آگاہ اپنی حقیقت سے خود بشر نہیں

تحریر:ماورا بشارت چیمہ
"آگاہ اپنی حقیقت سے خود بشر نہیں " ان جملوں میں وہ راز پنہاں ہے وہ اسرار پوشیدہ ہیں جن سے آج کے نوجوان غافل ہیں۔حقیقت بشر سے آگاہی وہ فلسفہ ہے جس سے فرش تا عرش کا سفر ہوتا ہے جس سے عروج کی کہانیاں رقم ہوتی ہیں۔بشر کو لا متناہی اہمیت رب العالمین نے دی اور اس حکم پر ملائکہ بھی سر بسجود ہوئے۔بشر کو عقل کی وہ دولت دی گئی جس کی بنا پر حکمت و تدبر کی منزلیں حاصل ہوئی۔اسی لیے فرض انسانیت سب سے افضل قرار پایا ہے۔بحیثیت انسان ہماری سوچ ہماری قدریں اور ہمارے مقاصد آسمانوں کو چھوتے ہوئے ہونے چاہیے کیونکہ یہ ہی مقام بشریت کی معراج ہے۔ہم جس مذہب کے پیروکار ہیں وہ ہمیں واضح کر کے بتاتا ہے حکمرانوں کا کردار عوام پہ منحصر ہوتا ہے۔جیسی عوام ہو گی ویسے حکمران ہوں گے۔اگر دیدہ بنا کو کھولے اور روش انسان کو دیکھے تو دردناک حقیقت سے آگاہی ملتی ہے۔حقیقت دردناک بھی ہے اور مقام بشر کی توہین بھی۔۔۔۔

حکمرانوں کی بے حسی اور ظالمانہ روش سے کوئی ناآشنا نہیں ہے۔۔۔آئے روز وہ کچھ ہو رہا ہے جس کو برداشت کرنا مردہ ضمیر کی علامت ہیں۔اخبارات انسانی بیبسی سے کالے ہوئے پڑے ہیں۔میڑیا نے بھی ضمیر فروشی کا کاروبار خوب چمکایا ہوا ہے۔سکول،کالج،ہسپتال،سرکاری دفاتر الغرض ہر شعبہ نا اہلی کی عملی تفسیر ہے۔جس طرف نظر ڈالے افراتفری کا عجب نظارہ ہے۔یہ ملک جس کا نام "پاکستان "ہے اور جسے اسلام کی بنیادی اساس پر حاصل کیا گیا تھا جو ہماری آزادی کی ضمانت اور ہمارے وقار کا علمبردار ہے،جو اقبال کا خواب ہے،اقبال کے فلسفہ حقیقت اور فلسفہ روحانیت کی عملی تصویر ہے،قائد کی دن رات کی محنت ،خواب سے تعبیر تک کے لیے قربانیاں۔۔۔سب کچھ پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔اقبال کے خواب کی دھجیاں اڑ چکی ہیں اور قائد کی محنت پر پانی پھیر دیا گیا ہے۔مگر سوچنے کی بات ہے کہ ہم اس سب میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں ملک کی تباہی اور بد حالی میں ہمارا کتنا ہاتھ ہے۔حکمرانوں کو کوسنے اور اپنے حالات کا رونا رونے کے علاوہ ہم کیا کر رہے ہیں؟؟؟؟؟ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھنے اور باتوں کے دریا بہا دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔۔انقلاب ملک میں آنے سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ انقلاب کی سب سے زیادہ ضرورت انسانی ذہن اور سوچ کو ہوتی ہے۔عوام کی مشکلات کیا ہیں؟؟مسائل کیسے منہ کھولے کھڑے ہیں،مردہ ضمیری کا معیار کتنا بلند ہو چکا ہے اس بات سے کوئی بے خبر نہیں ہے۔پانی جیسی بنیادی ضرورت سے میرے ملک کی پیاری عوام محروم ہے۔گندا پانی لا تعداد بیماریوں کا سبب بن کر ہمارے مستقبل کو تاریک کر رہا ہے۔تھر ہماری ناکامی کی منہ بولتی تصویر ہے۔بھوک اور قحط کی وجہ سے سینکڑوں جانوں کا ضیاع معمولی بات بن چکی ہے۔انسان کی جان اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔بیمار علاج کی سہولت سے محروم ہیں۔یہ سب اپنی جگہ مگر تعلیم جو آج کے دور کی بنیادی ضرورت ہے بچوں کی بڑی تعداد اس ضرورت سے بھی بے بہرہ ہے۔ہم سب ان حقیقتوں سے نا آشنا نہیں مگر ہمارا کردار اس سب میں صفر ہے جو انگلی ہم دوسروں کی طرف اٹھاتے ہیں اگر وہی انگلی آئینے کے سامنے اٹھائی جائے تو اس کا رگ ہماری طرف ہوتا ہے۔اس لیے اس ملک کی تباہی اور ان حالات کے ذمہ دار ہم بھی ہیں۔اپنے گریبانوں میں جھانک ییجھانکیے اور اپنی کوتاہیوں کا سدباب کریں۔سب کچھ ڈالر اور گرین کارڈ،بلیوکارڈ نہیں ہوتے حب الوطنی بھی اک اعلی جذبہ ہے جس سے آشنائی بشریت کی تعلیم ہے۔

"اپنی مدد آپ "کا فارمولا آزمائیے اگر حالات درست نہج پہ لانا ہے،اگر ملک کے مستقبل کو محفوظ کرنا ہے،اگر ملکی وقار کو بلندی تک لے کے جانا ہے تو ہمیں پہلا قدم اٹھانا ہوگا۔ہمیں بارش کا پہلا قطرہ بن کر صحرا کو بہار کی نوید دینی ہے۔ہمیں مل کر بھٹکے ہوئے قافلے کو راہ راست پہ لانا ہے۔اٹھیے اور پہلا قدم اٹھائے۔اپنے سینے میں بشریت کی وہ آگ روشن کرے جو آپ کو کسی راہنما کی امید دینے کی بجائے خود کچھ کرنے کا جذبہ دے۔ہاتھ سے ہاتھ ملائیے اور ایسی زنجیر بنا دیں جسے توڑنا کسی کے بس میں نہ ہو۔آگاہ اپنی حقیقت سے خود بشر ہو جائے تو ہمیں کچھ کرنے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہو گی۔بشکریہ پاورپوائنٹ ڈاٹ کوم ڈاٹ پی کے
Ibtasam Tabasum
About the Author: Ibtasam Tabasum Read More Articles by Ibtasam Tabasum: 23 Articles with 18116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.