جوں جوں مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی
شدید اختیار کرتی جارہی ہے ۔ بھارتی حکمرانوں کے تیور بدلتے جارہے ہیں ۔ اس
کی وجہ شاید یہ ہے کہ بھارت نے حال ہی میں امریکہ سے ایک ایسا دفاعی معاہدہ
کیا ہے جس میں دونوں ملک نہ صرف ایک دوسرے کے دفاعی اثاثے استعمال کرسکتے
ہیں بلکہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ بھی دیں گے ۔ چونکہ امریکہ ٗ چین
کی ابھرتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت سے خائف ہے اس لیے جنوبی ایشیا میں
بھارت کو امریکی مفادات کا نگران بنا کر وہ چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا
چاہتا ہے لیکن بھارت اس امریکی حمایت کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا
ارادہ رکھتا ہے ۔ نریندر مودی نے روس سے اربوں ڈالر کے جنگی ہتھیار حاصل
کرنے کے بعد امریکہ کو بھی اپنے دام میں پھانس لیا اور پاکستان کو دفاعی
پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ سعودی عرب پاکستان کاپکا دوست تھا مودی نے اس دوستی
میں بھی کچھ اس طرح سے رخنہ ڈالاکہ سعودی شاہ سلمان نے انہیں سعودی عرب کا
اعلی ترین سول ایوارڈ دیا کشمیرمیں بھارتی فوج کے مظالم پر سعودی حکمران
بالکل خاموش ہیں ۔ گزشتہ دنوں ایرانی صدر سے نواز شریف نے ملاقات کرکے
کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے ثبوت دکھائے ۔جواب میں ایرانی صدر نے
کشمیر پر کسی ردعمل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یہ فرمایا کہ ہم پاکستان کی
اقتصادی راہداری میں شرکت کے متمنی ہیں گویا ایران بھی اب بھارت کے خلاف
زبان کھولنے سے کترا رہا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ افغانستان میں امن کی جتنی
فکر پاکستانی حکمرانوں کو ہے اتنی تو افغان حکمرانوں کو بھی نہیں ہے ۔لیکن
افغانی صدر بھی پکے ہوئے پھل کی طرح نریندر مودی کی جھولی میں جاگرے ہیں
۔نریندر مودی کا جادو دوبئی اور جاپان پر چل چکا ہے وہ بھی مودی کی زلف کے
اسیر ہوچکے ہیں ۔ گویا پاکستان ہر طرف سے دشمنوں میں گھر چکا ہے ۔اب کشمیر
میں اڑی کے مقا م پر بھارتی فوج کے ہیڈکوارٹر پر حملہ کا بہانہ بنا کر
بھارتی حکومت عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی سے
نہ صرف ہٹانا چاہتی ہے بلکہ یہ ثابت کرنے کی ہر ممکن جستجو کر رہی ہے کہ
حملے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے جوابا بھارتی حکمران پاکستان کے کسی بھی
حصے میں دہشت گردی یا محدود جنگ کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔جس کا نوٹس لیتے
ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ پاک فوج ہر قسم کی بھارتی جارحیت
کا موثر جواب دینے کے لیے بالکل تیار ہے ۔ ان حالات میں جبکہ بھارتی فوج
پاکستان پر یلغار کرنے کے لیے بہانہ تلاش کررہی ہے اس وقت قومی یکجہتی اور
اتفاق و اتحاد کی جس قدر ضرورت ہے وہ شاید پہلے نہ تھی ۔ ہمارے ناعاقبت
اندیش سیاست دانوں (جن میں بطور خاص ڈاکٹر طاہر القادری ٗ عمران خان ٗ شیخ
رشید ٗ الطاف حسین پیش پیش ہیں) نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ وہ ملک میں
اتفاق و اتحاد کی فضا قائم نہیں رہنے دینی ۔ڈاکٹر طاہر القادری جب بھی
پاکستان تشریف لاتے ہیں تو ان کی زبان حلق سے باہر ہی لٹکتی رہتی ہے وہ
طوفان پیداکرکے پورے ملک کوانتشار کا شکار کرنا چاہتے ہیں ۔اب وہ پاکستان
کو بدنام کرنے کے لیے بین الاقوامی عدالت اور انسانی حقوق کی تنظیم کے
ہیڈکوارٹر تک جا پہنچے ہیں۔یہ وہ وقت ہے جب وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز
شریف کشمیریوں کا مقدمہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لڑرہے ہوں گے۔گویا
ڈاکٹر طاہر القادری کو نہ کشمیریوں کی جدوجہد سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی
پاکستان کی بدنامی کا خوف۔ وہ اپنا الو ہر صورت سیدھا رکھنے میں مہارت
رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں فتنہ پرورشخصیت کہاجاتاہے۔ عمران خان اپنی
زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ قانون بنانا چاہتے ہیں۔وہ پاکستانی ریاست کے
سپریم کورٹ سمیت کسی ادارے کو نہیں مانتے لیکن نریندر مودی کو بھارتی وزیر
اعظم ضرور مانتے ہیں اور بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے قاتل کے ساتھ ہنس
ہنس کر باتیں کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سرحدوں پر
بھارتی فوج یلغار کے لیے تیار کھڑی ہے اور عمران پورے پاکستان سے اپنے
جیالوں کو لے کر اس وزیر اعظم کے گھر پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
گویا ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان مودی کے نمائندے بن کر پاکستان میں
انتشار پھیلانے کی مکمل کوشش میں مصروف ہیں۔نفرتوں کے بیج اگر دلوں میں
اگنے لگے تو ملک کو شام بنتے دیر نہیں لگتی۔ اور یہ فریضہ عمران اور ڈاکٹر
طاہر القادری نہایت مہارت سے انجام دے رہے ہیں ۔باہم دست و گریبان ہو نے
والی قوم میدان جنگ میں پاک فوج کی مدد کیسے کرے گی ۔ ایک بزرگ نے تحریک
انصاف میں بغاوت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا جو شخص اپنی بیوی اور پارٹی کو
نہیں سنبھال سکتا وہ پاکستان کو کیسے سنبھالے گا ۔ یہ وقت احتجاج اور دھرنے
کاہرگز نہیں ہے اس طرح تحریک انصاف اور ن لیگ کے کارکنوں میں تصادم کا شدید
خطرہ ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو نقصان عوام کا ہی ہوگا۔عمران خان اور شیخ
رشید موقعہ سے حسب روایت کھسک جائیں گے۔ عمران خان اور ڈاکٹر قادری کے خلاف
پارلیمنٹ اور دیگر سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچانے کے ضمن میں عدالت نے
ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کررکھے ہیں لیکن ہماری پولیس کو نہ جلسے کرتے ہوئے
عمران دکھائی دے رہے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر طاہر القادری ۔ یہ دو نوں افراد
ایک بار پھر توڑ پھوڑ اور مار دھاڑ کے جرم کاارتکاب کرنے کے لیے تیار نظر
آتے ہیں۔اگر عمران خان کے پاس واقعی نواز شریف کی کرپشن کے ثبوت ہیں تو
انہیں وہ ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کرنے چاہیئں۔ اگر سپریم کورٹ بھی عمران
کے ثبوتوں کو قابل اعتبار نہیں سمجھتی تو پھر انہیں اپنی جنگ پارلیمنٹ تک
ہی محدود رکھنی چاہیئے ۔لیکن ہر وقت سڑکوں پر آنے کی دھمکیاں دینے سے
انتشارکے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتااور یہ کام کرکے عمران خان بھارتی وزیر
اعظم نریندر مودی کے ایجنڈے کی تکمیل کررہے ہیں ۔ |