شیطان سے مک مکا ہو چکا ہے۔؟

فریب ِ نظر تواسے کہا نہیں جا سکتا ۔وسوسہ ہی ہو گا۔ کہ محبوبہ ہمیں مورنی لگتی ہے۔ اس کی چال ہرنی اور آنکھیں غزال ۔۔ بولی۔ کوئل سی اور۔ زلفیں ناگن لگتی ہیں۔ہم نے گھوڑے سمیت کسی جانور کو عشق میں مستعار نہیں لیا ۔حتی کہ وفا بھی کُتے سے منسوب کر دی ہے۔میرا دوست شیخ مرید تو کہتا ہے کہ ابتدائے عشق میں حسن جاناں کے جتنے بھی وسوسے۔اٹھتے ہیں ۔ غروب عشق میں وہ سارے بُت بن کر سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔اسی لئے عشق جب غروب ہوتا ہے تو محبوب ہمیں اُلو۔اس کی عقل گدھے جیسی۔جسامت ہتھنی جیسی ۔ اور۔ آنسو مگر مچھ جیسے دکھائی دیتے ہیں

شیطانی مک مکا کی ایک تصوراتی تصویر

اظہار عشق کے کئی طریقے ہیں ۔لیکن میرا ۔وسوسہ ہے کہ عشق مجازی ۔کا اظہار۔جانوروں کی جبلت، خصلت اور عادات کی تشبیہ سے بڑھ کر کسی طریقے سے نہیں ہو سکتا۔وسوسہ ایسےخیالات ا ور شکوک و شبہات کا نام ہے جو شیطان دل میں ڈالتا ہے۔ممکن ہے عشق مجازی کی بنیاد کسی شیطانی خیال پر ہی رکھی گئی ہو۔کیونکہ عشق ۔دل میں مروڑ کی طرح اٹھتا ہے۔اور۔رقیب ۔وسوسہ کی زندہ مثال ہے۔۔بلکہ رقیب تو ایسا سرکش گھوڑا ہے جومنزل مراد پر پہنچنے سے پہلے ہی عاشق کو تھکا مارتاہے ۔فریب ِ نظر تواسے کہا نہیں جا سکتا ۔وسوسہ ہی ہو گا۔ کہ محبوبہ ہمیں مورنی لگتی ہے۔ اس کی چال ہرنی اور آنکھیں غزال ۔۔ بولی۔ کوئل سی اور۔ زلفیں ناگن لگتی ہیں۔ہم نے گھوڑے سمیت کسی جانور کو عشق میں مستعار نہیں لیا ۔حتی کہ وفا بھی کُتے سے منسوب کر دی ہے۔میرا دوست شیخ مرید تو کہتا ہے کہ ابتدائے عشق میں حسن جاناں کے جتنے بھی وسوسے۔اٹھتے ہیں ۔ غروب عشق میں وہ سارے بُت بن کر سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔اسی لئے عشق جب غروب ہوتا ہے تو محبوب ہمیں اُلو۔اس کی عقل گدھے جیسی۔جسامت ہتھنی جیسی ۔ اور۔ آنسو مگر مچھ جیسے دکھائی دیتے ہیں۔عشق کے یہ سارے تغیر۔۔سماجی، ازدواجی اور انفرادی۔وسوسے کی بنیاد پرجانِ جاں کو اچانک مور سے اُلواور ہرن سے گدھے میں بدل دیتے ہیں۔ جنسِ مخالف کی قصیدہ گوئی کے علاوہ بھی خانگی حیوانات نے امورِزندگی میں اپناحصہ برقرار رکھا ہے۔
ایک گدھےنے دوسرے کو بتایا کہ میرا مالک مجھے بہت مارتا ہے۔
دوسرا گدھا:تم بھاگ کیوں نہیں جاتے۔ ؟
پہلا گدھا:مالک کی ایک بیٹی مور جیسی خوبصورت ہے۔وہ جب بھی شرارت کرتی ہے۔تو مالک کہتا ہے تیری شادی کسی گدھے سے کرو ا ۔ دوں گا۔ بس اسی امید پر ٹِکاہوا ہوں۔

گدھےنے بلاوجہ دولہا بننے کاوسوسہ پیدا کر لیا تھا ۔کیونکہ یہاں صرف دولہے کو گدھابننے کا حق حاصل ہے اور جملہ حق محفوظ بھی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بڑوں نے درجنوں باربچپن میں ہمیں گدھا کہا ۔ جس کا بدلہ ہم آج بھی اپنے بچوں سے لے رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تمام گدھے ایک ہی رنگ اور نسل کے ہوتے ہیں اس لئے تمام شوہر ایک جیسے لگتے ہیں۔ گدھے کے علاوہ بھینس ،گھوڑا، گائے، کُتا، بکری اور بھیڑ بھی صدیوں سے ہمارے پیچھے دم ہلا رہے ہیں۔حتی کہ جانور خراماں ، خراماں غیر عشقیہ بول چال کا حصہ بھی بن گئے ہیں۔اونٹ کے منہ میں زیرہ۔بھیڑ چال۔سانپ سونگھ جانا۔ بندر بانٹ۔ آ بیل مجھے مار۔ اپنا الو سیدھا کرنا۔کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔دو مُلاؤں میں مُرغی حرام۔عقل بڑی کہ بھینس۔ اورہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ۔۔جیسے محاورے ہمارے ادب کا حصہ ہیں ۔جبکہ غیر ادبی گفتگو کے لئے ہم نے ۔اللہ میاں کی گائے۔ کولہو کا بیل۔ بھاڑے کا ٹٹو ۔ دھوبی کا کُتا۔ گدھے کو باپ بنا نا۔ برساتی مینڈک ۔ بھیگی بلی۔آستین کاسانپ۔ مگر مچھ کے آنسو۔مینڈکی کو زکام۔ بوڑھی گھوڑی لال لگام۔بندر کیا جانے اَدرک کا سواد۔جیسے محاوروں کا سہارا لے رکھا ہے۔حتی کہ ہم نے شرارتی بچوں کو شیطان کہناشروع کر دیا۔
ڈاکٹر یونس بٹ کہتے ہیں کہ ’’شیطان سب سے اچھا فرشتہ تھامگر بُرا تب بنا جب وہ بول پڑا۔اسی لئے پیدا ہونے والے بچے فرشتے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بولنا نہیں آتا۔ اور جونہی وہ فر فر بولنے لگتے ہیں ماں باپ کہتے ہیں۔ یہ شیطان ہو گئے ہیں‘‘۔شیطانیاں سے اقتباس

مجھے یقین کامل ہے کہ شیطان کبھی انسان نہیں رہا۔لیکن میں زیادہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ انسان بھی کبھی شیطان نہیں رہا۔ ہمارے گھروں میں گدھے اور شیطان ۔ایک ساتھ پرورش پاتے ہیں۔ان میں سے کچھ بڑے ہو کر شادی کر لیتے ہیں اورکچھ شادی کے بعد بھی شیطانیوں سے باز نہیں آتے۔ حتی کہ شیطان ایک وسوسے کی بنیاد پر ہمیں فردوس سے جلا وطنی کروا چکا ہے۔ دنیا میں شیطان کے بارے میں بہت سے نظرئیےموجودہیں۔انگریزی شاعر جان ملٹن اپنی نظم (Paradise lost) میں کہتے ہیں کہ ’’ شیطان ایک زبردست شخصیت کا مالک ہے۔ جو اتنا ہیبت ناک ہے کہ دوزخ اس کے قدموں تلے کانپتی ہے۔ اس نے خدا سے شکست کھائی ہے۔ لیکن ہمت نہیں ہاری‘‘ ۔مسلمان مفکرحسین بن منصورالحلاج کہتے ہیں کہ ’’ابلیس خدا کے ارادوں کی مشیت کا ایک ایسا کارندہ ہے جس کے فرائض سب سے زیادہ تلخ ، ناگوار ، کڑے اور نازک ہیں‘‘۔ جبکہ حضرت ِاقبال نے ابلیس کی مجلس شوری سمیت کئی نظموں میں اپنا تصور پیش کیا ہے۔عرب اخبار’’عکاظ ‘‘ توشیطان کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’ 45 سالہ مصری حاجیہ آمنہ نے مِنیٰ میں دوران ِرمی ۔شیطان کے بجائے اپنے شوہر کو کنکریاں مار دیں۔اور میڈیا کو بتایا کہ میرا شوہر ہی شیطان ہے۔ وہ مجھے کئی بار دھوکہ دے چکا ہے۔ اس لیے اُسے کنکریاں ماری ہیں‘‘۔

وسوسہ یہ ہے کہ ۔ رمی کے دوران جو کنکریاں آمنہ نے شوہر کو ماری تھیں وہ شیطان تک پہنچی یا نہیں۔؟۔ لیکن ایک وہم تو ختم ہوا کہ شیطان کی شکل ۔آمنہ کے شوہر جیسی ہوگی۔ والدین جب بھی اپنے بچوں کو شیطان کہتے ہیں تو اکثر وسوسے پیدا ہو تے ہیں کہ شیطان بڑے ہو کر کیسا دِکھتا ہوگا۔۔ جواب ہے۔’’آمنہ کے شوہر جیسا‘‘۔گدھے کے بعد زندگی کا یہ دوسرا وسوسہ ہے جس نےدل میں اٹھنے والے مروڑ کا گلا دبا دیا ہےلیکن ابھی وسوسے کے کئی امتحان ا ور بھی ہیں۔وسوسہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے دھرنے کے بعد حکومت نہیں رہے گی۔ اب مجھے وزیر اعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔کے پی میں دودھ کی نہریں بہہ جائیں گی۔ میرے علاوہ ساری آف شور کمپنیاں خلاف قانون ہیں۔ شائد ۔خود پسندی۔افضل ترین وسوسہ ہو۔
ٹیچر:کلاس میں جو سب سے نالائق ہے وہ کھڑا ہو جائے ۔طویل خاموشی اور انتظار کے بعد آخر پپو کھڑا ہو گیا
ٹیچر:اوہ۔پپو۔میری جان کیا تم سب سے زیادہ بے وقوف ہو۔؟
پپو:نہیں مس مجھے بُرا لگ رہا تھا کیونکہ آپ اکیلی کھڑی ہیں۔

پپواور ٹیچر میں جو مکالمہ ہوا۔اُس نے نیا وسوسہ جنم دیا ہے۔سیاسی وسوسہ۔ایک دوسرےخلاف بیان بازی کرکے کنکریاں مارنے والا وسوسہ۔کیونکہ موجود ہ سیاست تذکیہ نفس کا نہیں بلکہ نفسانی تسکین کا راستہ دکھاتی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات ۔پرویز رشید کہتے ہیں کہ ’’ عمران خان اس لئے حج پر نہیں گئے ، شائد اُن کا شیطان سے مک مکا ہوگيا ہو‘‘۔جبکہ جوابی کنکر پی ٹی آئی کے رہنما علیم خان نے مارا ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’ پرویز رشید۔ شیطانی قوتوں کے سردار ہیں ۔عمران خان اگلے سال حج پر جائیں گے ۔ پرویز رشیدبھی ان کے ساتھ چلے جائیں تاکہ اُن کے گناہوں کی کچھ تومعافی تلافی ہوسکے‘‘۔ٹیچر اور پپو ۔والا۔ واقعہ اگرعمران خان اور پرویز رشیدسے جوڑ کر دوبارہ پڑھا جائے تو شائد آپ وسوسے۔ سے نکل کر کسی نتیجے پر پہنچ جائیں۔میں تو اُس نتیجے پر پہنچا ہوں جس کا ذکر علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’جبریل اور ابلیس‘‘کے آخری جملے میں کیا ہے۔
؎ میں کھٹکتا ہوں ۔ دل یزداں میں کانٹے کی طرح۔
Ajmal Malik
About the Author: Ajmal Malik Read More Articles by Ajmal Malik: 76 Articles with 94508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.