آبِ حیات کا تنقیدی مطالعہ
(Safdar Imam Qadri, India)
محمد حسین آزاد اپنی تاریخ دانی، نظم جدید
کے موجد اور صاحبِ طرز نثر نگار ہونے کی وجہ سے اُردو ادب کی تاریخ میں ایک
مستقل باب ہیں۔ ان کی نثر نگاری پر توجہ دیں تو مہدی افادی کا قول یاد آتا
ہے کہ پروفیسر آزاد کی انشا پردازی، اخلاق، سوانح، اور تاریخ کسی بھی حوالے
کے بغیر اپنا آزادانہ وجود رکھتی ہے۔ مہدی افادی سے اختلاف کرنے والوں کو
بھی آزاد کی غیر معمولی قوتِ انشا پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ آخر کوئی تو وجہ
ہوگی کہ یہ مقولہ مشہور ہوگیا کہ آزاد گپیں ہانکتے ہیں تو وحی معلوم ہوتی
ہے۔ دلّی کالج کے پروردہ، عربی زبان و ادب کے پروفیسر، فارسی اور اردو
زبانوں کی ادبی تاریخ لکھنے والے، ذوق کے شاگردِ خاص اور دلّی میں اردو کے
پہلے اخبار ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے مدیر مولوی محمد باقر کے صاحب زادے___
اتنی فضیلتوں کے ساتھ محمد حسین آزاد کی پہلی اور اصل فضیلت زبان اردو میں
ایک علاحدہ طرزِ نگارش اور دبستان کے موسس کی ہے۔
آزاد نے کئی ناقابلِ فراموش کتابیں تحریر کیں۔ ’دربارِ اکبری‘، ’سخن دانِ
فارس‘ اور ’نیرنگِ خیال‘ کے ایک صفحے کو بھی بھلایا نہیں جا سکتا لیکن جس
کتاب نے بہ زبانِ آزاد ’فخر کا نولکھّا ہار‘ اُن کے گلے میں ہمیشہ کے لیے
باندھ دیا،وہ کوئی اور کتاب نہیں‘ اردو ادب کی تاریخ کو موضوع بنا کر لکھی
گئی اسم بامسمّٰی ’آبِ حیات‘ ہے۔ یوں تو اس کتاب کے لکھتے وقت محمد حسین
آزاد کے ذہن میں ایک عمومی خاکہ ہوگا لیکن شاید انھیں بھی اس کا پتا نہیں
تھا کہ وہ یہاں اپنے علم، صلاحیت اور فنّی ہنر مندی کے نقطہء عروج پر ہیں۔
پہلی نظر میں واقعتاََ یہ کتاب اُردو ادب کی ایک سلسلے وار تاریخ ہے لیکن
اس کی اہمیت اس سے سوا بھی ہے۔ اس کی تنقیدی اور تحقیقی حیثیت پر ناقدین نے
خاصی جارحانہ راے پیش کی ہے۔ ان رایوں میں صداقت بھی ہے لیکن کیا آبِ حیات
کی ادبی اہمیت اور مقبولیت میں کسی بھی زمانے میں کوئی کمی آئی؟ ایک قاری
کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ ایک دل چسپ مشغلہ ہے کہ آخر آبِ حیات میں وہ کون
سا سحر ہے جس نے اس کی ہردور میں اہمیت برقرار رکھّی ؟ وہ کون سا جادو ہے
جس نے اس کتاب کو آبِ حیات عطا کیا۔
محمد حسین آزاد نے آبِ حیات کی تحریر کا ایک مکمّل خاکہ تیار کیا۔ اس سے
پہلے وہ تاریخ کی مقصود بالذّات کتابیں ’سخن دانِ فارس‘ اور ’دربارِ اکبری‘
لکھ چکے تھے۔ اسی لیے آبِ حیات کو اُنھوں نے ایک واضح تاریخی خط پر آگے
بڑھایا۔ ابتدائی حصّے میں ’دیباچہ‘، ’تاریخِ زبانِ اردو‘، ’برج بھاشاپر
عربی اور فارسی زبانوں نے کیا کیا اثر کیے‘ اور ’نظمِ اردو کی تاریخ‘ کے
عنوانات سے مقدماتی ۸۰ صفحات رقم کرنے کے بعد انھوں نے پوری ادبی تاریخ
کوپانچ ادوار میں تقسیم کیا۔ ولیؔ سے یہ تذکرہ شروع ہوکر میر انیسؔ تک
پہنچتا ہے۔ دکن، دہلی، اور لکھنؤ کے کُل ۲۹ شعرا کے بارے میں محمد حسین
آزاد کے خیالات اس کتاب میں موجود ہیں۔ حسبِ ضرورت وہ اختصار یا تفصیل سے
کام لیتے ہیں۔ بیشتر معاملات میں اہم شعرا کو آبِ حیات میں مفصّل تذکرے کا
حصّہ بنا یا گیا ہے لیکن بعض مواقع سے اُنھوں نے اہم شاعروں کو ضمنی تذکرے
کے لائق سمجھا اور اُن سے کم مرتبہ شعرا درجنوں صفحات پر اپنے واقعات کے
ساتھ موجود ہیں۔
آبِ حیات کے اوّلین دو ادوار دہلی میں اردو شاعری کی ابتدا کے لیے وقف ہیں۔
ولیؔ اور اُن کے دیوان کے دہلی آنے سے یہ تذکرہ شروع ہوکر ایہام گو شعرا
اور اصلاحِ زبان کے موئدین تک انجام کو پہنچتا ہے۔ آبِ حیات کے یہ ادوار
اصل میں تیسرے دور کی پیش بندی ہیں۔ جس میں محمد حسین آزاد نے مرزا محمد
رفیع سوداؔ، محمد تقی میرؔ، میر سوزؔ، خواجہ میر دردؔ کے ساتھ مرزا مظہر
جانِ ؔجاناں، میر ضاحکؔ اور عبدالحئی تاباںؔ کی خدمات کا ذکر کیا ہے۔ یہی
اردو شاعری کا عہدِ زرّیں ہے۔ آزاد نے صحیح لکھا ہے کہ یہ لوگ ’’حقیقت میں
عمارتِ اردو کے معمار ہیں۔‘‘ اپنے مخصوص انداز میں اُنھوں نے اس دور کے
شعرا کے بارے میں کچھ چمکتے ہوئے جملے بھی لکھے ہیں۔ ملا حظہ کریں:۔ ’’اس
مشاعرے میں اُن صاحب کمالوں کی آمد آمد ہے جن کے پا انداز میں فصاحت آنکھیں
بچھاتی ہے اور بلا غت قدموں میں لوٹی جاتی ہے،..... ’’تم دیکھنا، وہ بلندی
کے مضمون نہ لائیں گے، آسمان سے تارے اُتاریں گے‘‘۔
آبِ حیات کا چوتھا دور اُن شعرا پر مشتمل ہے جنھیں دہلی سے لکھنؤ تک اپنی
فضیلت ثابت کرنے کے مواقع ملے۔ ان میں سے سب حلقۂ دہلی میں پیدا ہوئے اور
وہیں کے تربیت یافتہ ہیں لیکن ان کی شہرت اور نام وری کا سورج لکھنؤ میں جا
کر چمکا۔ جرأت، انشا، مصحفی اور میر حسن چار شاعروں کا دورِ چہارم میں ذکر
ہے لیکن جہاں انشااﷲ خاں انشا کو ۴۸ صفحات میسّر آئے ہیں وہاں میر حسنؔ کے
لیے محض ۵ صفحات عطا کیے گئے ہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُن
۵ صفحات میں بھی آزاد نے ایسی خدا لگتی کہی کہ آج تک اُنھیں صفات کو میر
حسن کا بنیادی وصف مان لیا جاتا ہے۔
آبِ حیات کا سب سے تفصیلی دور دورِ پنجم ہے جس میں دہلی اور لکھنؤ اسکول کے
انیسویں صدی کے تمام بڑے شعرا موجود ہیں۔ غزل، مرثیہ اور قصیدہ جیسی اصناف
کے عظیم خدمت گار اس دور میں پیش پیش ہیں۔ ناسخ، خلیق، آتش، شاہ نصیر،
انیس، دبیر اور حکیم مومن خاں مومن کے ساتھ ساتھ غالب اور محمد حسین آزاد
کے استادِ گرامی خاقانیِ ہند شیخ محمد ابراہیم ذوق جیسے ۹ شعرا آبِ حیات کے
پانچویں دور میں شامل ہوکر اردو شاعری کے تذکرے کو انجام تک پہنچاتے ہیں۔
یہی دور ہے جہاں آزاد نے اپنے استاد کے لیے عقیدت کے تنقیدی پھول نچھاور
کیے جس کے سبب قیامت تک اُن پر ادبی بے انصافی کا جرم ثابت ہوتا رہے گا۔
مومن اور انیس کی قدروقیمت پہچاننے میں بھی آزاد نے ٹھوکر کھائی ہے اور
غالبؔ کے ساتھ اُنہوں نے جو کیا، وہ اردو کی ادبی تاریخ کا ایک مستقل مسئلہ
ہے۔
آبِ حیات کی تنقیدی اور تحقیقی اہمیت خاصی نزاعی رہی ہے۔ اگر قاضی
عبدالودود کی کتاب ’’محمد حسین آزاد بہ حیثیت محقق‘‘ کے مشتملات پر یقین
کریں تو آزاد کو تحقیق کا مردِ میداں کہنا ممکن نہیں۔ کلیم الدین احمد نے
....’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ میں آبِ حیات کا جو مختصراََ جائزہ لیا ہے،
اُس کی روشنی میں یہ تاریخ اور تنقید کی کتاب نہیں بلکہ تذکرہ ہے۔ تنقید و
تحقیق دونوں شعبوں کے جو بڑے دانش وَر ہوئے، اُن میں سے اکثر آبِ حیات کی
تنقیدی اہمیت پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہیں۔ آبِ حیات کی تنقیدی و تحقیقی
فرو گذاشتیں اور غیر ناقدانہ انشاپردازی اپنی جگہ لیکن اس کتاب میں محمد
حسین آزاد کے تنقیدی ذہن کی واضح گونج سنائی دیتی ہے اور محض اس کتاب کے
مشتملات کی روشنی میں آزاد کی شخصیت میں موجود اُس عظیم تنقیدی شخصیت کو
پہچانا جاسکتا ہے۔
محمد حسین آزاد نے پانچوں ادوار کی جو تمہید لکھی ہے اُس کے چندجملوں میں
اُن کا تنقیدی ذہن اُبھر کر سامنے آجاتا ہے۔ یہ غلط فہمی ہوگی کہ ہم اُنہیں
نِرا انشاپرداز تصور کر بیٹھیں۔ دورِ اوّل کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’اِن
بزرگوں کے کلام میں تکلّف نہیں، جو کچھ سامنے آنکھوں کے دیکھتے ہیں اور اس
سے دِل میں خیالات گزرتے ہیں، وہی زبان سے کہہ دیتے ہیں‘‘۔ دوسرے دور کے
تعارف میں یہ کہناکہ ’’ زبان کے حُسنِ قدرتی کے لیے موسمِ بَہار ہے‘‘ اور
اس زمانے کے شاعروں کے بارے میں یہ بیان کہ ’’خیالی رنگوں کے طوطے مینا
نہیں بناتے‘‘؛ آزاد کے بہترین تنقیدی ذہن کی مثالیں ہیں۔ تیسرے دور کے بارے
میں آزاد کا تمثیلی انداز ملا حظہ ہو: ’’زبانِ اردو ابتدا میں کچّا سونا
تھی، ان بزرگوں نے اُسے اکثر کدورتوں سے پاک صاف کیا اور ایسا بنا دیا ہے
جس سے ہزاروں ضروری کام اور آرائشوں کے سامان، حسینوں کے زیور بلکہ
بادشاہوں کے تاج و افسر تیار ہوتے ہیں۔‘‘ میرؔ، سودا ؔ اور دردؔ جیسے
شاعروں کو اس سے زیادہ بہتر کس طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
آبِ حیات کے چوتھے دور کی تمہید یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ آزاد اِن سے
زیادہ توقع نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں : ’’ایسے زندہ دل اور شوخ طبع ہوں گے کہ
جن کی شوخی اور طراریِ طبع بارِمتانت سے ذرا نہ دَبے گی مگر نہ ترقی کے قدم
آگے بڑھائیں گے۔‘‘ آزاد واضح طور پر لکھنؤ اسکول کے شاعروں پر اعتراض کررہے
ہیں۔ اسی طرح پانچویں دور کے بعض شاعروں کی نام نہاد بلند پروازی پر نشانہ
سادھتے ہوئے وہ کہتے ہیں : ’’ چنانچہ تم دیکھو گے کہ بعض بلند پرواز ایسے
اوج پر جائیں گے جہاں آفتاب تارہ ہو جائے گا اور بعض ایسے اڑیں گے کہ اُڑ
ہی جائیں گے۔‘‘ اسی تمہید میں روایتی اور جدید ذہن کے شعرا کا فرق جس طرح
محمد حسین آزاد نے واضح کیا ہے، یہ کسی معمولی تنقیدی ذہن کے آدمی سے ممکن
نہیں تھا۔
محمد حسین آزاد کے تنقیدی ذہن کی پرکھ شعرا کی قدروقیمت متعین کرنے میں بھی
ہوتی ہے۔ یہ اعتراض بجا کہ اُنہوں نے غالب کے ساتھ انصاف نہیں کیا، مومن کو
صحیح تناظر میں نہیں پرکھا اور میر حسن جیسے شاعر کو چند صفحات میں سمیٹ
دیا۔ لیکن اس کے باوجود بعض شعرا کے بارے میں اُن کے تاثرات اب بھی سنہرے
حروف سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔اکژ شعرا کے بارے میں جو ادبی رائے محمد
حسین آزاد نے قائم کی ہے، اُسے پورے طور پر آج بھی قبول کرنے میں کوئی
جھجھک نہیں ہوتی۔ ولی کے بارے میں آزاد نے لکھا : ’’دنیا تین سو برس دور
نکل آئی ہے مگر وہ آج تک سامنے نظر آتے ہیں اور صاف پڑھے جاتے ہیں‘‘، ولیؔ
کی زبان کی خوبیوں پر اس سے لطیف اشارہ اور کیا ہو گا۔ مرزا مظہر جانِ
جاناں کے تعارف میں آزاد نے واضح کر دیا کہ میرؔ اور سوداؔ کے ساتھ اِن کا
نام شاعرانہ خوبیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ زبان کی اصلاح کی کوششوں کے سبب
لیا جارہا ہے۔ سوداؔ کے بارے میں محمد حسین آزاد نے کہا: ’’اُن کے کلام کا
زور شور انوری اور خاقانی کو دباتا ہے اور نزاکتِ مضمون میں عرفی اور ظہوری
کو شر ماتا ہے۔‘‘ آزادؔ ذوقؔ کے شاگرد ہیں اور تعریف کے لفظ اور محاورے بھی
اپنے استاد کے لیے انھیں بچا کر رکھنے ہیں۔ اس کے باوجود سوداؔ کے بارے میں
یہ کہنا ’’جن اشخاص نے زبانِ اردو کو پاک صاف کیا ہے، مرزاؔ کا اُن میں
پہلا نمبر ہے‘‘ اُن کی ا اعلا تنقیدی صلاحیتوں کا اعلان نامہ ہے۔
میرؔ کی شاعری کے بارے میں محمد حسین آزاد نے جو سب سے بڑی خوبی واضح کی،
وہ اُن کی تاثر آفرینی ہے۔ آج میرؔ کے ناقدین متفقّہ طور پر مانتے ہیں کہ
میرؔ کے اشعار میں متاثر کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت ہے۔ اسی طرح حالاں کہ
میر حسن کو سرسری مطالعے کا حصّہ بنایا لیکن اُن کی جو خوبی اپنی
انشاپردازی کے بَل بوتے پر پیش کی ہے، اُس کی کوئی دوسری تنقیدی مثال دو
صدیوں میں نہیں دکھائی دیتی ہے۔ میر حسنؔ کی مثنوی کی زبان کے بارے میں
محمد حسین آزاد نے واقعتََا خدالگتی کہہ دی تھی: ’’کیا اُسے سو برس آگے
والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں کہ جو کچھ اُس وقت کہا صاف وہی محاورہ اور
وہی گفتگو ہے جو آج ہم تم بول رہے ہیں۔‘‘ اردو کے کس تنقید نگار نے میر حسن
کی خدمات کا اتنی گہری تنقیدی بصیرت کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ غالب کے ساتھ بے
انصافی قابلِ معافی نہیں لیکن اُن کی معنی آفرینی اور نازک خیالی کو آزاد
نے بنیادی شاعرانہ صفت تصور کیا ہے۔ خطوط نگاری پر آزاد نے چند سطریں لکھی
ہیں لیکن ہم آج جس طرح اُن کے مکاتیب کی اہمیت کو جانتے ہیں اُس کی بنیادی
منطق آبِ حیات میں موجود ہے۔
آبِ حیات تنقیدی کتاب ضرور ہے لیکن اُسے تاریخ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
اس کے پہلے اردو میں شعر و ادب کی باضابطہ تاریخ لکھنے کا کوئی سلسلہ نہیں
ملتا ہے۔ عہد بہ عہد کیا تبدیلیاں ہو رہی تھیں اور مختلف زمانے کے لکھنے
والوں میں خطِ امتیاز کس طرح کھینچا جا سکتا ہے، اِن امور پر اردو کتابیں
ناکافی تھیں۔ تذکرے اس ضمن میں ہماری مدد نہیں کرتے۔ آبِ حیات اس اعتبار سے
پہلی کتاب ہے جہاں مرحلہ وار شعروادب کے ارتقا کی سمت و رفتار کا پتا لگایا
جاسکتا ہے۔ ولیؔ کی آمد دہلی سے اُنیسویں صدی میں دلّی اور لکھنؤ کے معروف
شعرا تک، تقریبََا دوسو برسوں کی تاریخ کو پانچ ادوار میں تقسیم کرکے آزاد
نے کوشش کی ہے کہ ادبی رویّوں کے بدلتے مناظر کو بھی قید کر لیا جائے۔ ایک
ادبی تاریخ نگار کے طور پر آزاد مختلف عہد کے شعرا کے درمیان خوبیوں اور
خامیوں یا خصوصیات کے معاملے میں خطِ فاصل کھینچنے میں کامیاب ہیں۔ آزاد کی
باریک بیں نگاہ کا اسے کمال سمجھنا چا ہیے کہ پہلے اور دوسرے دور کے شعرا
میں حالاں کہ زمانی فصل نہیں تھا لیکن ادبی رویوں میں خاصا امتیاز تھا۔
محمد حسین آزاد نے اسی لیے شاکر ناجی کو اور اشرف علی خاں فغاں یا شاہ حاتم
کو الگ الگ ادوار میں رکھا۔
آبِ حیات کی اہمیت اگر تاریخی ہے تواُس کا بنیادی مرحلہ پانچویں دور میں
سَر ہوتا ہے۔ دورِ پنجم کے شعرا میں سے اکثر کو محمد حسین آزاد نے اپنی
آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ذوقؔکے وہ شاگرد ہیں، غالبؔ اور مومنؔ کو بہ نفسِ
نفیس دہلی کی ادبی محفلوں میں دیکھ چکے تھے۔ اُنہیں ایسے ہزاروں افراد سے
انکا تعلق تھا جنہوں نے اُس سے پہلے کے شعرا کی محفلیں اپنی آنکھوں سے دیکھ
رکھی تھیں۔ اس طرح براہِ راست اور بلاواسطہ تعلقِ خاطر کا سلسلہ تیسرے دور
کے شعرا تک چلا جاتا ہے۔ محمد حسین آزاد نے ذاتی بنیادوں پر جو اطلاعات جمع
کیں اُنہیں بیان کے مرحلے میں بھی امتیاز بخشا ہے۔ آبِ حیات کا یہ حصّہ
تاریخ کا وہ اچھوتا باب ہے جس کی وجہ سے آبِ حیات کی تنقیدی و تحقیقی اہمیت
سے انکار کرنے والے شخص کو بھی آبِ حیات کی بزم میں اپنی ضرورت کا حال چال
پتا کرنے کے لیے پہنچنا پڑتا ہے۔ انشاؔ اور ناسخؔ یا مصحفیؔ اور میرؔ یا
ذوقؔ کی محفلوں کی اہمیت کیا ہے یا اُن کے حلقۂ ارادت میں پہنچنے والے کی
تربیت کس طرح ہوتی تھی، اس کا نقشہ جاننے کے لیے آبِ حیات واحدذریعہ ہے۔
محمد حسین آزادؔ کی انشا کی خوبیوں پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اُن کے
یہاں ڈرامے اور داستان کے متعدد عناصر یکجا ہو گئے ہیں۔ کسی تاریخ نگار سے
یہ توقع نہیں کی جاتی ہے کہ وہ اپنے دور کے ادب کے بارے میں اطلاعات بہم
پہنچاتے ہوئے ایسی لفظی تصویریں بھی بنا دے کہ وہ عہد صفحہء قرطاس پر
سانسیں لیتا ہوا مل جائے۔ آبِ حیات کے صفحات گواہ ہیں کہ جہاں اپنے آپ
ہماری آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ زندۂ جاوید کھڑا ہوتا ہے۔ اگر آبِ حیات
جیسی کتاب نہیں لکھی گئی ہوتی تو تذکروں کی بساط نہیں تھی کہ ہمارے قدیم
شعرا کی شخصیت اور ادبی سرگرمیوں کے خال و خط روشن کردیتے۔ آبِ حیات میں
اٹھارویں اور انیسویں صدی کے شعرا زندہ اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ میر کا
اندازِ کلام کیا تھا یا آتش نے کسی نازک مرحلے پر کیسے تلوار کھینچ لی، یہ
کسی دوسری کتاب میں ہم کہاں سے دیکھ سکتے ہیں۔
محمد حسین آزاد میں محاکات نگاری کا عجب ملکہ تھا۔ ایک ماہر افسانہ نگار یا
داستان طراز کی طرح انھوں نے شعرا کے دیکھے اَن دیکھے، سچّے اور غیر حقیقی
تمام واقعات کو اس طرح پیش کیا ہے جیسے پڑھنے والا اُسے کسی بھی طرح غلط
مان ہی نہیں سکتا۔ گھریلو فضا، محفلِ احباب، مشاعروں کی معرکہ آرائیاں،
شاگردوں کا حلقہ اور ان کے ذریعہ ایک دوسرے سے نبردآزمائی، ادبی اور غیر
ادبی معاملوں میں لڑائیاں، دربار اور دوسرے وسائل سے تعلق__ ان جیسے
سینکڑوں معاملوں میں آزاد نے حقیقت میں داستان کے ہزاروں رنگ ملا دیے جس کی
وجہ سے آبِ حیات اردو کی سب سے زیادہ ’’قابلِ مطالعہ‘‘ (Readable)کتابوں
میں سے ایک ہے۔
واقعات کو زندہ و تابندہ بنا کر پیش کرنے کی محمد حسین آزاد کی خوبی کا
نقطۂ عروج ادیبوں اور شاعروں کی نوک جھونک یا ادبی معرکوں میں دیکھنے کو
ملتا ہے۔ محمد حسین آزاد کے مزاج پر غور کریں تو ایسا لگتا ہے کہ اُنہیں
اِن ادبی معرکوں سے کچھ زیادہ ہی دِل چسپی ہے۔ کہنا چاہیے کہ ادبی سیاست سے
اُن کے گہرے شغف کا عروج غالبؔ اور ذوق کے معاملے میں دکھائی دے جاتا ہے۔
ہمارے قدیم شعرا آپس میں کس طرح نبرد آزما ہوتے اور ایک دوسرے پر سبقت لے
جانے کے لیے کیسے اُلجھتے تھے، آبِ حیات کے صفحات اس تفتیش کے لیے کُھلے
ہوئے ہیں۔ آزاد نے شاعروں کی کچھ جوڑیاں بھی بنائی ہیں آرزو۔ مظہر جانِ
جاناں، سودا۔ؔ میرؔ، انشا۔ جرأت، انشا۔ مصحفی، ناسخ۔ آتش، غالبؔ۔ ذوقؔ اور
انیس۔ دبیر۔ ان شعرا کے بیان میں محمد حسین آزاد نے وقوعہ نگاری کے ممکنہ
ابواب کھول کر رکھ دیے ہیں۔ ان کی گھریلو زندگی، درباری زندگی اور ادبی
زندگی سب کی ایک ایک پَرت اُدھیڑ کر محمد حسین آزاد نے مخصوص رنگینیِ بیان
سے جو جادو کیا ہے، وہ اردو کی ادبی تاریخ کا ایک علاحدہ باب ہے۔ یہ واقعات
کسی مشہور قصّے کے اجزا معلوم ہوتے ہیں لیکن کسی بھی داستان نویس سے زیادہ
پُراثر رنگ آزاد کی تحریر کا ہے۔ آزاد کے مخالفین کے لیے بھی اِس حصّے میں
بہت کچھ قابِل مطالعہ ہمیشہ رہتا ہے۔
اٹھارویں اور اُنیسویں صدی میں شعری زبان میں کون سا فرق آرہا تھا، محمد
حسین آزاد نے اس موضوع پر جگہ جگہ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انھیں
لسانیات سے بھی گہرا شغف ہے، اس لیے اردو کی پیدائش کے علاوہ دیگر لسانیاتی
مسئلوں پر بھی وہ دورانِ گفتگو ضرور روشنی ڈالتے چلتے ہیں۔ عربی اور فارسی
کے اثرات اور مقامی بولیوں سے اردو کے تعلق پر اُن کی ناقدانہ نگاہ آبِ
حیات کے لیے نیک فال ہے۔ ’آبِ حیات‘ میں تہذیب و ثقافت اور زبان کی تشکیل
کا جو منظرنامہ ابھرتا ہے، وہ تکثیریت سے عبارت ہے۔ مختلف تہذیبوں، زبانوں،
ادب اور آداب میں ایک میل جول کا انداز محمد حسین آزاد کا وہ لسانیاتی
فلسفہ ہے جسے امیر خسرو سے لے کر نظیر اکبر آبادی تک کامیابی سے آزما چکے
تھے۔ عہدِ جدید میں جب انگریزی کا طوفان اٹھا ہوا تھا اور مغربی لالٹینوں
کی روشنی تیز تر ہو رہی تھی، محمد حسین آزاد نے ملے جلے لسانی معاشرے کا
خواب دیکھا۔ شاید انھی وجوہات سے اردو کے عظیم لکھنے والوں میں آزاد کا بجا
طور پر شمار ہوتا ہے۔
آبِ حیات کی ہزاروں خوبیاں اپنی جگہ، محمد حسین آزاد کا بے پایاں علم سب
صحیح لیکن اس سے کون انکار کرے گا کہ آبِ حیات یا آزاد کی دوسری کتابیں اگر
تاریخ کے دستِ بُرد سے محفوظ رہیں تو اس کی ایک اور صرف ایک وجہ انشاپردازی
ہے اور وہ اسی بے مثال زبان کی بدولت قائم و دائم ہے۔ اس اعتبار سے صرف ایک
ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے والے صاحبِ طرز نثر نگاروں میں کون کافر ہے
جومحمد حسین آزاد کو شامل نہیں کرے۔سادہ نگاری کی روایت سے انھیں دیکھیں تو
میرامن اور غالب کے بعد محمد حسین آزاد کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے ناقدین
بھی موجود ہیں جو آزاد کو نثرِ مرصع کے حوالے سے پہچاننا چاہتے ہیں۔ انھیں
بھی ملّا وجہی اور رجب علی بیگ سرور کے بعد پروفیسر آزاد کی یاد آئے گی۔ یہ
عجیب بات ہے کہ ایک ہی شخص کو سادہ گوئی اور مرصع کاری دونوں کے لیے یاد
کیا جاتا ہے۔ غالب نے ’سادگی و پُرکاری‘ کا جو محاورہ وضع کیا اُس کا اردو
نثر کی تاریخ میں محمد حسین آزاد سے بہتر نمونہ کون ڈھونڈ کر لاسکتا ہے؟
محمد حسین آزاد کی نثر بلا شبہہ ایک علاحدہ ذائقہ رکھتی ہے۔ یہ ہے واقعتََا
امتزاجی نثر اور اس میں ایک ہی ساتھ سادگی اور مرصع کاری کی جلوہ سامانیاں
موجود ہیں۔ غور یہ کرنا ہے کہ یہ ناقابلِ یقین ادبی حکمتِ عملی کس طرح تیار
ہوئی اور اس کا نفاذ کیوں کر ممکن ہوا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اور کسی کو
کیوں نہیں اس امتزاجی نثر کی تشکیل کا خیال آیا؟ محمد حسین آزاد اس الگ
انداز کے نگار خانے کو سجانے میں اس وجہ سے کامیاب ہوئے کیوں کہ انھوں نے
اپنی نثر کا بنیادی ڈھانچہ سادہ رکھا۔ اُن کی عربی دانی اور فارسی دانی کی
ہزار عظمتوں کے باوجود اُن کے ہاں شاید کبھی کوئی مشکل لفظ یا مصنوعی ترکیب
ملے۔ بالکل سامنے کے الفاظ اور بول چال کی زبان کو ہی انھوں نے اساس بنایا۔
اس معاملے میں میرامن اور غالب نے جو لسانی ترکیب استعمال کی تھی، محمد
حسین آزاد نے اُسے مزید سہل بنا کر آزمایا۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ کیا
آزادؔ اپنی عربی اور فارسی دانی کو بالارادہ چھپا نا تو نہیں چاہتے۔
آزاد کے اسلوبِ نگارش کی بحث میں ایک پیچیدگی یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ جب
انھوں نے بنیادی ڈھانچہ سادہ گوئی کا رکھا تو اس میں مرصع کاری کیسے آجائے
گی اور اگر ہے تو اُسے کہاں تلاش کیا جائے ؟ اردو کے قدیم مرصع کاروں کی
طرح لفظوں کی رنگینی اور بیان کے اُلجھاوے سے حُسن پیدا کرنے کا انداز،
آزاد نے نہیں روا رکھا۔ اظہار کے مرحلے میں بیان کو رفعتوں سے ہم کنار کرنے
کا ایک مستحکم کام آزاد نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اتفاق سے اُنہیں بہترین
شعرا کا دور ملا تھا۔ شاعروں کی تاریخ لکھنے والے کے لیے تخیّل اور رومان
پسندی بنیاد بن سکتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے یہاں عبارت میں بیان کی جو
رنگینی ہے وہ لفظوں کی نہیں، عربی اور فارسی کی حاکمانہ موجودگی کی نہیں
بلکہ اُس دور اور اُس دور کے بڑے اہلِ قلم کی زندگی کی تصویروں کی رنگارنگی
ہے۔ اسی میں قصّہ گوئی اور تصویر سازی کی محمد حسین آزاد کی دیرینہ خواہشات
بھی پوری ہوتی ہیں۔ آزاد اصل میں ایک تخیلّاتی آدمی (Imaginative) ہیں لیکن
اُنہوں نے فکشن میں بھی توجہ نہیں کی۔ ڈپٹی نذیر احمد ناول لکھنے لگے تھے۔
آزاد اگر افسانہ یا ناول یا ڈرامے کی طرف قدم بڑھاتے تو اُن کی صلاحیت کا
بہترین استعمال آزادانہ طور پر ہوسکتا تھا لیکن انھوں نے غیر افسانوی ادب
کا انتخاب کیا۔ شاعری کی باری آئی تو وہاں بھی موضوعات اور قومی ضرورتوں کے
تقاضے اور بندھن دیوار کی طرح موجود تھے۔ اس لیے ’’دربارِ اکبری‘‘، ’’نیرنگ
خیال‘‘ اور آخری دور میں ’’آبِ حیات‘‘ کے صفحات پر آزاد کی وہ تخیلّاتی
شخصیت زندگی بداماں نظر آتی ہے جس کے لیے بنیادی جگہ تو تخلیقی ادب تھا
لیکن اتفاق سے اُس شخص کو تاریخ کے شعبے میں اپنی خدمات انجام دینی پڑیں۔
اس لیے نثر کے ایک سادہ ڈھانچے میں بھی شگفتگی، رنگینی اور مرصع کاری کی
تمام عشوہ طرازیاں موجود ہیں۔
آبِ حیات اپنے نام کی طرح ہی امتیازی شان رکھنے والی کتاب ہے۔ اس سے پہلے
اردو کی دو عظیم کتابیں بھی اسم بامسمّٰی رہی ہیں سب رس اور باغ و بہار۔
محمد حسین آزاد نے اپنی کتاب کا نام آبِ حیات رکھ کر لکھنے والے کی نیک
خواہشات اور تعلّی کا نقطۂ عروج ڈھونڈلیا۔ یہ سچ بھی ہے کہ آنے والا کوئی
مصنف اپنی تحریر کے بارے میں آبِ حیا ت سے آگے کا کون سالفظ لائے گا۔ آبِ
حیات کی تصنیف کے سواسو برس گزر چکے ہیں لیکن اس کی زندگی، چمک اور روشنی
میں ایک لحظہ کمی نہیں آئی۔ جیسے جیسے عہدِ قدیم سے ہم دور ہوتے جائیں گے
آبِ حیات کی ضرورت اور بڑھے گی۔ آج ہم نے اُسے تنقید اور تاریخ یا تحقیق کی
بہترین کتاب ہونے سے جزوی طور پر انکار کردیا ہے لیکن کیا اُس کی تہذیبی
اہمیت سے صرفِ نظر کرنا ہمارے لیے ممکن ہے؟ آبِ حیات اُردو کی ادبی تاریخ
میں ایک ناگزیر و قوعہ ہے اور اسی ناگزیریت (Inevitability) میں اُس کی
زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ |
|