میرا سب سے بڑا دشمن میری ماں ہے۔ اس مسئلے
کے اسباب اور تفاصیل پر تو بات کر لی ہے مگر اسکا حل ابھی ڈسکس کرنا رہتا
ہے۔ حل کس کے ہاتھ میں ہے؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسئلہ یہ ہے کہ حل دونوں کے
ہاتھ میں ہے۔
کوئی بھی مسئلہ کبھی بھی صرف ایک انسان کا پیدا کردہ نہیں ہوتا نہ ہی صرف
ایک انسان اسکو حل کر سکتا ہے۔ مسئلے میں شامل تمام ہی لوگ مسائل کا سبب
اور پھر اسکا حل بھی ہوتے ہیں۔
اسی لئے جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ ماں اور اولاد دونوں کو مد نظر رکھتے
ہوئے ہی لکھا جا رہا ہے۔
1۔ ماں کو آج کے زمانے میں جبکہ وقت اور اسکا تقاضا بدل رہا ہے کہ مطابق یہ
حقیقت تسلیم کرنی ہو گی کہ آج صرف اولاد کو مرکز بنا کر اپنے لئے اسی کو
مصروفیت کا محور بنا کر زندگی کو گزارے جانا ناممکن ہے۔
جو بھی شوق اور دلچسپیاں شادی سے پہلے لاحق تھیں انکو اپنا کر رکھیں ۔ چاہے
یہ کتنا ہی مشکل اور ناممکن کیوں نہ نظر آتا ہو مگر اگر انسان اپنا وقت
ٹیوی انٹرنیٹ جیسی سگرمیوں میں لگا سکتا ہے تو اپنی دلچسپیوں کے لئے وقف
رکھنا کونسا مشکل ہے۔
جب آپ کے پاس لائق توجہ کوئی اور کام ہو گا تو اپنا بچہ جب اس عمر میں بھی
چلا جائیگا جب وہ آپکی چوبیس گھنٹے توجہ کے بغیر بھی زندہ رہ سکے تو آپکے
لئے بھی اسکو بات بے بات حکم دئے بغیر مصروف رہنا آسان ہو گا۔
2۔ آج کے بچوں کو ہم خود بھی نازک مزاج بنانے پر تل ہوتے ہیں کبھی انکو
پانی کا ایک گلاس تک اٹھانے کا نہیں کہنا چاہتے اور پھر کچھ سالوں بعد خیال
آتا ہے کہ ہماری ہر ضرورت کو بن کہے پورا کرنا ہمارے بچے کو ضرور آنا چاہئے۔
اگر آپ اولاد سے خدمت کی توقع رکھتے ہیں تو انکو اپنے بزرگوں کی خدمت کرکے
دکھائیں اور اپنے چند کام بھی انکے ذمے لگائیں۔
3۔ یہ توقع بالکل غیر حقیقی ہے کہ بچہ یا بچی پورا پورا دن آُپکی ماننے پر
تیار رہے۔
اول تو چیک کر لیں کہ وہ اس وقت آپکی ہدایت مان سکے گا یا نہیں۔
پھر یہ دیکھ لیں کہ بہت بڑا اور مشکل کام نازک مزاج بچے کو کہنے کی بجائے
چھوٹے چھوٹے کاموں سے شروعات کریں -
سب سے بہترین یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں مستقل سونپیں۔ آقا و غلام کی
طرح بات منوانے کی بجائے ذمہ داریاں سونپیں۔
بچوں کو خود بھی سمجھنا ہو گا کہ بجائے ہمیشہ لینے کے اور اپنی منوانے کے
وہ ماں باپ کی بھی مانیں۔ زندگی میں صرف اپنی منوانے کے لئے نہیں آئے ماں
باپ کی خدمت کرنا بھی اولین فرض ہے۔
آخر کو ماں باپ نے اپنی زندگی کا بہترین وقت ہم پر وارا ہوتا ہے۔
4۔ "لچکدار" ہونا بہترین انسانی خوبی ہے۔
ہمیں جو لوگ سب سے اچھے اور جنکے ساتھ چلنا اور نباہ کرنا آسان ہو ہمیشہ
یاد رہ جاتے ہیں۔
ماں باپ اور اولاد ایک دوسرے کے لئے لچکدار نظر نہیں آتے انکا دل چاہتا ہے
کہ بس ایک فریق مانے اور دوسرا منوائے-
تعلیم کرئیر سکول جاب شادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر مسئلے کو ایک تو ڈائیلاگ
اور دوسرا فائدہ و نقصان کو مدنظر رکھ کر فیصلے کی جانب لے جانا سیکھیں
ورنہ نتیجہ دوریوں کی شکل میں ہی نکلتا ہے۔
5۔ ماں باپ کے لئے آج ازحد ضروری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے بارے میں جانیں۔
آنے والی ٹیکنالوجی کو مورد الزام دینے کی بجائے ٹیکنالوجی کا استعمال
جانتے ہوئے اسکے ساتھ چلنا سیکھیں-
یہ ہمارے بہت کام بھی آتی ہے جب بھی کوئی انسان زیادہ یا کم استعمال کر رہا
ہے تو ذمہ دار تو وہ خود ہے سو ماں باپ خود کو اسکا استعمال سکھائیں اور
اولاد اسکا استعمال کنٹرول کرنا سیکھے بحیثیت انسان بھی اسکا ذیادہ استعمال
آپکو تباہ ہی کرتا ہے۔
ٹیکنالوجی کم استعمال کرنے سے کوالٹی آف لائف ذیادہ متاثر نہیں ہوتی جبکہ
رشتے متاثر ہوں تو زندگی متاثر ہوتی ہے۔
6۔ ماں باپ کو یہ یقین ہوتا ہے کہ انکو رعب ڈالنے کا حق ہے اور یہ انکا فرض
بھی ہے۔
رعب سے ذیادہ آج کی اولاد کے ساتھ ایسا رشتہ بنانا ہوتا ہے کہ وہ ماں باپ
سے اپنی بات کہہ سکیں کیونکہ یہ بھی دیکھا ہے کہ ماں باپ اتنا تعلق بناتے
ہی نہیں کہ اولاد اپنے دل کی بات یا پریشانی کاسبب بننے والی بات شئیر کر
سکے۔
یہ بھی ایک غلط ٹرینڈ ہے۔ دوستی اتنی ہو کہ بدتمیزی کرنے سے پہلے سوچیں اور
مسئلہ بتانے پریشانی کا شکار نہ ہوں۔
7۔ ماں باپ اور اولاد کو اپنی ایکٹیویٹز اور وقت کو ژئیر کرنا سیکھنا ہو گا
یہ ضروری نہیں کہ چوبیس گھنٹے سر پر مسلط رہیں اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ ہر
وقت ایک دوسرے کو وقت کی کمی کے طعنے دئے جائیں ۔
ہفتے میں چند بارملکر کھانا کھانا ، ایک آدھ دفعہ کسی تفریحی مقام تک جانا،
موبائل کوو دور رکھ کر ایک دوسرے کی کہنا سننا ، حالات حاضرہ یا مشترکہ
دلچسپی پیدا کر کے اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش کرنا ۔
یہ سب سے اہم عنصر ہے جو غائب ہو رہا ہے اور رشتوں کو دیمک لگا رہا ہے۔
8۔ اولاد کو عمر کے مطابق ڈیل کریں ان سے میچورٹی نہ مانگیں اور نہ ہی
بدلتے مزاج اور فطرت پر پریشان ہوں۔
آپ ہم جو کچھ بھی بن گئے ایک دن میں نہیں بنے وقت کے ساتھ ساتھ عمر گزار کے
بنے ہیں سو اولا د کو بھی مارجن ملنا چاہئے۔
9۔ چودہ اور سولہ سال کی عمر کو پہنچ کر بھی زندگی کو انجوائے ہی کرتے رہنا
چاہتے ہیں۔
انجوائے کا مطلب یہ نہیں کہ چپ کی بکل مارنی ہے۔
تفریح کا پہلو رکھیں
مگر
رشتوں اور پڑھائی کو سنجیدگی سے لینا شروع کریں سب سے بڑھ کر اپنی پرسنل
گرومنگ اور عادات کو کیونکہ عادات ہی بناتی ہیں عادات ہی بگاڑتی
ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواہ زندگی ہو یا رشتے ہوں - |