پچھلی قسط کے آخری سطور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل سنت و جماعت نے نہ شیخ کو ان کے حق سے اوپر اٹھا کر ان کے بارے میں غلو
سے کام لیا نہ انہیں معصوم عن الخطا سمجھا، نہ انہیں قادر مطلق اور مختار
کل تسلیم کرکے شرک کے مرتکب ہوئے اور نہ ہی ان کی حق تلفی کی کہ انہیں امام
وقت، ولی اللہ اور صاحب کرامت بزرگ وغیرہ ماننے سے انکار کردیا۔
شیخ عبد القادر کی تعلیمات
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ مسلکی طور پر اصولا و فروعا حنبلی تھے اور
حنبلی بھی ایسے جو دعا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کا خاتمہ امام احمد بن
حنبل رحمہ اللہ کے مذہب پر کرے۔
چنانچہ انہیں کے مذہب پر فقہ کی تعلیم دیتے تھے ،جیسا کہ مشہور حنبلی امام
موفق الدین ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہم شیخ عبد القادر کی خدمت
میں ان کی زندگی کے آخری ایام میں پہنچے شیخ نے ہمیں اپنے مدرسے میں
ٹھہرایا وہ ہمارا خاص خیال رکھتے تھے کبھی تو وہ اپنے بیٹے یحی کو بھیجتے
کہ ہمارے لئے چراغ جلائے، کبھی وہ خود اپنے گھر سے ہمارے لئے کھانا بھیجتے،
فرض نمازوں میں وہی ہماری امامت کرتے، صبح کے وقت میں انکے سامنے زبانی
مختصر خرقی {فقہ حنبلی کی مشہور کتاب} پڑھتا {جسکی وہ شرح کرتے} اور شام کو
حافظ عبد الغنی ہدایہ نامی کتاب {فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ہدایہ مولفہ ابو
الخطاب} پڑھتے۔ [السیر ۲۰/۴۴۲، شذرات الذہب ۴/۱۹۹]۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شیخ اصولا و فروعا کٹر حنبلی تھے حتی کہ عقائد
کے بارے میں مذہب حنبلی کے اس قدر پابند اور اس کے لئے اتنے زیادہ متعصب
تھے کہ ایک بار یہاں تک کہہ گئے جو شخص امام احمد کے عقیدے کا حامل نہ ہو
اور اس کی اتباع نہ کرے وہ اللہ کا ولی ہوہی نہیں سکتا۔ [ذیل الطبقات
۱/۲۹۸، شذرات الذہب ۴/۱۰۰]۔
اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ آج جو لوگ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ
کو غوث و قطب مانتے ہیں ان کو قادر مطلق اور مختار کل تسلیم کرتے ہیں وہ
حضرات سعودی عرب کے علماء کو جو اصولا و فروعا حنبلی ہیں انہیں بے دین،
وہابی اور برے برے القاب سے کیوں نوازتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ انکا طریقہ ان
کے اپنے غوث کے طریقہ سے کس قدر مختلف ہے۔ ہم یہاں شیخ کی تعلیمات پر بڑے
اختصار کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں۔
توحید
بندے کے ہر عمل کی روح توحید ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات و صفات اور
اس کے اعمال و حقوق میں تنہا مانا جائے، شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ
توحید کے بڑے داعی اور لوگوں کو توحید پر جمے رہنے اور اسے اختیار کرنے کی
دعوت دیتے تھے، چنانچہ غنیۃ الطالبین میں اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بیان میں
لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کے بارے میں خلاصہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کی
وحدانیت کا یقین رکھے، نیز یہ بھی یقین رکھے کہ وہ تنہا اور بے نیاز ہے، نہ
اس نے کسی کو جنا اور نہ خود کسی سے جنا گیا، نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ
اس کی مثل، وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے اپنی صفات و ذات میں یکتا ہے، کوئی اس کا
مددگار نہیں، شریک اور وزیر نہیں، کوئی اسے طاقت نہیں پہنچا سکتا، کوئی اس
کا ہمتا اور مشیر نہیں، الخ ۔ [غنیۃ الطالبین ص ۱۵۰ اردو]۔
اپنے ایک اور درس میں لوگوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں :
اے لوگو! کسی بھی مخلوق کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں، سب کے سب عاجز ہیں، مالک
ہوں یا مملوک، سلطان ہوں، یا مالدار و فقیر سب کے سب تقدیر الہی کے اسیر
ہیں ان کے دل اللہ کے ہاتھ میں ہیں انہیں جس طرح چاہتا ہے الٹ پھیر کرتا ہے
اس کی طرح کوئی بھی نہیں ہے وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ [الفتح
الربانی ص ۸۸]۔
کہاں شیخ کا یہ فرمان اور کہاں ان کی دہائی دینے والوں کا یہ دعوی کہ تمام
لوگوں کے دل شیخ عبد القادر جیلانی کے ہاتھ میں ہیں۔
اسی کتاب کی مجلس نمبر ۴۷ ص ۱۹۱، ۱۹۲ پر ہے کہ:
اے لوگو! شریعت کی اتباع کرو، بدعتیں ایجاد نہ کرو، شریعت کے پابند رہو اس
کی مخالفت نہ کرو،{اللہ اور اس کے رسول کی} پیروی کرو اور نافرمان نہ بنو،
اپنے اندر اخلاص پیدا کرو {ریا و نمود کرکے} شرک نہ کرو، حق تعالی کی توحید
بیان کرو اس کے دروازے سے دور نہ ہو، اسی سے مانگو اس کے علاوہ کسی اور کے
سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ، اسی سے مدد طلب کرو، اس کے علاوہ کسی اور سے مدد نہ
مانگو، اسی پر توکل و بھروسہ کرو اور اس کے علاوہ کسی اور پر توکل نہ کرو۔
اس قسم کے درزنوں توحیدی کلمات حضرت شیخ کی کتابوں میں موجود ہیں بلکہ
محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام دروس میں قلبی عبادات میں توحید و توحید
خالص پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ چنانچہ اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے کو
توحید پر جمے رہنے کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا: تقوی اور طاعت الہی کو لازم
پکڑو کسی سے نہ ڈرو اور کسی سے امید نہ رکھو، تمام ضروریات کو اللہ کے
حوالے کرو اسی سے ضروریات طلب کرو، اس کے علاوہ کسی پر بھروسہ نہ کرو، صرف
اللہ تعالی پر اعتماد رکھو، توحید کو لازم پکڑو، توحید کو لازم پکڑو، توحید
کو لازم پکڑو، اس لئے کہ ہر چیز کی جامع توحید ہے۔ [الفتح الربانی ص ۳۷۳]۔
اسی کتاب میں اپنے ایک شاگرد کو کامیابی کا ایک نسخہ بتلاتے ہوئے کہتے ہیں:
اگر تو فلاح و کامیابی چاہتا ہے تو اپنے دل سے مخلوق کو نکال باہر کر ، نہ
ان سے ڈر، نہ ان سے کوئی امید رکھ، نہ ان سے انسیت رکھ اور نہ ہی ان سے
مطئن ہو، بلکہ ہر ایک سے بھاگ، ان سے اس طرح نفرت کر کہ گویا وہ مردار ہیں،
اگر یہ کیفیت تیری درست ہوجائے گی تو اللہ کے ذکر سے تجھے اطمینان حاصل
ہوگا اور غیر اللہ کا ذکر تجھے مکروہ و ناپسند محسوس ہوگا۔ [مجلس ۱۴۱/۳۱]۔
ناظرین غور کریں اس توحید خالص پر، یہ کلمات مکمل طور پر اس بات کا پتہ دے
رہے ہیں کہ یہ کسی موحد ولی کامل کے دل کی آواز ہے۔
دوسری طرف ان حضرات کے طریقے پر ماتم کیجئے جنہوں نے شیخ کی ان تمام
تعلیمات کو لیجا کر انہیں کے ساتھ ان کی قبر میں پر دے مارا اور خود انہیں
کو معبود بنا لیا۔ الامان والحفیظ۔
اس سے بڑھکر شیخ مرحوم کی تعلیمات کی مخالفت اور کیا ہوگی، ان حضرات کی ان
بیہودہ حرکات کو دیکھ کر یقینا شیخ کی روح کہہ رہی ہوگی کہ ؎
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور بھی دل انکو جو نہ دے مجھ کو زباں غالب
اتباع سنت
شیخ عبد القادر نےاپنی کتابوں میں اور اپنی مجالس میں اپنے شاگردوں کو کتاب
و سنت پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ شیخ کے نزدیک کوئی بھی شخص جب تک کتاب
و سنت کے ظاہر کا پیروکار نہ بن جائے وہ کامیاب نہیں ہوسکتا، اس سلسلے میں
چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
ہر وہ شخص جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہیں کرتا [اس طرح
کہ] آپ کی شریعت کو ایک ہاتھ سے پکڑے اور آپ پر نازل شدہ کتاب کو دوسرے
ہاتھ میں لے تو وہ اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا بلکہ وہ ہلاک ہوگا ہلاک
ہوگا، گمراہ ہوگا گمرہ ہوگا۔ یہ دونوں [کتاب و سنت] اللہ تک پہنچنے کے لئے
راہنما ہیں، قرآن اللہ تک پہنچنے کے لئے تمہارا رہنما ہے اور سنت رسول اللہ
تک پہنچنے میں تیرا رہنما۔ [الفتح الربانی ص ۱۱۷، ۲۵ویں مجلس]۔
الفتح الربانی کی انتیسویں مجلس ص ۱۲۸ پر اپنے ایک شاگرد کو وصیت کرتے ہیں
: علیک بموافقۃ الشرع فی جمیع احوالک۔ ہر حال میں شریعت کی موافقت کو لازم
پکڑو۔
اسی کتاب کی انتالیسویں مجلس ص ۱۶۰ پر جہل اور جہل کے ساتھ عبادت کرتے اور
گوشہ نشینی اختیار کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
جب تک تو کتاب و سنت کی اتباع نہ کرے گا کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔
پھر اس کے فوراً بعد یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ کتاب و سنت کا علم کس طرح حاصل
ہو فرماتے ہیں:
بعض اہل علم نے کہا کہ جس کا کوئی استاد نہ ہو اس کا استاد ابلیس بن جاتا
ہے اس لئے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اور عمل کرنے والے علماء و مشائخ
کی پیروی کرو، ان کے بارے میں حسن ظن رکھو، ان سے سیکھو، ان سے اچھے ادب کے
ساتھ پیش آؤ ، اس طرح تم کامیاب ہوجاؤگے اگر تم نے کتاب و سنت کی اتباع نہ
کی اور نہ کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اہل علم کا ساتھ کیا تو تم کبھی
بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
اس قسم کے اقوال اگر نقل کئے جائیں تو بات طویل ہوجائے گی یہاں صرف اشارہ
کرنا مقصود ہے کہ شیخ رحمہ اللہ ہر حال میں اتباع کتاب وسنت کی دعوت دیتے
تھے اور ان صوفی حضرات پر سخت نکیر کرتے تھے جو اپنے اقوال و افعال میں سنت
کی پیروی سے دور تھے ۔ چنانچہ اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ:
اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی نسبت کو درست کرو، جو اللہ کے
رسول کی اتباع میں درست رو ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کی نسبت
بھی درست ہوگی البتہ بغیر اتباع کے تمہارا یہ کہنا کہ میں رسول اللہ کا
امتی ہوں تمہارے لئے یہ کسی بھی طرح مفید نہیں ہوسکتا، جب تم اللہ کے رسول
کی اتباع ان کے اقوال و افعال میں کروگے تو آخرت میں ان کا ساتھ نصیب ہوگا،
کیا تم لوگوں نے یہ فرمان الہی نہیں سنا :
[وَمَا آَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِيدُ العِقَابِ] {الحشر:7}
سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو۔ اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو۔
اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا سخت عذاب دینے والا ہے
"اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جا ؤ اور اللہ تعالیٰ
سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالی سخت عذاب والا ہے"۔
اس لئے وہ جس چیز کا حکم دیں اسے بجالاؤ جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ اس
طرح تم دنیا میں تو اللہ کے قریب اپنے دل سے رہوگے اور آخرت میں اپنے وجود
و جسم سے اللہ کے نزدیک ہوگے۔ اے زاہدو تم لوگ زہد اختیار کرنا نہیں جانتے
تم ذات و خواہش کے بارے میں تو زہد اختیار کرتے ہو البتہ اپنی رائے میں
آزاد ہوگئے ہو، [اللہ کے رسول کی ] اتباع کرو اور ایسے علماء و مشایخ کی
صحبت اختیار کرو جنہیں معرفت الہی حاصل ہو اور وہ اپنے علم کے مطابق عامل
بھی ہوں۔ [الفتح الربانی ص ۱۱۶ مجلس ۲۵]۔
شرک سے متنفر کرنا
حضرت شیخ نے جہاں توحید خالص خصوصاً عبادات قلبیہ پر توحید کو لازم پکڑنے
پر زور دیا ہے وہیں شرک سے لوگوں کو سختی سے متنبہ کیا ہے بلکہ اپنے عام
درسوں میں شرک اصغر سے اس سختی اور خوف ناک انداز میں متنبہ فرماتے تھے
گویا کہ وہ شرک اکبر ہے۔ ذرا آپ حضرات حضرت شیخ کی عبارات پر غور کریں۔
اے لڑکے تو کچھ بھی نہیں ، تیرا اسلام ابھی تک صحیح نہیں ہے، یاد رہے کہ
اسلام ہی وہ اصل ہے جس پر کلہ لاالہ الا اللہ کی بنیاد ہے، تو لا الہ الا
اللہ کا اقرار تو کرتا ہے لیکن اس اقرار میں جھوٹا ہے کیونکہ تیرے دل میں
باطل معبودوں کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی ہے اپنے بادشاہ سے تیرا ڈرنا اور
اپنے محلہ کے چودھری سے تیرا ڈرنا انہیں معبود بنالینا ہے۔ اپنی کمائی پر،
اپنی ذات پر اپنی طاقت و قوت پر، اپنی قوت سمع و بصر پر اور اپنی پکڑ پر
تیرا اعتماد انہیں معبود بنالینا ہے۔ مخلوق کے نفع و ضرر اور عطاء و منع پر
تیرا نظر رکھنا انہیں معبود بنالینا ہے الخ [الفتح الربانی ص ۷۴ مجلس ۱۵]۔
اس چیز کو ۲۰ویں مجلس میں اس طرح بیان کرتے ہیں:
آج تو اعتماد کر رہا ہے اپنے نفس پر، مخلوق پر، اپنے دیناروں پر، درہموں
پر، اپنی خرید و فروخت پر، اپنے شہر کے حاکم پر، ہر چیز کہ جس پر تو اعتماد
کرے وہ تیرا معبود ہے اور ہر وہ شخص جس سے تو خوف کرے، یا توقع رکھے وہ
تیرا معبود ہے اور ہر وہ شخص جس پر نفع و نقصان سے متعلق تیری نظر پڑے اور
تو یوں سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں اس کا جاری کرنے والا ہے تو وہ
تیرا معبود ہے۔ ص ۹۱۔
خود آگے چل کر ۲۶ ویں مجلس میں فرماتے ہیں:
اے وہ شخص جو اپنے مصائب کا شکوی مخلوق سے کرتا ہے، مخلوق سے تیرا شکوی
تیرے کس کام آئے گا یہ لوگ نہ تجھے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، جب
تو ان پر اعتماد کریگا تو گویا تو نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا۔ وہ اللہ
تعالیٰ کے دروازے سے دور لے جاکر اس کے غضب و ناراضگی کے گڑھے میں دھکیل
دیں گے اے جاہل تو علم کا دعوی کرتا ہے حالانکہ دنیا کو اللہ کے علاوہ کسی
اور سے طلب کرنا تیرے جاہل ہونے کی دلیل ہے۔ [صفحہ ۱۱۷]۔
شیخ کی کتاب الفتح الربانی اس قسم کے بیان سے پر ہے کاش کہ شیخ کی دہائی
دینے والے انہیں غوث و قطب کہنے والے اور انہیں قادر مطلق ماننے والے اس
کتاب کو سمجھ کر پڑھتے تو انہیں احساس ہوجاتا کہ وہ کسقدر گمراہی میں مبتلا
ہیں۔
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کا عقیدہ
یہ بات اس سے قبل گزر چکی ہے کہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ عقیدہ و
فقہ دونوں لحاظ سے حنبلی تھے، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا عقیدہ اشعری
و ماتریدی عقیدے سے بہت سی چیزوں میں مختلف ہے آج جو لوگ حضرت شیخ کو غوث و
قطب جیسے القاب سے یاد کرتے ہیں[1] وہ حضرت شیخ رحمہ اللہ کے عقیدے کے
مخالف ہیں۔ یہاں یہ بحث تفصیل سے نہیں رکھی جاسکتی ہم صرف چند اشارات سے
کام لیتے ہیں۔ حضرت شیخ کے عقیدے کے بارے میں جسے تفصیل درکار ہو وہ شیخ کی
کتاب غنیۃ الطالبین اور الفتح الربانی وغیرہ کا مطالعہ کرے۔ شیخ نے بڑی
وضاحت کے ساتھ اپنے عقیدے سے متعلق شاگردوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
'علیکم بالاتباع من غیر الابتداع ، علیکم بمذھب السلف الصالح ، امشوا فی
الجادۃ المستقیمۃ ، لا تشبیہ ولا تعطیل بل اتباعا لسنۃ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم من غیر تکلف ولا تطبع ولا تشدد ولا تمشدق ولا تمعقل یکلم ما وسع
من کان قبلکم'۔ الفتح الربانی صفحہ ۴۷، ۴۸، دسویں مجلس۔
ایک طالب علم کے لئے شیخ سعید بن مسفر القحطانی کی کتاب الشیخ عبد القادر
جیلانی و آراءہ الاعتقادیۃ و الصوفیۃ بڑی مفید کتاب ہے۔
خلاصہ یہ کہ شیخ رحمہ اللہ امام اہل السنہ امام احمد بن حنبل کے عقیدے پر
تھے اور امام احمد رحمہ اللہ کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے عین مطابق تھا۔
ہمارے ہند و پاک کے لوگ کئی جگہوں میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے
اس عقیدہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
سلسلہ جاری ہے |