عدلیہ کی تاریخ کا غیر منصف مزاج جج افتخار محمد چوہدری

کہا جاتا ہے کہ انصاف کا سب سے زیادہ قتل عدالتوں میں ہوتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں جو میں آپ سے شیئر کرنے جا رہا ہوں۔ پوری عدالتی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ۔ میں جو بات کرنا چاہتا ہوں وہ عدلیہ کے غیر منصف مزاج جسٹس افتخار چوہدری کے حوالے سے ہے ۔ میں اپنی طرف سے کچھ نہ بھی کہوں تو یہ حقیقت ہے کہ 3 نومبر 2007ء کو صدر پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کر کے افتخار محمد چوہدری کو ہٹایا ۔ معروف وکلاء چوہدری اعتزاض احسن ، سردار لطیف کھوسہ ، علی احمد کرد، منیر اے ملک، حامد خان اور دوسرے وکلاء نے عدلیہ بحالی کی بھرپور مہم چلائی ۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 16 مارچ 2009ء کو افتخار چوہدری کو بحال کیا ۔ افتخار چوہدری نے ان سب کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ بحالی کے بعد افتخار چوہدری قربانیاں دینے والے تمام لوگوں کو ایک طرف کر دیا اور ارسلان افتخار چوہدری کے کارنامے سامنے آنا شروع ہو گئے ۔ ارسلان افتخار کی کرپشن کے بد ترین کیس آنے کے باوجود وہ ’’ شہزادہ ‘‘ اور 18 کروڑ عوام کا منتخب وزیراعظم سزا وار ، کس طرح؟افتخار چوہدری اتنے وسیب دشمن تھے کہ انہوں نے شجاع آباد کے اس سرائیکی سول جج کو بھی بے عزت کیا ، جس نے عدلیہ بحالی کے دوران بطور احتجاج استعفیٰ دیدیا تھا ۔ لیکن جب عدلیہ بحال ہوئی تو باقی سب بحال ہوئے ، سرائیکی سول جج ٹھوکریں کھاتا رہا ۔افتخار چوہدری 12 دسمبر 2013ء تک سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے عہدے پر براجمان رہے ، اس تمام عرصے میں عدلیہ کی ملازمتوں سمیت سرائیکی وسیب کو کوئی انصاف نہیں ملا ۔

افتخار چوہدری نے سپریم کورٹ میں پہلا حلف پی سی او جج کے طور پر لیا تھا ، لیکن بطور چیف جسٹس بحالی کے بعد انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے والے پچاس کے قریب ججوں کو عدالتوں سے نکال باہر کیا ۔ اس پر پوری دنیا نے اسے رنجیت سنگھ کی سکھا شاہی فیصلے سے تعبیر کیا کہ ایک جج جس جرم کا مرتکب ہوا، اسی جرم میں ’’ منصف‘‘ بن کر دوسروں کو سزا دے رہا ہے۔افتخار چوہدری وہ جج ہے جو صدر پرویز مشرف کے غداری کے اقدام کو نظریہ ضرورت کا نام دیکر تحفظ دیا ۔ پھر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے ’’نظریہ ضرورت ‘‘ کو دفن کرنے کا فیصلہ بھی صادر کیا ۔ افتخار چوہدری عدلیہ بحالی تحریک کے دوران کھانے ’’ پینے ‘‘ کا سامان اپنی گاڑی میں رکھتے تھے اور جب تقریر کیلئے گاڑی سے باہر آتے تو نہ ان کا منہ کھلتا نہ خوبصورت آنکھیں ۔ اس کے باوجود انہوں نے ایک اداکارہ کی گاڑی سے دو بوتلیں شراب برآمد ہونے کا از خود نوٹس لیا ۔ انہوں نے محروم سرائیکی وسیب کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے والوں کے خلاف کبھی از خود نوٹس نہ لیا لیکن دوسری معمولی باتوں پر اتنے از خود نوٹس لئے کہ اس کا نام از خود نوٹس پڑ گیا ۔ افتخار چوہدری کی بے انصافیوں کے حوالے سے میں نے ایک درخواست چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو بھیجی تھی ، جو کہ حسبِ ذیل ہے۔ واضح ہو کہ اس وقت چیف جسٹس بھی محترم افتخار چوہدری خود ہی تھے۔

بخدمت جناب چیف جسٹس صاحب سپریم کورٹ آف پاکستان
آداب و تسلیمات!
عنوان: درخواست بر خلاف افتخار محمد چوہدری
جناب عالی!
تحریر خدمت ہے کہ سپریم کورٹ میں اگر کوئی ایسا ادارہ موجود ہے جو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے غیر منصفانہ فیصلوں کے خلاف نوٹس لے تو میری درخواست ہے کہ افتخارمحمد چوہدری کے سرائیکی وسیب دشمن فیصلوں کا نوٹس لیکر ان کے خلاف کاروائی کی جائے ۔ میری مراد تین فیصلوں سے ہے جو حسبِ ذیل ہیں :۔
٭ سرائیکی وزیراعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کو سرائیکی صوبے کا نام لینے اور اسمبلی میں سرائیکی صوبے کے حق میں خطاب کرنے اور سرائیکی وسیب میں ترقیاتی منصوبے خصوصاً دریاؤں پر پل بنانے جیسے اقدام سے روکنے کیلئے ہٹایا گیا اور بہانہ سوئس بنک کو خط نہ لکھنے کا بنایا گیا ۔ حالانکہ آئین میں صدر کو استثنیٰ حاصل ہے اور خط نہ لکھنا کوئی غیر آئینی اقدام نہ تھا۔ مزید یہ کہ 30 سیکنڈ کی سزا ڈیزائن کرنا کریمنل مائنڈ سیٹ کے زمرے میں آتا ہے کہ 30 سیکنڈ کی سزا پلک جھپکتے پورے ہو گئے اور 18 کروڑ عوام کا منتخب وزیراعظم ’’ سزا یافتہ ‘‘ ہو گیا ۔ میں عدالت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ سینکڑوں بچوں کے قاتل جاوید لاہوری کی تو عدالت نے صفائی کا پورا موقع فراہم کیا لیکن منتخب وزیراعظم کو صفائی کا موقع دیئے بغیر ’’ سزا ‘‘ دے دینا کہاں کا انصاف ہے ؟ یہ سیاسی بیان نہیں ، میری دلیل ہے کہ افتخار چوہدری نے یہ فیصلہ بطور جج نہیں بحیثیت سرائیکی دشمن ایک ’’ چوہدری ‘‘ کے دیا ، اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے ۔
٭ میری دوسری گزارش یہ ہے کہ چند سال قبل میڈیکل انٹری ٹیسٹ میں سرائیکی وسیب کے ساتھ ظلم ہوا ۔ اسی سے نوے فیصد نمبر لینے والے رہ گئے اور لاہور کے ستر سے پچھتر فیصد نمبر لینے والے سٹوڈنٹ میڈیکل کالجوں میں داخل ہو گئے ۔ وسیب کے طلبہ صدمے سے پاگل ہو گئے اور انہوں نے دیواروں سے ٹکریں مار کر اپنے سر پھوڑے۔ ہائیکورٹ ملتان بینچ نے نوٹس لیا اور سیکرٹری تعلیم سے پوچھا کہ کیا جادو کی چھڑی تھی جس سے چند دن میں لاہوری طلبہ کو ذہین اور ملتان کے طلبہ بے وقوف ہو گئے؟ سماعت جاری تھی ، ملتان کے جج کا موڈ اور مزاج انصاف کی طرف مائل تھا کہ افتخار چوہدری نے وسیب دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ منگوا لیا پھر خود ہی کہا کہ انٹری ٹیسٹ پنڈورا بکس ہے ، اس میں گھپلے ہی گھپلے ہیں ، مکمل تحقیقات جان جوکھوں کا کام ہے ، لہٰذا فیصلہ یہ ہے کہ جو متاثرین عدالت انصاف کیلئے آئے ہیں ، ان کے نمبروں کی ری کاؤنٹنگ کرالی جائے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انصاف نہیں ، انصاف کا قتل تھا کہ ری کاؤنٹنگ تو فیس ادا کر کے عام حالات میں بھی ہو سکتی ہے ۔ افتخار چوہدری کا یہ اقدام انٹری ٹیسٹ کے نام پر کروڑوں ‘ اربوں کی کرپشن کرنے والے لاہوریوں کو بچانا اور سرائیکی وسیب کے طلبہ کا مستقبل تباہ کرنے کے سوا کچھ نہ تھا ۔ میری درخواست ہے کہ سپریم کورٹ کا اگر کوئی ایسا شعبہ موجود ہے جو اپنے ادارے کے بے انصافی کے خلاف کاروائی کا اختیار رکھتا ہو تو تعصب پر مبنی فیصلے دینے والے افتخار چوہدری کے خلاف ضرور کاروائی کرے۔
٭ میری تیسری گزارش یہ ہے کہ افتخار محمد چوہدری نے سی ایس ایس میں سندھ اربن اور سندھ رورل کا کوٹہ برقرار رکھا لیکن پنجاب میں زون سیکنڈ جو کہ محروم سرائیکی وسیب کیلئے تھا ، کو ختم کیا ۔ میرا سوال اتنا ہے کہ ایک ہی ملک ہے، ایک ہی آئین ہے اور ایک ہی سپریم کورٹ ہے پھر وہ کونسا ضابطہ ہے جو افتخار چوہدری کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ سندھ کے خلاف الگ فیصلہ دے اور سرائیکی وسیب کے خلاف الگ۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ فیصلہ بھی انصاف بلکہ سرائیکیوں کو مزید صدیوں تک غلام رکھنے کے سوا کچھ نہیں کہ آج سرائیکی وسیب سے کوئی ڈپٹی کمشنر ، کوئی ایس پی، کوئی کمشنر یا سیکرٹری نہیں ۔ سرائیکی وسیب پر باہرے سے آنے والے لوگ راج کر رہے ہیں ۔ عدلیہ میں بھی سب لوگ غیر سرائیکی علاقے پنجاب سے بھرتی کئے جا رہے ہیں ۔ سرائیکی وسیب کے لوگوں کو انصاف کے ادارے سے بھی انصاف حاصل نہیں تو وہ کہاں جائیں ۔ میری درخواست ہے کہ سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کے تعصب پر مبنی غیر منصفانہ تینوں فیصلو ں کو کالعدم قرار دے اور سرائیکی وسیب کو انصاف مہیا کرے۔
عرضے
Zahoor Dhareja
About the Author: Zahoor Dhareja Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.