عمران خان نے اتوار کو جلسے سے خطاب کرتے
ہوئے رائیونڈ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے ۔ انھوں نے اپنے کارکنوں کو
مخاطب کرتے ہوئے کہ کہا کہ 24ستمبر سے تمام پارٹی کے کارکن مارچ کی تیاری
شروع کر دیں اور 30ستمبر کو رائیونڈ پہنچیں۔ اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کے
ساتھ اس وقت شیخ رشید کے علاوہ کوئی پارٹی نہیں ہے یہاں تک کہ جماعت اسلامی
جو ان کی کے پی کے میں اتحادی ہے ، اس نے بھی عمران خان کا ساتھ دینے سے
انکار کر دیاہے اور ڈاکٹر طاہر القادری جو دھرنوں کے دوران عمران خان کے سب
سے بڑی اتحادی تھے انھوں نے بھی عمران خان سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے ۔
اب عمران خان ہیں ،رائیونڈ مارچ ہے اور ان کی تنہائی ہے۔پاکستان کی سیاست
کا ایک سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک کے معاملات منتخب
ایوانوں میں طے کرنے کے بجائے سڑکوں پر لانے میں زیادہ فخرمحسوس کرتے ہیں
اور اسی میں اپنی پارٹی کی سیاست کی عافیت سمجھتی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی
طرف سے بار بار حکومتوں کا ان دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے کہ اگر ان کی بات
نہ مانی گئی تو عوام کو سڑکوں پر لایا جائے گا۔ عمران خان تو اس کے علاوہ
دوسری کوئی سیاست جانتے ہیں نہیں۔ان کا اور ان کی پارٹی کا واحد ایجنڈا ہے
کہ کسی بھی طرح عوام کو سڑکوں پر لایا جائے۔انھوں نے موجودہ حکومت کے
اقتدار سنبھالتے ہی احتجاج شروع کر دیا تھا تاہم عمران خان بمشکل تمام ڈیرھ
برس کا عرصہ گزار پائے اور ڈیڑھ سال بعد انھوں نے 124دنوں کا دھرنا دیا جو
شاید عالمی ریکارڈ بھی ہے ۔ دھرنے کے دوران اکثرانھوں نے امپائر کی انگلی
اٹھنے کی بات کی لیکن امپائر ان کی توقعات پر پورے نہیں اتر سکے اور انگلی
اٹھنے کے بجائے امپائرز نے دھرنے کی ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ امپائر کا حکم
ماننے کے علاوہ عمران خان کے پاس کوئی دوسرا چارہ کار نہیں تھا لہذا آرمی
پبلک اسکول میں ہونے والی دہشتگردی کے واقعہ کو بنیاد بنا کر انھوں نے
دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس دھرنے کے وقت عمران خان کے سب سے بڑے
اتحادی پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہر القادری تھے۔ڈاکٹر طاہر قادری نے
اس وقت عمران خان کو اپنا سیاسی کزن بھی قرار دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 124
دنوں کا طویل ترین دھرنا کامیاب بھی پاکستان عوامی تحریک کے طاہر القادری
پر مر مٹنے والے کارکنوں کی وجہ سے ہوا ۔لیکن آج کی صورت حال بہت مختلف ہے
کہ جب کل کے سیاسی کزن اور اتحادی الگ الگ راستوں کے مسافر ہیں۔ طاہر
القادری کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے انھوں نے کہیں معاملات طے کر لئے
ہیں اور وہ اچانک لندن روانہ ہو گئے ہیں اور بظاہر وہ ایک ایسے محاذ پر
لڑنے کے اعلانات کر رہے ہیں کہ جہاں سے ہونے والی الفاظ کی فائرنگ اور
اخلاقی دباؤ کے توپ خانوں کا مسلم لیگ ن کی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے
گا۔عمران خان کا رائیونڈ مارچ کس انجام تک پہنچے گا اس کا فیصلہ تو وقت ہی
کرے گا تاہم امکان اسی بات کا ہے کہ چونکہ ملک کی کوئی بڑی سیاسی جماعت ان
کے ساتھ نہیں لہذا ان کے رائیونڈ مارچ سے کوئی بڑی تبدیلی آنے کے امکانات
بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عمران خان خود بھی جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر
رہے ہیں اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا لیکن اب یہ بات واضح طور پر محسوس
کی جانے لگی ہے کہ عمران خان سیاست دان سے زیادہ ایک انا پرست شخص ہیں اور
بہت سارے کام وہ اس لئے کر رہے ہوتے ہیں کہ انھیں اپنی پارٹی میں اپنے
کارکنوں کے سامنے فیس سیونگ کرنی ہوتی ہے دوسری طرف یہ بات بھی بہت زیادہ
اہمیت کی حامل بات ہے کہ عمران خان کے پاس اپنے کارکنوں کو مصروف رکھنے کے
لئے احتجاج کی سیاست کے علاوہ کوئی دوسرا اچھا آپشن بھی موجود نہیں ۔ |