مظلوم مدینہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ،
نام ونسب۔ :عثمان ابن عفان ابن ابی العاص ابن امیہ ابن عبد شمس ابن عبد
مناف القریشی
پانچویں پشت پر سلسلہ نسب آنحضرت ﷺ کے ساتھ جا ملتا ہے
قبول اسلام :حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کیا اور
قبول اسلام کی پاداش میں آپ کا چچا حکم ابن ابی العاص آپ پر بے انتہا ظلم
کرتا تھا آپ کو باندھ کر مارتا تھا خاندان والوں نے بھی بہت تکالیف دیں جس
سے تنگ آکر آپ نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور پھر جب مسلمان مکہ سے مدینہ
ہجرت کر گئے تو آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ، جس کی وجہ سے آپ دو ہجرتوں
والے کہلائے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی حبشہ کی طرف جو پہلی
ہجرت کی اس میں حضرت عثمان اپنی اہلیہ یعنی رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت
رقیہ رضی اللہ عنھا سمیت شریک ہوئے ۔ ان کی خیریت کی اطلاع کے لیے رسول
اللہ ﷺ ہر وقت پریشان رہتے تھے اور بار بار باہر تشریف لے جاتے تاکہ کوئی
آنے والا کچھ خبر دے کہ ایک قریشی عورت حبشہ سے آئی اور اس نے خبر دی کہ کہ
اے ابوالقاسم میں نے ان دونوں کو دیکھا ہے -
آپ ﷺ نے پوچھا کہ کس حال میں دیکھا ؟ تو اس عورت نے بتایا کہ میں نے عثمان
کو دیکھا کہ ایک آہستہ چلنے والے گدھے پر رقیہ کو سوار کر رکھا تھا اور خود
ان کے پیچھے چل رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا اللہ ان دونوں کا دوست ہو حضرت
لوطؑ کے بعد عثمان وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنی اہلیہ سمیت اللہ کے راستے میں
ہجرت کی (طبرانی ، بیہقی ، ابن عساکر )
منفرد اعزازات : آپ رضی اللہ عنہ کو ایک ایسا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے جو
کائنات انسانی میں کسی کو بھی حاصل نہیں ہے اور وہ اعزاز ہے رسول اللہ ﷺ کا
دوہرا داماد ہونا ۔حضرت رقیہ بنت رسول ﷺ کی وفات کے بعد حضور ﷺ نے اللہ
تعالٰی کے حکم پر ام کلثوم کا نکاح حضرت عثمان سے کر دیا ۔ آپ ﷺ کا فرمان
ہے ما زوجتْ ام کلثوم من عثمانِ الا بوحیٍ من السماء (رواہ البخاری)
ان دو عظیم صاحبزادیوں سے نکاح کی وجہ سے آپ کا لقب ذی النورین پڑا اور
انسانی تاریخ میں یہ اعزاز صرف آپ رضی اللہ عنہ کو ہی حاصل ہے کہ کسی امتی
کے نکاح میں کسی پیغمبر کی یکے بعد دیگر دو صاحبزادیاں آئی ہوں -
آپ کا دوسرا بڑا اعزاز بیعت رضوان ہے حضور اکرم ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر
پڑاؤ کرنے کے بعد جب اہل مکہ سے مذاکرات کرنا چاہے تو حضرت عثمان غنی رضی
اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ اور قاصد بنا کر قریش کی طرف بھیجا جہاں حضرت
عثمان مذاکرات میں مشغول تھے کہ مسلمانوں کو اچانک اطلاع ملی کہ حضرت عثمان
کو شھید کر دیا گیا اس اطلاع کے بعد رسول اللہ ﷺ نے چودہ سو صحابہ کرام کو
ایک درخت کے نیچے جمع کر کے ایک بیعت لی جو تاریخ میں بیعت رضوان کے نام سے
مشہور ہے اور تمام صحابہ کرام جو اس بیعت میں شامل تھے سب کو اللہ نے اپنی
رضا کا سرٹیفکیٹ عطا ء فرما دیا ۔ارشاد باری تعالٰی ہے لقد رضی اللہ عن
المؤمنین اذ یبایعونک تحت الشجرۃ ۔الخ۔( سورۃ الفتح )
کہ تحقیق اللہ راضی ہوا ان تمام مؤمنین سے جنہوں نے آپﷺ کے ہاتھ پر درخت کے
نیچے بیعت کی
اور اس بیعت کے بارے میں دوسری جگہ ارشاد ہوا ان الذین یبایعونک انما یبا
یعون اللہ ۔ الفتح۔
آپ رضی اللہ عنہ کا تیسرا بڑا اعزاز جنت کی وہ خوشخبری ہے جو متعدد مواقع
پر رسول اللہﷺ نے آپ کو دی اور ارشاد ہوا عثمان فی الجنۃ ۔ عثمان جنتی ہے
ایک دوسرے مقام پر جب حضرت عثمان ےن غزوہ تبوک جس کو جیش العسرہ یعنی تنگی
والا غزوہ بھی کہا جا تا ہے کے موقع پر ایک تہائی لشکر کا خرچ اپنے ذمہ
لینے کے بعد ایک ہزار مزید اشرفیاں اللہ کے رسول ﷺ کے حوالہ کیں تو آپ ان
اشرفیوں کو اپنی گود میں اپنے ہاتھوں سے اچھال رہے تھے اور ساتھ ارشاد فرما
رہے تھے کہ ۔ ماضر عثمان ماعمل بعد الیوم ،۔ رواہ احمد ۔ عثمان کا کوئی عمل
آج کے بعد عثمان کو نقصان نہ دے گا یعنی عثمان کی نجات کے لیے اس کے آج سے
پہلے والے عمل ہی کافی ہیں -
سیدنا عثمان مین حیاء بھی بدرجہ اتم موجود تھی صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ
رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں ایک موقع پر حضرت ابوبکر نے گھر میں آنے کی
اجازت چاہی آپ ﷺ اپنے بستر پر پاؤں دراز فرماکر بیٹھے تھے آپ اسی حال مین
بیٹھے رہے اور حضرت ابوبکر کو اجازت دے دی پھر حضرت عمر نے اجازت مانگی تو
آپ اپنی حالت پر رہے اور اجازت دے دی پھر عثمان غنی نے اجازت طلب کی تو آپ
ﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اپنے کپڑوں کو درست کیا پھع عثمان کو اجازت دی ،
سیدہ عائشہ فراماتی ہین کہ میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا کہ اے عائشہ عثمان کی طبیعت میں حیاء کا غلبہ ہے مجھے خدشہ ہوا کہ
شاید مین حالت پر رہا تو عثمان شرم کے مارے اپنی حاجت مجھے بیان نہ کر سکے
اس لیے مین نے عثمان کے لیے اہتمام کیا ایک دوسری روایت مین ہے کہ آپ ﷺ نے
فرمایا کیا مین اس شخص کا حیاء نہ کروں جس سے آسمان کے فرشتے حیاء کرتے
ہیں۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ |