وزیراعظم نوازشریف کے اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی سے خطاب کے نتیجے میں یہ امید تو نہیں کہ دنیا کشمیر کے مسئلے کو حل
کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام کرے گی، تاہم اتنا ضرور ہے کہ مقبوضہ کشمیر
کے عوام پر بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کی روداد بیان کرکے
وزیراعظم پاکستان نے عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کی جو کوشش کی ہے وہ قابل
تحسین ہے۔ جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کا خطاب نہایت متوازن، فکرانگیز اور
کشمیریوں کے درد سے لبریز تھا۔ ان کے خطاب کو ان کے کٹر مخالفین نے بھی
سراہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے راہ نما اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا
کہنا ہے کہ وزیر اعظم نوازشریف کی تقریر جامع تھی اور انھوں نے کشمیر کے
حوالے سے پاکستان کے نقطۂ نظر کو اجاگر کیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ
نوازشریف کے ساتھ کئی اختلافات ہیں، لیکن کشمیر کے مسئلے پر تمام سیاسی
جماعتوں کا موقف ایک ہی ہے اور ان میں کوئی دو آرا نہیں ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی راہ نما اور سابق وزیرخارجہ حناربانی کھر کا اس ضمن
میں کہنا ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں
تقریر بہت ہی اچھی اور مناسب تھی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ
وزیراعظم محمد نواز شریف نے مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورت حال، پاکستان بھارت
تعلقات اور دہشت گردی سمیت تمام مسائل کو بڑے ہی احسن انداز میں پیش کیا۔
وزیراعظم نے پاکستان کی آواز کو بلند کیا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں جنگ کا
ماحول ہرگز نہیں چاہتے اور اگر ہم پر جنگی ماحول مسلط بھی کیا جا رہا ہے تو
پھر بھی ہم ایسے ماحول کو مسترد کرتے ہیں اور بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کو بھی عالمی برادری
کے سامنے انتہائی بہتر اور موثرانداز میں پیش کیا ہے اور اسے نہتے کشمیریوں
پر بھارتی افواج کے مظالم کے بارے میں کھل کر آگاہ کیا ہے۔ پاکستان کے موقف
کو ایک مرتبہ پھر واضح کیا گیا ہے کہ کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق، حق خود
ارادیت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ملنا چاہیے، حنا ربانی کھر کا
کہنا ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف نے افغان مہاجرین کے بارے میں بھی اپنا
موقف بہترین انداز میں پیش کیا اور عالمی برادری کو بتایا کہ پاکستان گذشتہ
کئی سالوں سے 30 لاکھ افغان مہاجرین کی خدمت کر رہا ہے اور انہیں دل و جان
سے سنبھال رہا ہے۔ آج حالات کی جو ضرورت تھی اس کے مطابق وزیراعظم پاکستان
محمد نوازشریف کی تقریر ایک موثر اور متوازن تقریر تھی۔
حزب اختلاف کی ان دو بڑی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم کی تقریر کی ستائش
بتارہی ہے کہ نوازشریف نے بڑے احسن انداز میں ہمارا قومی موقف پیش کیا ہے۔
یہ اس تقریر ہی کا اثر ہے کہ جنگی جنون میں مبتلا بھارتیوں کا اشتعال مزید
بڑھ گیا ہے۔ خاص طور پر پاکستان دشمنی پر ہر وقت کمربستہ بھارتی میڈیا
وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر
اجاگر کرنے پر سیخ پا ہو گیا ہے، جس کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے اقوام
متحدہ میں اپنی فوج کی زبان بولی۔ بھارتی میڈیا پر اینکرز اور تجزیہ کاروں
نے نوازشریف کی خارجہ پالیسی اور پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات پر شدید
تنقید کی۔ بھارتی حکم رانوں اور میڈیا کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ
پاکستان کے سویلین حکم رانوں اور فوج کو الگ الگ خانوں میں فٹ کرکے یہ ظاہر
کریں کہ پاکستان کی سویلین حکومت اور فوج کے درمیان مسئلہ کشمیر اور بھارت
سے تعلقات کے حوالے سے بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بھارتیوں کو یہ حقیقت
اب ہضم کرلینی چاہیے کہ جب معاملہ کشمیر کا ہو یا بات بھارت کی ہو تو
پاکستان کی حکومت، فوج، حزب اختلاف کی جماعتیں اور عوام کی بولی بھی ایک
ہوگی اور دل بھی۔
وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں کشمیر کی آزادی کے لیے جام شہادت نوش
کرنے والے نوجوان برہان وانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ برہان وانی کشمیر کی
تحریک آزادی میں نئی علامت بن کر سامنے آیا۔ اس خطاب میں برہان وانی کے ذکر
نے بھارتیوں کے تن بدن میں آگ لگادی ہے۔ اس کے ساتھ وزیراعظم نوازشریف نے
کشمیریوں کی طرف سے انتفاضہ کی بات کی۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے، جس کا مطلب ہے
کہ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کسی بیرونی مداخلت کا نتیجہ نہیں بل کہ
خالصتاً مقامی ہے۔ ایک سنیئر صحافی اور تجزیہ کار کے مطابق نواز شریف پہلے
اپنی تقاریر میں فلسطین کا ذکر آخر میں کرتے تھے مگر اس دفعہ انہوں نے شروع
میں ہی فلسطین کی بات کی، اس طرح وہ کشمیر میں جاری آزادی کی جدوجہد کو
فلسطین کے انتفاضہ سے تشبیہ دے رہے تھے جو بہت اہم بات ہے۔ وزیراعظم نے
کشمیریوں کے نئے ہیرو برہان وانی اور نوجوان نسل کی بات کر کے پرانی نسل کے
پاکستان کے ساتھ تعلقات کو الگ کردیا۔ اس طرح وزیراعظم نوازشریف نے سنجیدہ
طریقے سے عالمی برادری کو پیغام پہنچادیا ہے کہ کشمیر میں تحریک آزادی میں
پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے، یہ کشمیریوں کی نوجوان نسل کا انتفاضہ ہے جو
ہندوستان کے مظالم کی خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم نے کشمیر کا مسئلہ اور مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بھارت کی جانب سے
ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف اقوام عالم کی وجہ مبذول کرانے کے لیے نہ صرف
جنرل اسمبلی کا پلیٹ فارم بہت سلیقے سے اور بھرپور انداز میں استعمال کیا
ہے بل کہ دیگر مواقع پر بھی وہ اس مسئلے اور معاملے کو اجاگر کرنے کے لیے
کوشاں رہے ہیں۔ اب اقوام عالم پر منحصر ہے کہ وہ اس حوالے سے کس ردعمل کا
مظاہرہ کرتی ہیں۔ کشمیر اور فلسطین عالم اسلام کے دو سلگتے ہوئے مسائل ہیں۔
مسلم دنیا میں پھیلتی ہوئی انتہاپسندی اور تشدد کے پیچھے جہاں دیگر عوامل
کارفرما ہیں وہیں فلسطین اور کشمیر کے ایشوز اس صورت حال میں بنیادی حیثیت
رکھتے ہیں۔ دنیا خاص طور پر عالمی طاقتوں کی جانب سے ان ایشوز کو مسلسل
نظرانداز کرنے کا عمل افسوس ناک اور مسلمان نوجوانوں میں منفی ردعمل پیدا
کرنے کا باعث ہے۔
کشمیر کے حوالے سے معاملہ زیادہ سنگین اس لیے ہوجاتا ہے کہ یہ تنازعہ دو
ایسے ممالک کے درمیان ہے جو نہ صرف ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں بل کہ دونوں
جوہری قوت بھی ہیں اور ایک دوسرے سے دو بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ کشمیر کا
مسئلہ حل ہونے کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات
نارمل ہوں گے بل کہ ان دو ممالک کے مابین جنگ کا خطرہ بھی ٹل جائے گا۔ اس
کے ساتھ ہی یہ حل انتہاپسند قوتوں کو بھی کم زور کرے گا۔ اس تناظر میں
وزیراعظم کی تقریر دنیا کو جگانے کے لیے کافی ہے، بشرط یہ کہ دنیا کے اقوام
اس صورت حال کا ادراک کریں۔ |