کچھ لوگ دوسروں کو نکما خیال کرتے ہیں اور
ان کے گمان میں وہ ہی سب کچھ ہوتے ہیں اپنے آپ کو حساس ثابت کرنے کے لئے
ٹوٹے گلاس کی کہانی بھی فیس بک کی نظر کرتے ہیں -
ایک صاحب جو فیس بک پر لکھنے والوں کو فیس بکی کہتے تھکتے نہیں نا معلوم ان
کی نظر میں دنیا کیا چیز ہے ماضی بعٰید کی اوراق پلٹنے سے معلوم ہوتا ہے کہ
جناب والا سے کراچی نیشنل اسٹیڈیم میں داخل ہوتے ہوئے ریڈیو پولیس والے نے
یہ کہ کر لیا کہ واپسی پر لے لینا-
آج کل جناب ایک چینل کے ساتھ منسلک ہے کبھی نون لیگ کے گن گاتے تھے کیوں کہ
پی ٹی وی پر حملہ کے دوران پی ٹی آئ کے کارکنان نے جناب کو بھی دھو دیا
تھا-
ماضی کو بھول کر یا لے دے کر آج کل خان صاحب کے گیت گانے میں دلچسپی رکھتے
ہیں مگر دل ہی دل میں یوم دفاع کے موقع پر جناب کا کہنا تھا ١٩٦٥ میں پہل
پاکستان نے کی تھی نمک حرام تو ہوتے ہیں یہ صحافی نما- وزیر اعظم کی جرنل
اسمبلی میں دبنگ تقریر اور موٹر وے پر لڑاکا طیارے دیکھے تو جناب کوئ نہ
ملا تو آج کا نشتر مولانا سمیع الحق صاحب پر چلا دیا لکھا سمیع الحق کو توپ
کے منہ پر باندھ کر انڈیا میں پھینک دیا جائے اس کا میں نے کرارا سا جواب
دیا تو جناب کے گھر سے ناراضگی کا پیغام سا ملا
مولانا سمیع الحق صاحب صرف ایک سیاسی فرد نہیں بلکہ تفسیر قرآن حدیث رسول
اور فقہ کے بہت بڑے استاد بھی ہیں حضرت کو قریب سے ٢٠١٤ میں دیکھا تھا
انتہائ سادہ انسان ہے بعد میں ایک طالب علم نے حدیث کے سبق میں مولانا سے
متعلق سوال کیا تو جواب میں قرآن و حدیث کی ٤٠ سال خدمت کرنے والے بزرگ
عالم دین نے فرمایا مولانا سمیع الحق صاحب تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ کی زندہ و جاوید تصویر ہے اللہ کی قسم تکبر ایسے لوگو ں کو چھو کر بھی
نہیں گزرتی ایک طرف قرآن و حدیث کے استاد دوسری طرف لفنگے صحافی نہ انکو
اسلام چاہئے نہ علماء دین نہ ہی ان لفنگوں کو پاکستان کی ضرورت ہے ایسے لوگ
نوکری اور پیسے کے سب کچھ کرسکتے ہیں- |