گنڈاسے، ڈنڈے، انڈے اور ہم!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
اس خیال میں ممکن ہے پُر امید لوگوں کو
مایوسی کی جھلکی دکھائی دے کہ پاکستان میں جمہوری تربیت کی یہی رفتار رہی
تو ایک صدی تک بہتری کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دیتے، کیونکہ تربیت کسی
بھی پیمانے پر ہو ہی نہیں رہی،بہتری آئے گی کہاں سے؟ ہاں جمہوریت انہیں راس
ہے، جو الیکشنوں میں کامیاب ہوتے ہیں، اُن کی بھی پانچوں گھی میں ہوتی ہیں،
جو کامیاب ہونے والوں کے گرد حصار بنا لیتے ہیں، اور جب تک جیتنے والے
اقتدار میں رہتے ہیں، یہ مضبوط حصار قائم رہتا ہے۔ نہ جیتنے والوں کو اور
نہ ہی ان کے ساتھیوں کو جمہوری تربیت کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ اس کے
محتاج ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ جمہوریت کی گاڑی کے دونوں پہیوں (سیاستدان اور
عوام) کو کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ اگر پاکستان جمہوری ملک ہے یا یہاں
جمہوریت کا بول بالا رکھنا ہے تو جمہوری اقدار کا بھی خیال رکھا جائے،
جمہوری اصولوں کی بھی پاسداری کی جائے، جمہوریت کے تقاضے بھی پورے کئے
جائیں۔
پاکستانی جمہوریت کی پہلی خامی یہ ہے کہ یہاں تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں
موروثی ہیں۔ مسلم لیگ ن تو ہے ہی پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے
نام سے رجسٹرڈ۔ جب پارٹی کا نام ہی کسی فرد کے نام پر رکھا جائے گا تو وہ
یقینا اسی کی وراثت ہوگی۔ اس خوش فہمی کی گنجائش نہیں کہ پارٹی تو میاں
صاحب کے نام پر ہے مگر وہ جمہوریت کی اصل کے قائل ہیں۔ ہر گز نہیں، پارٹی
میں آمریت اپنی پوری آب وتاب سے جلوہ گر ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ وہ پارٹی
سربراہ کے موقف سے سرِمُو اختلاف کرسکے، ان کے کسی فیصلے کو حدفِ تنقید بنا
سکے، ان کی کسی بات کی تردید کرسکے۔ ’جو تم کو ہو پسند ، وہی بات کہیں گے․․
دن کو اگر رات کہو، رات کہیں گے‘ کی عملی تصویر بنے پارٹی کے بڑے بڑے رہنما
صرف ہاں میں ہاں ملانے پر ہی اپنی پوری توانائیاں صرف کرتے پائے جاتے ہیں،
یہ کہنا بے جانہ ہوگاکہ جو وزیر اپنے وزیراعظم اور پارٹی لیڈر کی جتنی
تعریف کرتے ہیں، ان کی ریٹنگ اور گریڈنگ اسی قدر زیادہ ہوتی ہے۔ کسی وزیر
کی کارکردگی بھی شاید اسی فارمولے کے تحت ناپی جاتی ہے کہ اس نے وزیر اعظم
کے حق میں کتنے بیان دیئے، یا مخالفین پر کس قدر جوابی حملے کئے، اپنے تئیں
کس قدر مخالفین کو للکارا اور اپنے وزیراعظم کی کارکردگی کے بارے میں زمین
آسمان کے قلابے ملائے، اپنے حکمران کی ایسی ایسی باتوں کی اس طرح تشریح کی
کہ خود بات کرنے والوں کے فرشتوں کے حاشیہ خیال میں بھی وہ بات نہ آئی ہوگی۔
خیر جب کوئی کسی کے نام کی پارٹی میں ہوگا تو اسی کے گُن گانا ان کی مجبوری
ہے۔ یہی عالم صرف جماعت اسلامی کے علاوہ ہر پارٹی کا ہے۔ اپنی پارٹی قیادت
کی ہر بات کو حرفِ آخر قرار دینے کا کلچر بھی عام ہے، الیکشن ہوں یا کوئی
اور مہم، پارٹی کارکن جان لڑاتے دکھائی دیتے ہیں، پارٹی لیڈروں کو خبر نہیں
ہوتی کہ ان کے جیالے اور متوالے کس قدر گرم جوش ہیں اور نجی محفلوں میں یا
گلی کوچوں میں وہ آپس میں کس طرح دست و گریباں ہوتے رہتے ہیں؟ بات تو دست
وگریبان سے بہت آگے تک جاتی ہے، مغلظات کی فہرستوں کی گردانیں ادا کی جاتی
ہیں، نئے نئے الزامات دہرائے جاتے ہیں، تہمتیں دھری جاتی ہیں۔ معاملہ یہاں
بھی ختم نہیں ہوتا، بات جان لینے تک بھی پہنچ جاتی ہے، کارکن شہادت کے درجے
پر فائز ہو جاتے ہیں، لیڈر اپنے کارکنوں کے خون سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی
بھی پوری کوشش کرتے ہیں، ویسے بھی خون کے بارے میں یہ عام روایت ہے کہ وہ
رنگ لا کر ہی رہتا ہے، ایسے میں خون کو کیش کروانا بڑی کامیابی جانا جاتا
ہے۔ ان باتوں کو بھی جانے دیں۔ کارکنوں کی تربیت کون کرے گا؟ یہاں تو
سیاستدان خود بھی تربیت کے لائق ہیں۔ ایک دوسرے کو للکارنے اور نیچا دکھانے
کا رواج تو تھا، اب اگر ایک نے دوسرے کے گھر کے باہر (اب پانچ کلومیٹر دور)
جلسہ کرنے کا پروگرام بنایا ہے، تو حکومتی وزراء نے بھی اپنے کارکنوں کو
ہلاشیری دینا شروع کردی ہے، میڈیا کو تو نئی اور انوکھی چیزیں چاہیئں، اب
گنڈاسے ، ڈنڈے، بلّے اور انڈے اٹھائے ایک دوسرے کے خلاف کارکن میدان میں
اتر آئے ہیں، میڈیا انہیں بھر پور کوریج دے رہا ہے۔ نہ جانے ہم کدھر جارہے
ہیں، ہماری منزل کیا ہے، ہم ماضی کے گنڈاسوں سے کب جان خلاصی کروا سکیں گے،
قوم کی تربیت کا ذمہ کون اور کب اٹھائے گا؟ کچھ معلوم نہیں۔ |
|