کیا سرائیکی لیڈر صوبے کیلئے مخلص ہیں؟

روزنامہ خبریں 23 ستمبر 2016ء کی اشاعت میں سلیم صابر گورمانی نام کے کسی شخص کا مضمون ’’ کیا سرائیکی لیڈر صوبے کیلئے مخلص ہیں ؟ ‘‘ شائع ہوا ہے، لکھاری نے اپنے کالم کا جو عنوان لکھا ہے ، اس پر بات کو ایک طرف رکھ کر بات کو غزوہ بدر تک لے گیا اور صوبے کی مخالفت کرتے ہوئے سوال کر دیا کہ کیا آج ہماری اولاد اس قدر تعلیم یافتہ ہے کہ وہ اپنے حقوق لے سکے ؟ آگے وہ لکھتا ہے کہ کتنے سرائیکی لیڈر ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں ۔ اس بارے گزارش اتنی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ صابر گورمانی کے ہوتے ہوئے سرائیکی تحریک کے کسی کارکن یا ’’ لیڈر ‘‘ کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ عرب میں ابوجہل ان پڑھ تو نہ تھا ، تعلیم یافتہ تھا، بہت سی علوم حاصل کئے ہوئے تھے ۔ دوسری طرف انسانوں کو راہِ راست پر لانے اور انسانی حقوق کی تعلیم دینے والے سرکار رسالتمآبؐ اُمی تھے، ابوجہل قبیل کے لوگ اپنے لیڈر کی علمیت اور سرکار دو عالم ؐکے امی ہونے کا بطور خاص حوالہ دیتے تھے ۔ سلیم صابر گورمانی جو اپنی دھرتی ،اپنی وسیب اور اپنے ہی وسیب کے لوگوں کے حقوق کی مخالفت کر رہا ہے ، وہ در اصل اسی مکتبہ فکر کی سوچ رکھنے والے جاگیرداروں کا حاشیہ بردار ہے ، اس لئے وہ بات کو جس طرح لے جائے حیرانی نہیں ہونی چاہئے۔

سلیم صابر گورمانی سوال کرتا ہے کہ جو سرائیکی لیڈر کونسلر نہیں بن سکتے ، آگے کیا کریں گے؟ میں سلیم گورمانی سے پوچھتا ہوں کہ تم بتاؤ نواب مشتاق گورمانی ملک کے سب سے بڑے عہدوں پر تعینات رہا ، اس نے کیا کیا ؟ سلیم گورمانی مگرمچھوں کی بات کرتا ہے ، میرے نزدیک ہر وہ شخص سرائیکی ماں دھرتی کیلئے مگر مچھ ہے جو ماں دھرتی کی آغوش میں رہ کر اسے بچھو کی طرح ڈستا ہے اور ماں دھرتی کا خون چوستا ہے ، ماں دھرتی کا رزق کھاتا ہے اور پھر اس کے خلاف بک بک بھی کرتا ہے ۔ ہاں !وہی مگر مچھ ہے ، یہاں بڑے چھوٹے والا سوال ہی نہیں کہ وسیب دشمن وسیب دشمن ہے ، چاہے مشتاق گورمانی ہو یا سلیم گورمانی ۔ یہ بھی اﷲ کی شان ہی ہے کہ کوئی گورمانی اصغر گورمانی ہوتا ہے ، اسلم گورمانی ہوتا ہے اور کوئی سلیم گورمانی اور مشتاق گورمانی اور کوئی کھوسہ احمد خان طارق ہوتا ہے اور کوئی ذوالفقار کھوسہ ۔ میں سلیم گورمانی کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم بلا شک نہ مانو کہ ابو جہل والوں نے کبھی حق سچ کی بات کو تسلیم نہیں کیا ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سرائیکی تحریک کی عظیم الشان کامیابی ہے کہ مجھ جیسے ان پڑھ اورتم جیسے ’’ اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘‘ کی تحریریں خبریں ادارتی صفحات پر شائع ہو رہی ہیں ، کیا تم نے کبھی ایسا سوچا تھا ؟ میں تم کو بتاؤں کہ میں روزانہ شیشہ اٹھاتا ہوں ، اپنی شکل دیکھتا ہوں اور پھر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ماں دھرتی کے حوالے سے اس نے مجھے نام دیا ورنہ میری حیثیت ، میری اوقات اور میری شکل اس قابل تو نہ تھی ۔ اگر کبھی فرصت ملے تو تم بھی شیشہ دیکھ لیا کرو ، پھر جو مرضی آئے ماں دھرتی کے خلاف کہتے رہو۔

سلیم گورمانی لکھتا ہے کہ میرے خطے کے جتنے بھی لیڈر ہیں سب یا بلوچ ہیں یا سید ہیں ، پیر، کوئی اپنے آپ کو سرائیکی نہیں کہتا۔ سلیم گورمانی کی جتنی عقل ہے، اتنی بات کررہا ہے ۔ اسے معلوم نہیں کہ چور اور ڈاکو کی کوئی ذات نہیں ۔ سرائیکی وسیب کے سردار ، بھتار ، جاگیردار ، پیر اور وڈیرے کب سرائیکی لیڈر تھے ؟ یہ تو اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کو سرائیکی تحریک کے کارکن شاعر اور ادیب بھرے اجتماعات میں غدار ابن غدار ابن غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ تم با ت سرائیکی لیڈروں کی کرتے ہو ، مثال دھرتی کے غداروں کی دیتے ہو۔ تم کو مثال دینی چاہئے تھی کہ سرائیکی لیڈر سیٹھ عبید الرحمن، ریاض ہاشمی ،عاشق بزدار، تاج لنگاہ، ملک منظور بوہڑ، خواجہ غلام فرید کوریجہ، پروفیسر شوکت مغل، رانا فراز نون ، ملک خضر حیات ڈیال ،صوفی تاج گوپانگ، اکبر خان ملکانی ، حمید اصغر شاہین، عبدالمجید کانجو ، مظفر ہاشمی ،کرنل عبدالجبار عباسی و دیگر رہنماؤں میں سے کس نے خود کو سرائیکی نہیں کہا ؟ میں تو کہتا ہوں کہ دوسروں کی بات چھوڑو، اپنی بات بتاؤ کہ تم کیا ہو؟ میں یہاں اس بات کا ذکر کر دوں کہ نا خلف کی بات الگ ہے ، ورنہ ہر وہ شخص اسی ماں دھرتی کا بیٹا ہے جہاں وہ پیدا ہوا ۔ جیسا کہ جی ایم سید عربی نہیں سندھی لیڈر تھا ، ڈاکٹر قادر مگسی بلوچ نہیں سندھی لیڈر ہے ۔ کامریڈ حیدر بخش خان جتوئی ، سابق گورنر سندھ رسول بخش تالپور، حاکم زرداری ، آصف زرداری ، مصطفی خان جتوئی یہ سب نسلاً بلوچ ہیں ، ان کے گھر کی زبان سرائیکی ہے مگر سندھ ماں دھرتی پر پیدا ہونے کے باعث خود کو فخر سے سندھی کہلواتے ہیں ، یہی پور ی دنیا کا اصول ہے ،اس اصول کا عرب کے ابو جہل کو بھی علم تھا اور وہ اسے مانتا بھی تھا ، سرائیکی ماں دھرتی پر رہنے والے جو اس اصول کو نہیں مان رہے ، وہ ابو جہل سے بھی بڑھ کر ہیں۔ سرکارؐ مکے میں مکی اور مدینے میں مدنیؐ ، البتہ آج کا ابو جہل جہاں رہتا ہے ، وہ ابوجہل ہی ہوتا ہے کہ یہی اس کی بڑی شناخت ہوتی ہے ۔

سلیم گورمانی کہتا ہے کہ ’’ اساں قیدی تخت لاہور دے ‘‘ نعرہ بھی ہمارا اپنا نہیں ، در اصل یہ دیرہ اسماعیل خان کے لوگوں نے 1965-70ء کی دہائی میں لگایا تھا ۔ سلیم صابر گورمانی کو نہ تو سرائیکی تحریک کا پتہ ہے ، نہ سرائیکی مسئلے کا علم ۔ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ دیرہ اسماعیل خان اور ٹانک وغیرہ 9 نومبر 1901ء کو صوبہ سرحد کا حصہ بنائے گئے ۔ جبکہ دیرہ اسماعیل خان و ٹانک سمیت تمام سرائیکی خطہ 2 جون 1818ء کو رنجیت سنگھ کے سکھ گردی کے نتیجے میں پنجاب کے قبضے میں آیا اور سلطنتِ ملتان کے ہزاروں لوگ شہید ہوئے اور نواب مظفر خان شہید خاندان کے ساتھ جو لوگ باقی زندہ بچے ان کو قید کر کے لاہور لے جایا گیا اور وہ تخت لاہور کے قیدی کہلائے ۔ یہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ تاریخی حقائق ہیں ۔ سلیم صابر گورمانی جھوٹ کا سہارا لیکر کیا ’’ قیدی تخت لاہور دے ‘‘ کے مصنف جناب عاشق بزدار کے مقام و مرتبے کو کم کر سکتا ہے؟

عجب بات ہے کہ سرائیکی وسیب کا سب سے بڑا ناصح اور ہادی سلیم صابر گورمانی سرائیکی قوم کو نصیحت اور ہدایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میانہ روی پیدا کرو ، بھائی چارے کی فضا پیدا کرو اور اپنی اولاد کو اس قابل بناؤ کہ وہ اپنا کسی سے حق مانگیں نہ بلکہ چھین لیں ۔ ارے ! یہ کیا بات ہوئی ، ایک طرف میانہ روی ، بھائی چارے کی نصیحت اور دوسری طرف لڑائی جھگڑے اور حق چھیننے کی ہدایت؟ اس کا مطلب ہے کہ جناب کا دماغ شریف ٹھکانے نہیں ۔ ایک ہی جملے میں بعد المشرقین ، ایسے لوگوں کو دیکھ کر میں تو سب دوستوں سے کہتا ہوں کہ خدا وند کریم نے ہمیں پسماندگی دی ہے ، غربت دی ہے چلو روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لیں گے ۔ مگر دعا کرو اﷲ سئیں ذہنی پسماندگی اور ذہنی غلامی سے بچائے ۔

سب سے آخر میں سلیم صابر گورمانی کے مضمون کی پہلی لائن یعنی ’’ کسی بھی قوم بننے میں بہت وقت درکارہوتا ہے ‘‘ کے بارے میں کہتا ہوں کہ سلیم صابر گورمانی جیسی سوچ رکھنے والوں کی قوم کو ’’ قوم ‘‘ بنانے کیلئے وقت کے ساتھ ساتھ کاریگروں اور مستریوں کی ضرورت ہوتی ہے، مزدوروں کی ضرورت ہے، اینٹ گارڈر، ٹیئر، بجری ، سیمنٹ، سریئے ، بنانے کے اوزار ، وہولا ،رندا، آری ، ریتی ، امبو اور برمے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اپنا انتظام کریں ۔ جہاں تک عظیم سرائیکی قوم کی بات ہے تو اسے قدرت نے بنایا ہے اور اس کی زبان و ثقافت کو وہ عظیم شاہکار ہے جس پر اس کے مخالف بھی رشک کرتے ہیں ۔ سلیم صابر گورمانی اپنے لئے اپنے پسند کی قوم قابل مستری اور درکھان سے بنوائیں ، سرائیکی کی فکر نہ کریں کہ سرائیکی عظیم قوم ہزار ہا سالوں سے ہے اور قیامت تک رہے گی ۔
Zahoor Dhareja
About the Author: Zahoor Dhareja Read More Articles by Zahoor Dhareja: 2 Articles with 1229 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.