواکوئی نہیں دے سکتا تاہم علامتیں خطرناک ہیں۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 68390 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.