سید وارث شاہؒ کا تاریخی اور سیاسی شعور

سید وارث شاہ کا عہد ایسا تھا جب شمالی ہندوستان افراتفری ،نفسا نفسی اور دھکے شاہی کا شکار تھا ۔مغلوں کی حکومت روز بروز کمزور پڑتی جا رہی تھی ،جس پر قبضہ کرنے کے لیے ایک طرف ہندو مرہٹے اور دوسری طرف سکھ کوشش کر رہے تھے ۔۱۷۶۱ء میں پانی پت کی تیسری لڑائی شروع ہوئی جس میں ہندو مرہٹے شکست کھا گئے اور اس طرح ہندوؤں کی حکومت کا شیرازہ بکھر گیا لیکن پنجاب میں سکھوں کی طاقت مضبوط ہو کر ابھری۔یہ لوگ پہلے صرف لوٹ مار کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ ایک لڑاکا فوج کی شکل اختیار کر گئے۔۱۷۴۸ء خالصہ فوج جسا سنگھ کی سربراہی میں ایک مضبوط فوجی تنظیم بن گئی۔۱۷۶۲ء میں لدھیانہ میں سکھوں نے پٹھانوں کے ہاتھوں شکست کھائی جس کا نام ’’گھلوگھارا‘‘رکھا لیکن اگلے برس ۱۷۶۳ء میں سکھوں نے پٹھانوں سے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا۔یہ جنگ سر ہند شریف کے مقام پر ہوئی ۔۱۷۶۴ء میں پٹھانوں نے ایک اور ناکام حملہ کیا اور آخر کار سکھ لاہور پر قابض ہو گئے۔پوری سکھ فوج قریباً ستر ،اسی ہزار تھی لیکن یہ فوج مختلف سرداروں کے ماتحت تھی اس لیے سکھ سردار آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے،جب کبھی مشترکہ دشمن سے مقابلہ ہو جاتا تو تما م متحد ہو جاتے۔
اس افراتفری اور تباہی نے عوام کا جینا حرام کر دیا تھا کسی کی عزت محفوظ نہیں تھی ،جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول قائم تھا لیکن چڑھتے ہندوستان میں وارث شاہ اس دور کا مختصر اور جامع نقشہ بیان کرتے ہیں۔
؂سارے ملک خراب،پنجاب وچوں مینوں بڑا افسوس قصور دا اے۔
ہری سنگھ بھنگی(جس کی توپ بھنگیوں کی توپ کے نام سے مشہور تھی اور عجائب گھر لاہور کے باہر رکھی ہوئی ہے۔)کے مرنے کے بعد جھنڈا سنگھ جانشین ہوا۔اس نے ۱۷۷۰ء میں جموں کا علاقہ فتح کر لیا تھا اورقصور کے پٹھانوں کو شکست فاش ہوئی لیکن اس لڑائی میں کبھی معاملہ برعکس بھی ہو جاتا تھا جس کی وجہ وارث شاہ بڑا خوش ہو جاتا تھا۔اسی طرح کے ایک اور موقع پر کہتے ہیں۔
؂ڈیرہ بخشی دا مار کے لٹ لتا ،پائی فتح پٹھان قصور دے نیں
اسی طرح احمد شاہ ابدالی (درانی) نے بھی پنجاب اور ہندوستان پر کافی حملے کیے اور لوٹ مار بھی کی۔۱۷۷۷ء میں احمد شاہ ابدالی کابل جانے سے پہلے سر ہند شریف کی فوجداری اور مہاراجے کا خطاب امر سنگھ کو دے دیا گیا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی حالت کمزور ہو گئی اور بُرچھا گردی اور سکھ شاہی کا زور ہر طرف پھیل گیا۔
؂وارث شاہ جیوں دلاں پنجاب لٹی،تینوں جوگی نوں لٹیا ڈاریاں نیں
اسی طرح ایک اور مصرع سے احمد شاہ ابدالی کی تعریف کا پہلو نکلتا ہے جس کی ہر وقت مداخلت سے جنڈیالہ شیر خان میدان جنگ بننے سے محفوظ رہا۔
؂احمد شاہ از غیب تھیں آن پوسی،رب رکھ جنڈیالے نوں جا سیانیں
۱۷۷۰ء میں جھنڈا سنگھ نے جموں کے بعد قصور اور آس پاس جو تباہی مچائی اس کا منظر ملاحظہ ہو۔
؂جیوں ساڑ قصور تے کھڈیاں نوں ،اگاں خالصے پھوک وکھائیاں نیں
اب احمد شاہ ابدالی کی افواج کی فتح کے مناظر ملاحظہ کریں۔
؂فوجاں شاہ دیاں وارثاں مار ستھڑا،مڑ پھیر لاہور نوں آئیاں نیں
مذہبی حالات:
وارث شاہ کے عہد میں اسلامی تعلیم کی طرف دھیان دیا جاتا رہا،جس کا آغاز اورنگ زیب کے دور میں ہوا تھا۔پھر مذہبی تعلیم کے لیے معراج نامے،نور نامے،حلیہ شریف،پکی روٹی وغیرہ قسم کی کتب کے ساتھ اسلامی جنگ نامے بھی پڑھے اور سنے جاتے تھے۔فارسی اور عربی پڑھنے اور پڑھانے کا عام رواج تھا ۔مساجد میں مدرسے قائم تھے جہاں طالب علم بڑی بڑی کتب پڑھا کرتے تھے۔مساجد میں تعلیم کے معیار کی ایک جھلک ملاحظہ ہو۔
مسجد بیت العتیق مثال آہی خانے کعبیوں ڈول اُتاری آنے
گویا اقصیٰ دے نال دی بھین دوجی شاید صندلی نور اساری آنے
پڑھن فاضل درس درویش مفتی خوب کڈھ الحان پر کاری آنے
تعلیل میزان تے صرف بہائی صرف میر بھی یاد پکاری آنے
قاضی قطب تے کنز ،انواع باراں سو دیاں جلد سواری آنے
خانی نال مجموعہ سلطانیہ دے اُتے حیرۃالفقہ بزداری آنے
معارج النبوہ خلاصیاں تے روضہ نال اخلاق پساری آنے
گلستان بوستان اتے بہات دانش طوطی نامہ تے رازق باری آنے

قلمدان جزدان دوات پَھٹی نانویں عاملی ویکھ دے لڑکیاں دے
لکھن نال مسودے سیاق خسرے سیاہی نال جے لکھدے ورقیاں دے
اک بُھل کے عین دا غبن واچن جند کڈھے نال کڑکیاں دے
اک آؤندے شوق جزدان لے کے وچ کیتیاں دے نال تڑکیاں دے
زندگی امانت ہے ،ایک نہ ایک دن موت کا جام پینا ہے ،اس عالم آب و گل میں موجود ہر شے مسافر ہے اور ہر چیز راہی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موت سے کسی کو رُستگاری نہیں اور ہم سب راہ رفتگاں پر گامزن ہیں۔سب لوگ کمر باندھے ہوئے کسی وقت بھی چلنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ شہ رگ کی طرف بڑھتے ہوئے اجل کے ہاتھ کو کون روک سکا ہے ،کاتب تقدیر کی طرف سے اجل کے ہاتھ میں ہر روز ایک پروانہ تھما دیا جاتا ہے اور اس پروانے میں جس کا نام ہوتا ہے وہ زینہ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جاتا ہے اور یوں چشم کے مرجھا جانے کا سانحہ ہو جاتا ہے ۔لہو ولعب اور غفلت انسان کو تباہ برباد کر دیتی ہے۔وارث شاہ نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو غفلت سے بچنے کے لیے بڑی قیمتی باتیں سمجھائی ہیں۔
؂وارث شاہ نماز دا قرض وڈا،سروں لاہ اوہ دلبرا واسطہ ای

؂وارث شاہ صوم صلواۃ دی چُھری کپے، ایہناں دین ا یمان دیاں پھائیاں نوں

؂وارث شاہ جنہاں نے آکھیا پاک کلمہ ،بیڑی تنہاں دی عاقبت پار ہوئی

؂وارث شاہ جوانی وچ مست رہیا،وقت گئے تاں ہن پچھو تاؤندا اے

؂وارث شاہ وساہ کیہ زندگی دا،ساڈی عمر ہے نقش پتاسیاں تے

؂عملاں باہجھ درگاہ وچ پون پولے، لوکاں وچ میاں وارث شاہ ہویا

؂وارث شاہ جو گئے سو نہیں مڑدے،لوک اساں تھیں آؤنا بھال دے نیں

؂وارث شاہ فعلاں دے نال خراب ہوندے،بندے پاک گناہ تھیں جم دے نیں
؂وارث شاہ ایہہ عمر دے لال مہرے،اک روز نوں عاقبت ہارنی گے
؂وارث شاہ بے فائدہ عمر گزری،بازی روز قیامتے ہارنی میں

؂وارث شاہ ایس عشق دے وجن وچوں،کسے پلے نہ بدھڑی دمڑی اے

؂وارث شاہ آکھے کرو عمل چنگے،نیک عملاں دے وچ نجات ہے نی

؂وارث شاہ اوہ سدا ای جیوندے نیں،جنہاں کیتیاں نیک کمائیاں نی

؂سچا راب ہے رازق دے دین ہارا،وارث شاہ گلاں سمجھائیاں نی
وارث شاہ پنجاب سے دور دور پھیلی دنیا سے با خبر ہے۔قندھار سے لے کر چین تک ،ایران سے یونان تک اس کا تخیل اڑ کر جاتا ہے ۔لوگ کہتے ہیں وہ ہیر کے لیے لوازمات حسن خریدنے کو جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہیر کا کل حسن اور لوازمات حسن پنجابی ہیں مگر وارث شاہ اسے دنیا بھر کے مقابلے پہ رکھ کر پنجابی حسن کے لیے غرور و فخر کا اعزاز حاصل کرتا ہے لیکن اپنے فن کی حسن کاری کے علاوہ وارث شاہ اپنے دور کی بد صورت حقیقتوں سے بھی آگاہ ہے۔اس کا زمانہ یوں تو سارے ہندوستان میں بد امنی ،بغاوت اور افراتفری کا دور تھا۔ مغل حکومت بالخصوص اورنگ زیب کا دبدبہ اور جبر کئی خاموش بغاوتوں کو جنم دے چکا تھا اور اب وقت تھا ان بغاوتوں کے بھڑک اٹھنے کا ۔۔۔دہلی کی مرکزی حکومت کمزور ہو گئی تو جاٹوں ،سکھوں ،مر ہٹوں ،راجپوتوں اور ایسی ہی کئی بغاوتوں نے سر اٹھایا ۔
شمال مغرب سے لوٹ مار کرنے والے حملے جن کی زد میں پنجاب پہلے آتا ہے ،شروع ہوئے ۔پنجاب کا بُرا حال ہو رہا تھا ۔قتل و غارت کی زد میں ظاہر ہے عوام ہی زیادہ آتے ہیں۔ شاعر بھی اپنی بستیوں کے لیے حساس ہوتا ہے لیکن پھر بھی سید وارث شاہؒ میں اتنی طاقت ہے کہ وہ ملکہ ہانس کی ایک مسجد کے حجرے میں بیٹھ کر اپنا تخلیقی کام جاری رکھتا ہے ۔ایسے وقتوں کے لیے غالب ؔ نے کہا تھا:
’’ تخلیقی کاموں کے ساز گار ماحول ،پُر امن زمانے چاہیں ورنہ تو ہزاروں اندیشے ہیں۔‘‘
دام سر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھئے کیا گزرتی ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
بے شک تخلیقی اور ہنر کے کام امن کے متقاضی ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی ہو سید وارث شاہؒ جیسا یا خود غالبؔ جیسا تو سارے طوفانوں کے باوجود تخلیقی و ہنر کے موتی مکمل ہو جاتے ہیں بل کہ کچھ زیادہ آب دار بھی ہوتے ہیں۔
سید وارث شاہؒ کو پڑھتے ہوئے انسان سوچنے لگتا ہے کہ پنجاب کا معاشرہ صدیوں سے پامال اور پرانا ہے اس میں تبدیلی اور تازگی نہیں آئی ،آج بھی وہی پسماندگی ،استحصال ،انسان کشی اور حسن و عشق کی تعداد کی بے قدری کے ساتھ سیاسی افرتفری اور لوٹ کھسوٹ کا عمل جاری ہے۔یہ تو غنیمت ہے کہ سید وارث شاہؒ کی گدی سونی نہیں رہتی، کوئی نہ کوئی وارث پیدا ہوتا رہتا ہے ورنہ ہیر رانجھا جیسے خوبصورت کرادر اس زمین کا زیور،گمنامی کے اندھیرے میں کھو جاتے ،سید وارث شاہؒ کے لکھے ہوئے قصہ ہیر رانجھا کو پڑھ کر ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت پنجاب کی سیاسی حالت کیا تھی ،اس وقت شمالی ہندوستان افراتفری اور نفسا نفسی کا شکار تھا۔مغلوں کی سلطنت شمال اور جنوب کے لگاتار حملہ آوروں کی وجہ سے نیم مردہ ہو چکی تھی۔
پانی پت کی تیسری لڑائی ۱۷۶۱ء میں مرہٹوں کی شکست سے شمالی ہند اور ہندوستان کے غلبے کا خواب بکھر کر رہ گیا مگرپنجاب میں ایک نئی طاقت کو کھل کر کھیلنے کے لیے میدان خالی ہو گیا ،یہ نئی طاقت سکھوں کی تھی ،سکھ تو لوٹ مار کرنے والوں کا ایک جتھا تھا پھر آہستہ آہستہ لڑاکا فوج کی شکل اختیار کر گئے ۔۱۷۶۲ء میں سکھوں کو پٹھانوں کے ہاتھوں لدھیانے میں تباہی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ۱۷۶۳ء میں سر ہند کے مقام پر سکھوں نے پٹھانوں سے پچھلے برس کی شکست کا بدلہ لیا۔
اس خون خرابے اور افراتفری میں پنجاب کی جو بُری درگت بنی اس کی مثال ہم یورپ کی تاریخ میں تلاش کریں تو ہمیں شاہ سٹیفن کے انگلستان کے ساتھ تیس سالہ جنگ کے بہترین واقعات میں مل سکتی ہیں۔ اس وقت سکھوں کی متحدہ تعداد قریباً ستر ہزار سوار تھی ،ہر سوار اپنی حکومت کے دائرے میں خود کو جو جی چاہتا کرتا ،کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے مگر جب کوئی بیرونی حملہ آورآتا تو وہ متحد ہو جاتے ،یہ وہ دور لکھا شاہی کا دور کہلاتا ہے اس دور کا نقشہ وارث شاہ نے اس طرح بیان کیا ہے:
؂جدوں دیس تے جٹ سردار آئے گھرو گھری۔۔۔۔۔۔۔۔
سید وارث شاہؒ کو قصور کا اس لیے زیادہ افسوس تھا کہ ان کے استاد سید غلام مرتضیٰ کا ٹھکانہ تھا۔ تاریخی لحاظ سے یہ وہ زمانہ تھا جب مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہو چکی تھی۔اس زوال کا آغاز اورنگ زیب عالمگیر کی وفات سے ہوا۔۱۷۰۷عالمگیر کے بیٹوں اعظم، معظم اور کام بخش میں تخت نشینی کی جنگوں نے مل کر نظام درہم برہم کر دیا۔ جنگ کے دوران اعظم اور کام بخش مارے گئے اور معظم بہادر شاہ کے لقب سے سریر آرائے سلطنت ہوا لیکن ۱۷۱۲ء میں اسے موت نے آ لیا۔اس کے بیٹوں میں پھر لڑائیاں ہونے لگیں جن میں جہاندار شاہ کامیاب ہوا اور ۱۷۱۲ء میں دلی کے تخت پر بیٹھا ۔جہاندار شاہ عیش و عشرت کا رسیا تھا ۔ایک رنڈی لال کنور کا ایسا دیوانہ ہوا کہ نظم مملکت سے یکسر بیگانہ ہو گیا ،راتوں کو شراب کے نشے میں دھت دونوں گلیوں میں گھومتے رہتے اور باؤلیوں میں مادر زاد برہنہ چھلانگیں لگایا کرتے۔ لال کنور کے قرابت دار ڈوم ڈھاڑی سرکار دربار میں دخیل ہو گئے اور انھیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا۔
سادات بارہہ حسین علی خان اور عبداﷲ خان نے جہاندار شاہ کو قتل کر کے فرخ سیر کو تاج شاہی پہنایا۔۱۷۱۳ء دربار سازشوں کا مرکز بن گیا ،ایک طرف تورانی سنی اور ایرانی شیعہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔ دوسری طرف ہندوستان اور ولایتی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی تدبیریں سوچ رہے تھے۔۱۷۱۹ء میں فرخ سیر کو بھی گرفتار کر کے جان سے مار دیا گیا اور سادات بارہہ نے رفیع الدرجات کو بادشاہ بنا دیا۔یہ افیمی جلد ہی راہی ملک عدم ہوااورروشن اختر کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔یہی روشن اختر تاریخ میں محمد شاہ رنگیلا کے نام سے رسوا ہوا۔اس کے ایما پر نواب سعادت خان نے سادات بارہہ کے اثرو رسوخ کا خاتمہ کیا۔نظام الملک حیدر آباد کے سیر حاصل صوبے پر متصرف ہو گیا۔۱۷۳۷ء میں نادر شاہ نے حملہ کیا اس کی فاتحانہ یلغار ،بے رحمانہ، قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ نے سلطنت مغلیہ کو یکسر متزلزل کر دیا اور دولت ِ مغلیہ کی رہی سہی ساکھ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔
اس طرح اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے صرف تیس برس بعد زوال دولت مغلیہ کا المیہ اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گیا۔سید وارث شاہؒ نے اس پُر آشوب زمانے میں ہوش سنبھالا۔ کہتے ہیں:
نادر شاہ پنجاب فتور پائے، میرے باب دے انھاں فتور کیتے
نادر شاہ توں ہند پنجاب دھڑکے، میرے باب دا تدھ بھونچال کیتے
لوگ نادر شاہ کی خون ریزی اور تاخت و تاراج سے لرزاں و ترساں تھے اس کے حملے کو سید وارث شاہؒ نے بجا طور پر بھونچال سے تعبیر کیا ہے اس بھونچال نے مغلیہ جاہ حشمت کے قصر رفیع کو زمین بوس کر دیا۔محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں درباری امرا،روسا ،فسق و فجور کی دلدل میں غرق ہو گئے ۔کثرت شراب نوشی ، افیم خوری اور کسبیوں کی صحبت نے ان کے قوائے عمل کو مضمل کر دیااور وہ حوادث زمانہ کا مردانہ وار مقابل کرنے کے بجائے جام و سبو اور کنار شاہد میں پناہیں ڈھونڈنے لگے۔بابر کی الوالعزمی،اکبر کی شہامت اور عالمگیر کی عزیمت و مباورت خواب و خیال ہو گئی۔شاہی دربار اور امرا کے محلوں پر ڈوم ، میراثی،سپروائی ،ہجڑیامرو ،ڈومنیاں ،کنچنیاں ،پاتریں چھا گئیں۔محمد شاہ کو ۱۷۴۸ء میں موت نے ذلت و رسوائی کی زندگی سے نجات دلائی۔
اس کے بعد احمد شاہ کو بادشاہ بنا یا گیا۔اس نے سلطنت کی باگ ڈور اپنی ماں کے رشتے دار بھانڈوں اور بھڑوؤں کے سپرد کی۔وہ ۱۷۵۴ء میں فوت ہوا تو اس کا بیٹا عزیز الدین عالمگیر ثانی کے لقب سے اس کا جانشین ہوا۔ اس زمانے میں ہر طرف مرہٹوں اور جاٹوں نے شورش برپا کر رکھی تھی۔۱۷۵۹ء میں اسے قتل کر دیا گیا اور شاہجہان ثانی مسند نشین ہوا۔اس کے عہد میں احمد شاہ ابدالی نے دلی پر چڑھائی کی اور پٹھان لشکریوں نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ہزاروں مار دیے گئے اور سینکڑوں گھر بے چراغ ہو گئے۔۱۷۶۱ء میں احمد شاہ ابدالی نے شاہ عالم کو بادشاہ بنا دیا یہ وہی شاہ عالم ہے جس کی آنکھیں بعد میں غلام قادر رہیلہ نے نکلوا دی تھیں۔ انگریزوں نے شاہ عالم کی پینشن مقرر کر دی اور امور سلطنت خود سنبھال لیے۔مغلیہ صولت و عظمت داستان پارینہ بن کر رہ گئی۔پچھلے پہر کی یہ چاندنی بھی ۱۸۵۷ ء کے طوفان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم ہو گئی۔
سید وارث شاہؒ کا سن وفات صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکا ،قیاس غالب ہے یہ ہے کہ انھوں نے کم و بیش ساٹھ برس کی عمر میں وفات پائی تھی اور اس پر آشوب زمانے کی افرا تفری کو پنجاب میں اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔مغلیہ سلطنت کی تباہی کے ساتھ ظاہراً پنجاب کے مسلمانوں کی بربادی بھی وابستہ تھی ۔سید وارث شاہؒ کے دیکھتے دیکھتے یہ صوبہ جس کے صدر حکومت لاہور کو اکبر ،جہانگیر ، شاہجہان اور اورنگ زیب نے عالیشان عمارتوں سے سجایا تھا ،خون ریز جنگوں کی لپیٹ میں آ گیا۔سید وارث شاہؒ کہتے ہیں:
احمد شاہ از غیب تھیں آن پوسی
جنڈیالہ اوس تھیں رب بچا سی

دینا بیگ دے مگر جیوں پئے غلجے
ڈیرہ لُٹ کے چا کنگال کیتو
احمد شاہ وانگوں میرے وَیر پے کے
پٹ ٹھڈ کے چک سا نال کیتو

سیاہ فام مہاراجیاں ہندیاں تھیں
لیا راج افغان درانیاں نے
احمد خان ایک پٹھا سردار تھا جو نادر شاہ کے رسالے کا قائد تھا جب نادر شاہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو احمد خان اپنے قبیلے سمیت اس کے لشکر میں شامل ہو گیا تھا۔نادر شاہ لوٹ کھسوٹ کے مال سے لدا پھندا ایران لَوٹ گیا۔کچھ عرصے کے بعد اسے دیوانگی کے دورے پڑنے لگے اور ہر ایک پر شک کرنے لگا ،اسی حالت میں اس نے اپنے ہونہار اور حوصلہ مند بیٹے رضا قلی خان کی آنکھوں میں سلائیاں پھرا دیں اور کئی سرداروں کے سر قلم کروا دیئے۔اس کی خون ریزی سے تنگ آ کر فوج کے کچھ سرداروں نے اسے جان سے مار دینے کا منصوبہ بنایا۔احمد خان ان کا سر غنہ تھا۔۱۷۴۷ء میں ایک رات یہ لوگ چپکے سے نادر شاہ کے خیمے میں گھس گئے اور اسے سوتے میں قتل کر دیا۔نادر شاہ کا خزانہ احمد خان کی تحویل میں تھا۔احمد خان خزانہ لے کر افغانستان چلا آیا۔یہاں نادر شاہ کا ایک سردار تارکی خان ملتان ،بھکر،پشاور وغیرہ کا خزانہ لے کر ایران جا رہا تھا ،احمد خان نے یہ خزانہ بھی اس سے لوٹ لیا اور احمد شاہ ابدالی کے نام سے افغانستان کا بادشاہ بن گیا۔
احمد شاہ کے مداح اور عقیدت مند اسے ’’دُرِدوراں‘‘ (زمانے کا موتی)کہتے تھے جس سے وہ درانی کے لقب سے مشہور ہوا۔ احمد شاہ ہندوستان کے حالات سے بخوبی واقف تھا اس نے ہندوستان اور پنجاب پر آٹھ حملے کیے ،جب اس نے پہلی بار چڑھائی کی تو شاہنواز خان لاہور کا صوبہ دار تھا۔شاہنواز نے احمد شاہ کا مقابلہ کیا لیکن شکست کھائی۔احمد شاہ کی مراجعت کے بعد نواب معین الملک عرف میرمُنوکو لاہور اور ملتان کا حاکم مقرر کیا گیا۔میر منونہایت دلیر ،چاق و چوبند مرد کارواں تھا۔اس کے عہد میں جسا سنگھ کلاں نے خالصہ دل کی بنیاد رکھی اور سکھوں کی باقاعدہ فوجی تنظیم کی ،میر منو نے سکھوں کو سخت شکست دی اور انھیں تتر بتر کر دیا۔وزیر صفدر جنگ میر منو سے جلتا تھا اس نے شاہنواز خان کو ملتان کا صوبہ دار مقرر کیا لیکن میر منو نے اسے شکست دے کر قتل کر دیا ۔احمد شاہ ابدالی نے ۱۷۵۲ء میں دوبارہ ہند پر فوج کشی کی ۔میر منو نے لاہور کے قلعے میں محصور ہو کر مقابلہ کیا لیکن مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دیے ،شاہ اس کی بہادری کا معترف تھا اس نے جاتی دفعہ میر منو کو اپنی جانب سے لاہور کا حاکم مقرر کر دیا۔
اودینا بیگ خان جسے سید وارث شاہؒ نے دینا بیگ کہا ہے ۔دو آبہ جالندھر کا حاکم تھا۔جہاں اسے سکھوں کی سرکوبی کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔اس نے لکھو وال کی جنگ میں سکھوں کو شکست فاش دی ۔دینا بیگ خان میر منوکا دست راست تھا ،میر منو کی موت ۱۷۵۲ء کے بعد لاہور ہر چندے ادینا بیگ کی حکومت رہی لیکن احمد شاہ ابدالی نے حملہ کر کیاسے لاہور سے نکال دیا اور لاہور کی حکومت اپنے بیٹے تیمور شاہ کے سپرد کی جس نے جہان خان کو اپنا سربراہ مقرر کیا۔ تیمور شاہ ادینا بیگ سے ناراض تھا ،ادینا بیگ بھاگ کر پہاڑیوں میں روپوش ہو گیا اور سکھوں کو حملہ کرنے کے بعد اکسانے لگا ۔جسا سنگھ نے لاہور پر حملہ کر کے پٹھانوں کو شکست دی اور خالصہ کے نام سے سکہ چلایا۔۱۷۵۸ء میں مر ہٹے دلی پر قابض ہوئے تو ادینا بیگ نے ان سے ساز باز کی اور رگھوبا کی فوج میں شامل ہو کر لاہور پر دھاوا بول دیا،سکھ مقابلے کی تاب نہ لا سکے اور بھاگ گئے۔افغانوں کو بھی پسپا ہونا پڑا ۔مرہٹوں نے ادینا بیگ خان کو لاہور کا صوبہ دار مقرر کیا لیکن موت نے اسے مہلت نہ دی اور وہ راہی ملک عدم ہوا۔
احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کو شمالی ہند سے نکالنے کے لیے پانچواں حملہ کیا۔مرہٹے اس کی یلغار کی تاب نہ لا کر دلی کی طرف سے ہٹ گئے لیکن احمد شاہ نے بلائے بے درماں کی طرح ان کا پیچھا کیا اور پانی پت کی جنگ عظیم میں انھیں کچل کر رکھ دیا جب احمد شاہ مرہٹوں کی جنگ میں مصروف تھاپنجاب میں سکھوں نے شورش برپا کی اور لوٹ مار کا بازار گرم کیا۔۱۷۶۲ء میں احمد شاہ لاہور پہنچا۔سکھوں کی فوج ستلج پار کر گئی لیکن شاہ نے طوفان ِ برق و رعد کی طرح انھیں جا لیا اور گھلو گھارا کی خون آشام جنگ میں انھیں شکست فاش ہوئی۔اس لڑائی میں بیس ہزار سے زائد سکھ کام آئے۔افغانستان واپس جانے سے پہلے احمد شاہ نے کابلی مَل کو لاہور کا صوبہ دار مقرر کیا ۔ادھر سکھوں نے پھر لشکر جمع کیا اور قصور اور سر ہند کے شہروں کا تاراج کیا۔احمد شاہ نے پھر چڑھائی کی لیکن سکھ جنگ سے جی چراتے ہوئے فرار ہو گئے۔ احمد شاہ کی واپسی پر سکھوں نے پھر نرغہ کیا اور لاہور کے صوبہ دار کو نکال باہر کیا۔
احمد شاہ ابدالی کی وفات ۱۷۷۳ء کے بعد تیمور شاہ نے حملہ آور ہو کر۱۷۷۹ء میں ملتان پر قبضہ کر لیا لیکن لاہورسکھوں کے قبضے میں رہا۔ اس کے جانشین شاہ زمان نے چڑھائی کر کے ۱۷۹۰ء میں لاہورفتح کر لیا لیکن پٹھان پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرنے سے گریز کرتے رہے۔شاہ زمان نے واپس جاتے وقت سکرچکیہ مثل کے ایک سکھ سردار رنجیت سنگھ کو لاہور کی حکومت کا فرمان لکھ دیا کیوں کہ اس نے شاہ زمان کی چند گری پڑی توپیں افغانستان بھجوائی تھیں۔رنجیت سنگھ نے لاہور کو اپنا صدر مقام بنا کر چاروں طرف حملے شروع کیے پنجاب کے مسلمان سرداروں ،چٹھوں ،نوابوں ،اعوانوں اور گجھڑوں نے اس کا جی توڑ کر مقابلہ کیا لیکن تربیت یافتہ سکھ فوج کے سامنے ان کی کچھ پیش نہ گئی اور وہ اطاعت پر مجبور ہو گئے ۔چند ہی برسوں میں کشمیر ،ملتان اور پشاور پر بھی سکھوں کا راج مستحکم ہو گیا۔
وارث شاہ نے کچھ ایسے واقعات کی طرف بھی اشارے کیے ہیں جن کی تحقیق کتب متدوالہ سے نہیں ہو سکی۔
؂ڈیرا بخشی دا مار کے لٹ لیا
فتح پائی پٹھان قصور دے نے
یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ بخشی کون تھا جسے نواب قصور نے شکست دی ۔قصور کے پٹھان سردار میں نواب نظام الدین خان بڑا بہادر اور ہوش مند تھا ۔۱۸۰۷ء اس خانوادے کے آخری نواب قطب الدین خان نے رنجیت سنگھ کے ہاتھوں شکست کھائی۔رنجیت سنگھ نے نواب موصوف کو ستلج کے دوسرے کنارے پر جاگیر دے کر قصور سے نکال دیا۔
؂جیویں زکریا خان مہم کر کے
رکھی توپ پہاڑ تے جوڑیائی
نواب زکریاخان نواب عبدالصمد خان کا بیٹا تھا جس نے فرخؔ سیر کے عہد میں سکھوں کے بدنام سردار بیراگی کو شکست دے کر اس کی غارت گری کا خاتمہ کیا تھا۔(۱۷۱۶ء ) ان دونوں کے دور حکومت میں پنجاب میں سکھوں کو سر اٹھانے کا حوصلہ نہ ہوا ۔نواب شاہنواز خان جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے نواب زکریا خان ہی کا بیٹا تھا۔
نواب حسین خان نال لڑیا
جیویں ابو سمند وچ چوہنیاں دے
اس تلمیح کی بھی تحقیق نہیں ہو سکی ۔نواب حسین خان لاہور کا ایک صوبیدار ہو گزرا ہے لیکن ابو سمند کا ذکر تاریخ میں نہیں مل سکا۔تاریخی واقعات کے اس سرسری بیان سے اس غارت گری ،سرسیمگی،دہشت اور قتل و غارت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ جس کا سامنا اہل پنجاب کو ان حملوں اور لڑائیوں کے دوران کرنا پڑا ۔پٹھان بار بار چڑھائی کرتے ،فاتحین کا لشکر جس علاقے یا قریئے سے گزرتا اسے ٹڈیوں کی طرح ویران کر جاتا۔رسد رسانی کے نام پر لشکری لوگوں کی بھیڑ بکریاں ،گائیں ،بھینسیں،بیل ،گھوڑے ہانک کر لے جاتے ۔اناج کی کوٹھیاں خالی ہو جاتیں۔
سرسبز شاداب کھیتیاں حملہ آوروں کے گھوڑوں اور بار برداری کے جانوروں کے چارے کی نذر ہو جاتیں۔لشکر کے جانے کے بعد کسان پھر جوں توں فصلیں کاشت کرتے۔ایک دن پھر افق پر گردو غبار کی وہی بھیانک لکیر پھیل جاتی۔لوگ گایوں ،بھینسوں کو جھنگی میں چھپانے کی کوشش کرتے ۔سونے چاندی کے زیور زمین میں گاڑ دیتے ،غلے کے انباروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے دیوانہ وار دوڑ دھوپ کرتے لیکن اتنی فرصت کہاں ۔غبار کی چادر چاک ہوتی تو رسالے کے خشمگیں سوار گرد اُڑاتے ان کے سروں پر آن پہنچتے۔دہشت سے دل سینوں میں دھڑکنے لگتے۔جوان عورتیں گھروں کے اندر گھس کر بیٹھی تھر تھر کانپنے لگتیں۔
کسانوں کے چہروں کا رنگ فق ہو جاتا ۔انکار کرنے کی مجال کسے تھی جوکچھ بھی چھپایا ہوتا نکلال کر ننگی تلواروں کے سائے میں ڈھیر کر دیتے اور دیکھتے ہی دیکھتے سال دو سال کی کمائی سمیٹتا ہوا یہ لشکر آگے بڑھ جاتا۔دیہات کے صابر و شاکر کسان پھر اپنے اپنے کام میں جُٹ جاتے اور اگلے سال کے حملہ آور لشکر کے لیے غلہ اُگانے اور ڈھور ڈنگر پالنے میں مشغول ہو جاتے۔ یہ دو چار برسوں کی بات نہیں اورنگ زیب کی وفات ۱۷۰۷ء سے لے کر سکھوں کی حکومت کے خاتمے ۱۸۴۶ء تک یہی عالم رہا۔
پٹھانوں کے حملوں کے ساتھ ساتھ سکھ گردی جار ی رہی ۔جب افغان لشکر آتا سکھ پہاڑوں میں جا کر چھپ جاتے لیکن لشکر کے لوٹتے ہی اپنی کمین گاہوں سے باہر نکل آتے۔اور اس بے رحمی سے لوٹ مار کرتے کہ گاؤں ویران ہو جاتے۔سکھوں کے مسلح گروہ کو پنجابی میں دھاڑ کہتے تھے۔ یہ دھاڑیں اچانک دیہاتیوں پر ٹوٹ پڑتیں اور قتل و غارت کرتی ہوئی آگے نکل جاتیں۔
وارث شاہ نے اس ہمہ گیر تباہی اور بربادی کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ چناں چہ قندھاری کٹک اور قندھاری تاخت کی ترکیبیں شعر میں علامت بن کر ان کی شاعری میں نفوذ کر گئیں۔
تیرے نیناں دی نوکاں دے خط نبڑے
واہڈ بلی اے جیویں کٹاریاں نوں
حکم ہور دا ہور اج ہور ہویا
اج ملی پنجاب قندھاریوں نوں

سرمہ کجلہ کٹک قندھار دائی
گولی نظر دی تاڑ دی حیلیاں نے
کسی قوم کا اخلاقی تنزل اس کے سیاسی زوال کا پیش خیمہ ہوتا ہے ۔ دولت وثروت کی فراوانی سلاطین و امرا کو عیش و عشرت کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے اور وہ کنیزوں اور کسبیوں کی صحبت میں رہ کر امور مملکت سے یکسر غافل ہوجاتے ہیں۔نظم و نسق کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔صوبائی اور ضلعی حکام من مانی کرنے لگتے ہیں۔ رشوت کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔عیش و تنعم کے سامان کی فراہمی کے لیے روزمرہ کے استعمال کی چھوٹی چھوٹی اشیاء پر بھی محصولات عائد کر دیئے جاتے ہیں جس سے عوام کی کمر ہمت ٹوٹ جاتی ہے اور ان کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا جاتا ہے۔حکومت کا دبدبہ اور دغدغہ اٹھ جانے سے کن ٹُٹے اور لُقے ہاتھ پاؤں نکالنے لگتے ہیں اور شرفا کونوں کھدروں میں گھس کر بیٹھ جاتے ہیں ۔کسبیوں کی بن آتی ہے ۔شرم و حیا کے پردے اٹھا دیئے جاتے ہیں۔
فسق و فجور کا بازار گرم ہو جاتا ہے ۔زمیندار مزارعوں پر ظلم توڑتے ہیں اور عوام کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔وارث شاہ ایک ذی شعور اور ذی حساس شاعر تھے انھوں نے بڑے دلدوز پیرائے میں اپنے عہد کی سیاسی اور معاشرتی زبوں حالی اور اخلاقی پستی کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے ۔کہتے ہیں:
جاہل فاسق ہن جگ نوں ، مت دیندے دانشمند دی مت خوار ہوئی
حق سچ دی گل نہ کرے کوئی، جھوٹھ بولنا رسم سنسار ہوئی
مجلس لا کے کرن حرام ایکا، ہتھ ظالماں تیز کٹار ہوئی
صوبہ دار ناہیں حاکم شاہ کوئی ، رعیت ملک تے سب اکسار ہوئی
پیا ملک دے وچ بڑا رولا، ہر کسے دے ہتھ تلوار ہوئی
پردہ ستر حیا دا اٹھ گیا سارا، ننگی ہوئی کے خلق بازار ہوئی
چور چودھری یار تے پاک دامن، بھوت منڈلی اک دوچار ہوئی
اشراف خراب کمین تازہ، زمیندار نوں وڈی بہار ہوئی
سارے دیس دے جٹ سردار آہے، گھرو گھریں جاں نویں وچار ہوئی
تدوں شوق ہویا قصہ جوڑنے دا ، گل عشق دی آن اظہار ہوئی
اس زمانے میں مرکزی حکومت کا نظم و نسق معطل ہو جانے کے باعث پنجاب کے دیہات میں ہر کہیں چودھری اپنے اپنے حلقوں میں خود مختار حاکم بن بیٹھے تھے اور رعیت کے جان و مال پر پورے متصرف ہو گئے تھے۔
؂کلا کار تے جھا گرو جٹ وڈے،کھوہن مال ایہہ جاندیاں راہیاں دا

؂اشراف دی گل منظور ناہیں ،اتے چودھری چور لنڈور کیتے

؂ چور چودھری گنڈی پردھان کیتی،ایہہ اُلٹ اولیاں روز ہویاں

؂عامل چور تے چودھری جٹ حاکم ،سماں ہور ای رب دکھایا ای
آج بھی ہمارے دیہات میں بعض چودھری بڑے بڑے رسہ گیر ہیں اور چوروں کی سر پرستی کرتے ہیں۔وارث شاہ کہتے ہیں کہ شرفا گمراہ ہو گئے ہیں اور شریف زادوں نے کنجروں کی عادتیں اختیار کر لی ہیں جو لوگ صحیح معنوں میں عالی نسب تھے ان کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔فقرا کی یہ حالت ہے کہ وہ بد چلن عورتوں میں گھرے رہتے ہیں اور ہر ایک کے سامنے دست ِ سوال دراز کرتے پھرتے ہیں:
رناں گُنڈیاں گشتیاں گرد بیٹھن
فقرا وڈے مکھ سوال دے نیں
خاندان اشراف سب گم ہو گئے
ہن یار سب مال متوال دے نیں
اشرفا دے پُت بن گئے کنجر
ہوئے دور ہم راہ ضلال دے نیں
منع ہوئی زکوٰۃ زنا ودھیا
ایہ نشان سب قحط بوال دے نیں
کہتے ہیں کہ کوے (چور ،غنڈے)باغوں میں اینڈتے پھرتے ہیں اور مور ،چکور ،تیتر (شرفا) بھوکوں مر رہے ہیں۔
کاں کرن کلول وچ باغ بیٹھے تیتر ،مور ،چکوربھکھ جالدے نیں
وارث شاہ کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ اس ہمہ گیر جبر و تشددکے عالم میں مظلوم اور کمزور عوام کی حالت نہایت سقیم تھی وہ بار بار مختلف پیرایوں میں عوام کی زبوں حالی اور مظلومیت کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مظلوم اور غریب جنھیں پیروں تلے روندا جا رہا ہے ڈر کے مارے حرف شکایت زباں پر نہیں لا سکتے۔
؂وارث شاہ لتاڑی دے پئے ماڑے
مارے خوف دے مونہوں نہیں بول دے نیں
ان حالات میں غریبوں کی کوبیاں دب کر گھٹ کر رہ جاتی ہیں اور دوسرے غریبوں کے سوا کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔
؂گم ماڑیاں دے سبھے رہن وچے
ماڑے ماڑیاں دے دکھ پھول دے نیں
سب لوگ غریبوں کو جھٹلاتے ہیں ۔امرا کو جھٹلانے کی جرات کسی میں نہیں ہوتی۔
شاندار نوں کرے نہ کوئی جھوٹا
جھوٹا کرن کنگال نوں ٹولدے نے
لوگ اقبال مند امیروں کی خوشامد کرتے ہیں اور غریبوں کی غم خواری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔
طالع منداں دیاں لکھ خوشامداں نے
اتے غریب دا کوئی غم خوارناہیں
غریبوں کے پاس تو شک لحاف کہاں ،وہ چُپ چاپ جاڑے کی ٹھر کا دکھ سہتے رہتے ہیں:
جنھاں لیف دے نہیں آرام ویکھے
کوئی بھوگدے دکھ سیال دے نے
طاقتور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں ۔غریب بے چارے ہار ماننے کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔
ڈاہڈے ماڑیاں نوں دھاڑ ماڑ کر دے
زوراں وراں اَگے انت ہاریاں نی
آج اڑھائی سو برس گزر جانے کے بعدبھی دیس پنجاب کے کسان اور مزارع ویسے ہی مظلوم و مقہور ہیں جیسے کہ وارث شاہ کے زمانے میں تھے۔ اتنا ضرور ہے کہ اب ان میں طبقاتی شعور ہو گیا ہے اور لیٹ کر مار کھانے کے بجائے انھوں نے اپنے حقوق کے لیے مردانہ وار جدو جہدشروع کر دی ہے۔وارث شاہ کسانوں کی مظلومیت کے ذکر پر ہی اکتفا نہیں کرتے بل کہ انھیں اپنی قوت کا احساس اور شعور بھی دلاتے ہیں اور بیداری کی دعوت بھی دیتے ہیں۔
؂تینوں رَب شہباز بنایا سی
بنیوں کرتباں نال توں اِل آپے
وارث شاہ نے اپنے زمانے کے کٹھ ملاؤں اور قاضیوں کی ریا کاری اور مکرو فریب کا پردہ بڑی بے رحمی سے چاک کیا ہے کہتے ہیں کہ یہ ’’رب دے مارے‘‘شریعت کے احکام بالا کو بالائے طاق رکھ کر ہمیشہ اس شخص کی حمایت کرتے ہیں جو انھیں رشوت دیتا ہے۔ یہ لوگ اپنی غرض برداری کے لیے دینی علوم پڑھتے ہیں لیکن احسان خلق خدا پر دھرتے ہیں۔یہ ہر وقت نئے شکار کی تاک میں رہتے ہیں:
؂نت شہر دے فکر غلطان رہندے
ایہو چاٹ ہے رَب دیاں ماریاں نوں
جتھوں لیوندے اوس دی گل کر دے
چھڈ شرع دے قول قراریاں نوں
؂پڑھیں نفس دے واسطے علم سارے
اُتے خلق دے کریں احسان ہیں وے
وارث شاہ شکار نوں پھریں بھوندا
وچ دولتاں بڑا غلطان ہیں وے
پھر کہتے ہیں:
؂شکل مومناں دی کم موذیاں دا
یہ تے اصل شیطان دیاں دادیاں نے
جس نے دغے فریب تے لک بدھا
سبھو ڈوبیاں آو جگا دیاں نے
جدوں جگ جہان تے سوگ ہووے
تدوں قاضیاں دے گھر شادیاں نے
اوہ محروم ہوئے رحمت رب دی توں
جنھاں وڈیاں چیریاں کھادیاں نے
ملاؤں اور قاضیوں کی ابلہ فریبیوں کے ساتھ وارث شاہ پیران سالوس کی زہد فروشی اور دکان آرائی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں ۔وارث شاہ نے اس طائفہ کی وسیہ کاریوں کو قریب سے دیکھا تھا کہتے ہیں۔کہ ہمارے زمانے کے پیرپورے گرو گھنٹال ہیں۔ امروؤں کو اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں ۔انھوں نے فریب کا جامہ اوڑھ رکھا ہے ہر وقت اپنے نفس کی پرورش میں مصروف رہتے ہیں ۔انھیں نماز روزے سے کوئی غرض نہیں ہوتی لوگوں سے قدم بوسی کرانے کا بڑا شوق ہوتا ہے خواہ مرید کے بیوی بچے بھوکے مر رہے ہوں۔ پیروں کو اپنے نذرانوں سے کام ہوتا ہے یہ شیطان ظالم لٹیرے ہیں اور غریبوں کے تن سے کپڑے بھی اتروا لیتے ہیں۔ سلوک و عرفان کو بدنام کرتے ہیں اور بُرے افعال کے ارتکاب میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے جب پیر جی نزول اجلا ل فرماتے ہیں تو موٹی تازہ عورتیں انھیں گھیر لیتی ہیں اور انھیں دیکھ دیکھ کر پیر جی خوشی سے پھولے نہیں سماتے ۔انھوں نے دکھاوے کے لیے فقر کا جامہ اوڑھ رکھا ہوتا ہے اور عمامہ ،ریش دراز سیلی ٹوپی سے لیس رہتے ہیں۔
ویکھو ایس زمانے دے پیر یارو
کردے مکر سب گورو گھنٹاں دے نے
خوشیاں نال فریب دا پہن جامہ
کھتن بالکے وچ بھونچال دے نے
بھاویں بڑ مرید دا مرے بھکھا
پیر اپنے نفس نوں پال دے نے
فرض سنتاں دا جبال ترک کر کے
ہتھ دوڑ دے پیر دے خال دے نے
ایہہ شیطان شطونگڑے وڈے ظالم
لیڑے عاجزاں لاہ پڑتال دے نے
سگون پیری دے نام نوں لج لائی
مردود ایہہ فعل افعال دے نے
رناں ویکھ مشٹنڈیاں ہون راضی
جدوں سائیں ہوری ڈول ڈال دے نے
مکت سیلیاں ٹوپیاں پہن بانا
پگڑ استرا ریش روال دے نے
پنجاب کے سادہ لوح دیہاتیوں کے دل و دماغ پر آج بھی کٹھ ملاؤں اور پیرانِ سالوس کا تصرف باقی و برقرار ہے اگرچہ علوم جدیدہ کی اشاعت کے ساتھ ان لوگوں کی دین فروشی اور مکاری کا طلسم ٹوٹتا جا رہا ہے۔وارث شاہ نے انگریزوں کے بڑھتے ہوئے تسلط کا بھی جائزہ لیا وہ انگریزوں کے مکتو فریب اور فتنہ پردازی کا وقوف رکھتے ہیں تھے۔ بالناتھ جوگی کی زبانی کہتے ہیں:
؂وڈے پیچ در پیچ ایہہ جان دا ای
کلا کار استاد فرنگ دا ای
انھوں نے انگریز عورتوں کی بے پردگی پر بھی طنز کیا ہے
؂مومنات نوں ستر دی قید بہتر
آزادی بھاوندی سب کرانناں نوں
وارث شاہ مساوات پر کامل یقین رکھتے تھے ۔کہتے ہیں
؂سید شیخ نوں پیر نہ جاننا ای
عمل کرے جے اوہ چنڈال دے نے
چوہرا ہووے جے ترک حرام مسلم
مسلمان سب اس ص نوال دے نے
مساوات کے انقلابی تصورکی ترجمانی کیسے عمدہ اور پر زور پیرائے میں کی ہے کہتے ہیں کہ سید یا شیخ کو مرشد نہیں مانا جا سکتا اگر وہ چوہڑے چماروں جیسے کام کرے ۔دوسری طرف چوہڑا چمار حرام خوری تک کر کے مسلمان ہو جائے تو وہ مسلمان کی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے ۔محولہ بالا اقتباسات سے مفہوم واضح ہوتا ہے کہ وارث شاہ ہر عظیم شاعر کی طرح سیاسی ،طبقاتی اور سماجی شعور سے بہرہ ور تھے۔ انھوں نے جس سیاسی اور سماجی ماحول میں زندگی گزاری اس کا بنظر غائر مشاہدہ کیا اور اپنے مشاہدے کو فن کارانہ انداز میں پیش کیا تھا ۔چناں چہ ہیر وارث شاہ کے اوراق میں معاصر سماج کی سچی تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔
سید وارث شاہ ؒکی شاعری نہ صرف ہمیں آپ کے عہد کی خبر دیتی ہے بل کہ آنے والے وقتوں کے متعلق بھی با خبر کرتی ہے۔آپ کی شاعری میں دنیا اور آخروی زندگی کے تمام اسرارو رموزپنہاں ہیں ۔آپ کی شاعری کو سمجھنے کے لیے پنجابی علم و ادب ، رہتل اور اس کے باسیوں کے مزاج کے متعلق آگاہی ضروری ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہیر وارث شاہ کے مطالعہ سے نہ صرف انسان کی ظاہری حقیقتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بل کہ اس کے باطن کی بھی عکاسی نظر آتی ہے ۔اگر ’’ہیر‘‘کا مطالعہ انسان کے مزاج پر گہرا اثر ڈالتا ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔حقیقت یہ ہے کہ وارث شاہ ایسے صوفی درویش تھے جنھوں نے ہیر کا قصہ لکھ کر بندے کو اس کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے اور سچے رب تک پہنچنے کی راہ دکھائی ہے،بقول میاں محمد بخش ؒ:

؂وارث شاہ سخن دا وارث نندے کون اونہاں نوں
Dr Izhar Ahmed Gulzar
About the Author: Dr Izhar Ahmed Gulzar Read More Articles by Dr Izhar Ahmed Gulzar: 17 Articles with 9696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.