سادگی بذات خود ایک حسن ہے
(Mufti Muhammad Waqas Rafi, )
موجودہ دور میں گھر ہو یا سڑک ، کالج ہو یا
دفتر ، پارٹی ہو یا کوئی دوسری تقریب ہر جگہ نوجوانوں میں فیشن اور سجنے
سنورنے کا رجحان بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ قیمتی لباس کو آج کل کے دور میں
امارت کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ مہمانوں کی خاطر تواضع بھی ان کی ظاہری ٹیپ
ٹاپ ہی کو دیکھ کر کی جاتی ہے ۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے اپنی
اصل کھودی ہے ؟ ہمارے سامنے کسی کے ذاتی اوصاف و کمالات کچھ اہمیت نہیں
رکھتے ؟ کیا ہم محض دکھلاوے کی چاہ میں سرگرداں پھررہے ہیں ؟ یہ تمام
سوالات قابل غور ہیں۔
آج کل کے نوجوانوں کو اگر کسی تقریب میں جانا مقصود ہو تو ہفتہ بھر قبل ہی
ذہن پریشانیوں کی آماج گاہ بن جاتا ہے ۔ لباس ایسا ہو جو قیمتی بھی ہو اور
خوب صورت بھی ، پھر لباس سے میچ کرتے سینڈل بھی نئے ہونے چاہئیں ، جیولری
بھی قیمتی ہونی چاہیے ۔ اس فیشن اور باہمی نقالی کی دوڑ میں لڑکے لڑکیا ایک
ہی گھاٹ پانی پی رہے ہیں ۔ آپ اندازہ کریں کہ موجودہ دور میں سب سے زیادہ
استعمال کی جانے والی چیز ’’موبائل‘‘ ہے ، جس کا استعمال کبھی ضرورت کے تحت
کیا جاتا تھا مگر اب تو فقط یہ فیشن کا ایک سیمپل بن کر رہ گیا ہے ۔
سجنے، سنورنے اور فیشن شو کو ٹی وی ، اخبار ، رسالے اور فلموں میں دکھایا
جاتا ہے جنہیں دیکھ کر نوجوان بھی اسی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ بازاروں
میں مختلف اشیائے سنگھار ، میک اپ کے لوازمات اور لباس مشہور ماڈلز اور
ہیرو ، ہیروئن کے ناموں پر فروخت کیے جاتے ہیں ، جنہوں نوجوان لڑکے اور
لڑکیا ں نہایت ہی جوش و خروش کے ساتھ خریدتے ہیں۔
اکثر اوقات ان فیشنوں کے وبائی امراض میں مبتلا لوگ گھر کی خستہ حالی کو
بھی فراموش کردیتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسری انتہائی اہم ضروریات کو بھی
پس پشت ڈال دیتے ہیں اور چار و ناچار اپنے بے جا فیشن کی بہر صورت تکمیل
کرنے کو لازمی سمجھتے ہیں ۔ بلکہ آج کل کی تو بیشتر لڑکیا ں محض اپنے فیشن
کی تکمیل کی خاطرہر طرح کی ملازمت بھی کرتی ہیں اور اسی کی خاطر سڑکوں کی
خاک بھی چھانتی ہیں۔
فیشن کا یہ مرض فقط انسانی ذات تک ہی محدود نہیں بلکہ اب تو گھروں کو سجانے
اور سنوارنے کے فیشن نے بھی لوگوں کو ادھ مرا کردیا ہے ۔ بڑھتی ہوئی
مہنگائی اور محدود تنخواہوں میں دوسروں کی نقالی کا جنون راتوں کو بے خواب
کرنے لگتا ہے ۔ شاید ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اپنے اوپر مصنوعی لوازمات کا
بوجھ لاد کر فیشن ایبل بن جانے سے ہم خوب صورتی کے زمرے میں شامل ہوجائیں
گے حالانکہ یہی ہم سب کی سب سے بڑی بھول ہے۔بھلا صحراکے پیاسے کو کون
بتلائے کہ دور سے نظر آنے والے چمکتے ذرّے آپ نہیں محض سراب ہوتے ہیں ۔
ہم ٹی وی ، اخبار اور رسالوں میں سجنے ، سنورنے کے کرداروں کو دیکھ دیکھ کر
ان جیسا بننے کی کوششوں میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں، حالاں کہ یہ کتنی
بڑی حماقت اور نادانی کی بات ہے ۔ ہم کیوں فراموش کرجاتے ہیں کہ ان لوگوں
کا فیشن کرنا ان کی اپنی ذاتی ایک ضرورت یا مجبوری ہے ۔ اگر وہ اس میں
گلیمر نہیں پیدا کریں گے تو لوگ انہیں ذوق ق شوق سے نہیں دیکھیں گے ۔ لان ،
گاڑیاں پارٹیاں ، سجاوٹ ، جاہ و حشم ناظرین کو دکھلانا ان کی پہلی مجبوری
اور ان کی بنیادی ضرورت ہے تاکہ ہم ان کے پروگرام دیکھنے اور ان کے رسائل
خریدنے کی طرف ہمہ تن مائل ہوسکیں۔
موجودہ دور میں ہم میں فیشن کی یہ مہلک ترین بیماری پھیلنے کی سب سے بڑی
وجہ مذہب سے دوری ہے ۔ دوسری بڑی وجہ حرص و ہو س بھی ہے اور تیسری بڑی وجہ
دوسروں کی نقالی کا زور ہے ۔
زندگی خواہشات کا ایک ایسا دائرہ ہے کہ جس میں انسان مقید ہے اور یہ
خواہشات روز افزوں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں ۔ ایک خواہش کی تکمیل پر دوسری
خواہش اس کی جگہ لے لیتی ہے ، دوسری کی جگہ تیسری اور تیسری کی جگہ چوتھی
لے لیتی ہے اوریوں خواہشات کا یہ طویل سلسلہ زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا
ہے ۔علاوہ ازیں زندگی بذات خود ایک خواہش ہے ، زندہ رہنے کی خواہش ، دوسروں
سے آگے نکل جانے کی خواہش اور بے شمار خوشیاں حاصل کرنے کی خواہش……
انسان اپنی خواہشات کے حصول کے لئے دن رات ایک کردیتا ہے ۔ جب خواہشات
قبولیت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں تو زندگی مسرتوں سے ہم کنار ہونے لگتی ہے ۔
لیکن اگر اس کے برعکس خواہشات حسرت کی صورت میں تبدیل ہوجائیں تو انسان کی
زندگی دکھ اور کرب و الم کی دردناک تصویر بن جاتی ہے ۔ آج ہم بھی خواہشات
کے سمندر میں غوطہ زن ہوچکے ہیں ، بیرون ممالک کی تہذیب اور ان کی رنگینیاں
ہمیں مار ے ڈال رہی ہیں ۔ رہن سہن کی آسائشوں سے یس ہونے کے لئے ہماری
خواہشات ٗ قالینیں ، صوفے اور پردے غرضے کہ گھر بار کی سجاوٹ اور انہیں
سنوارنے کے لئے ہر چیز کی خواہش اور حسرت لیے ہوئے ہیں ۔ اپنی ذات کے متعلق
فیشن اور میک اپ ہمیں ہمہ وقت متفکر رکھتا ہے ۔
یاد رکھیں کہ سادگی میں آسانی اور خوب صورتی دونوں ہی مضمر ہیں ۔بلاشبہ
سادگی زندگی کو سہل اور دل کش بنا دیتی ہے، بالکل اس طرح کہ جیسے ایک کنول
اپنی حقیقت کو فراموش نہ کرتے ہوئے کیچڑ میں بھی جاذب نظر و دل کش نظر آتا
ہے ، اتنا حسین کسی قیمتی گل دان میں نظر نہیں آتا ۔ ٹھیک یہی فلسفہ انسانی
زندگی پر بھی خوب اچھی طرح صادق آتا ہے۔بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے
سادگی کو خود سے دور کر رکھا ہے، حالاں کہ سادگی بذات خود ایک حسن ہے۔
|
|