پاک وہندممکنہ جنگ کا چرچا
(M Yaqoub Ghazi, Islamabad)
آجکل پاکستان ہندوستان کے جنگ کو لیکر کافی
چرچا ہو رہا ہے کہیں ہندو پاکستان کو دھمکا رہے کہیں پاکستانی ہندؤں کو
دھمکا رہے ۔
کہیں پاکستانیوں کی دھمکی آمیز وڈیوز سننے کو مِل رہے تو کہیں گویا ہندو
اپنے مذہبی حق کی ادائگی کر تے ہوئے دھمکا رہے ۔
کہیں بھی جاؤ یہی سننے کو ملے گا جنگ،جنگ ، بس جنگ دکان سے خریداری کرنے
جاؤ تو جنگ ، تندور سے روٹی لینے جاؤ تو جنگ ، چپس لینے جاؤ تو جنگ ،
ہسپتال کسی مریض کی عیادت کرنے جاؤ تو جنگ ، خود بیمار ہوکر جاؤ تو جنگ ،میرے
عزیز ہسپتال کے شعبہ امراض قلب میں زیر علاج ہیں بتا رہے تھے ایک دو دِنوں
میں یہاں کافی لوگ مرے ہیں مجھے جو یاد پڑتا ہے وہ پہلے بھی ایک بار اِسی
ہسپتال کے شعبہ امراض قلب میں زیر علاج رہے تو اُن سے اتنے زیادہ اموات کا
نہیں سُنا شاید اب کے بار یہ لوگ جنگ ،جنگ بس جنگ کا سُن کر دِل ہار بیٹھے
؟
اس لفظ جنگ سے تھوڑا اُکتا کر کسی پارک کا رخ کرو تو جنگ ۔بھائی یہ جنگ ہے
کیا ؟ کوئی کھیل ہے یا کوئی گیم یا گھوڑ دوڑ ؟ نہیں بالکل بھی نہیں
پھر یہ کیا ہے ؟
اسکا مطلب سمجھنا چاہتے ہو تو افغانیوں سے پوچھنا جنہوں نے اپنے ملک کو
قریبا 30 سال سے جلتے دیکھا ابھی تک جل رہا بھائی یہ جنگ کیا ہے؟ یا
عراقیوں سے پوچھو یا پھر شامیوں سے یا پھر مقبوضہ کشمیر کے رہنے والوں
سےجنہوں نے جنگ دیکھا جنہوں نے ہجرت کی جنکے اپنے جدا ہوئے۔
جنکا وہ گھر بار جوانہوں نے تِنکے جوڑ کے بنایا اور جنگوں کی وجہ سے تباہ
کرا بیٹھے ۔جن گھروں کو بڑی محنت سے تیار کیا بموں سے اُڑتے دیکھا ۔جنہوں
نے اپنوں کو بھوک سے مرتے دیکھا سسکتے دیکھا ،بلکتے بچوں نے جن ماؤں اور
بہنوں کے ہاتھوں میں جان دیا ۔ اُن بےچاروں کو غیروں نے مسلمان سمجھ کر
مارا اَپنوں نے مرتد سمجھ کر مارا ۔جنکے اپنے ایسے الگ ہوئے کہ نہ تو مرنے
کی خبر ملی کے سوگ منائیں نہ ہی زندہ کہ کھبی ملاقات ہو ۔ جو بچ گئے تو
انہوں نے ایسے حالات کا سامنا کیا کہ وہ اپنوں کے غم سرے سے بھول گئے بس
انکو اپنے نفس کی پڑی وہ خاموش ایسے ہوئے کہ کھبی بھی بولنے کے قابل نہ رہے
اگر بولنے کے قابل رہے بھی تو زمین پر کوئی فریاد سننے والا نہیں ۔
جنگ اگر اچھی چیز ہوتی تو آپ ﷺ خود بھی دشمن سے آمنا سامنا کی دعا کرتے اور
اپنے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کو بھی ترغیب دہتے جبکہ آپﷺ کا فرمان
جوبخاری شریف میں ہے: دشمن سے جنگ کی تمنا نہ کرواور اللہ سے عافیت مانگو۔
ہاں اگر اُن سے تمہارا سامنا ہو تو پھر ثابت قدم رہو اور جان لو کہ جنت
تلواروں کی چھاؤں میں ہے(بخاری حدیث نمبر2801) |
|