مولانا رومی سے کسی نے پو چھا کہ معاشرہ یاقوم کیسے تباہ
ہوجاتی ہے انہوں نے جواب دیا کہ جب اچھائی اور برائی میں تمیز ختم ہوجائے
جب جھوٹ اور سچ کو ایک سمجھا جائے تو وہ معاشرہ یاقوم ختم ہوجاتی ہے۔یہ وہ
اصول ہے جو ہمیں اسلام نے بھی دیے ہیں لیکن ہم اسلام کے ان اصولوں پر عمل
کرنے کیلئے تیار نہیں ہے جبکہ مغربی معاشرہ جن کا اسلام سے تعلق تو نہیں
لیکن وہاں ان اصولوں پر عمل ہوتا ہے۔آج ہمارے معاشرے کی حقیقت یہ ہے کہ
یہاں جھوٹ اور سچ میں کوئی فرق نہیں ،اچھائی اور برائی کو ایک ہی ترازو میں
ناپا جاتا ہے،اس لئے ہم تباہی و بربادی کی طرف گامزن ہے۔آج ملک کا وزیراعظم
جن پر الزام نہیں بلکہ خو دانہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے کھربوں روپے
بیرونی ممالک پڑے ہیں جبکہ ان کے بیٹوں نے بھی ٹی وی چینلز کو مختلف انٹرو
یو میں اس بات کا اقرار الحمدو ﷲ کے ساتھ کیا ہے کہ ان کی کھربوں روپے کی
کمپنیا ں اور پراپرٹی لندن ، دبئی اور امریکا سمیت کئی ممالک میں ہیں لیکن
اس کے باوجود وہ یہ حساب دینے کو تیار نہیں کہ ان کے پاس یہ کھر بوں روپے
کہاں سے آیا ، پاکستان سے کیسے منتقل کیا، ان پر کتنا ٹیکس دیا ۔یہاں پر
میں یہ بھی وضاحت کر لوں کہ کاروبار کرنا یا پراپرٹی خریدنا کسی بھی قانون
یا دین میں جرم نہیں لیکن وہ کاروبار قانون اور دین کے مطابق ہو یعنی پیسہ
کمانا جائز ہے لیکن چوری اور ڈکیتی سے کمائی کرنا قانون اور دین میں منع
ہے۔اس طرح آپ ہر ملک میں کاروبار کرسکتے ہیں ، بنگلے بنا سکتے ہیں ،
پراپرٹی خرید سکتے ہیں لیکن قانون کے مطابق اپنے اس کمائی سے جو آپ نے ڈاکہ
یا چوری کرکے یا کسی کو قتل کرکے حاصل نہیں کی ہو ۔ تحریک انصاف اور عمران
خان کی جانب سے وزیر وزیراعظم میاں نواز شریف سے یہی سوال ہے کہ آپ ہمیں
صرف وہ کاغذات دکھا دے جس کے تحت آپ نے کمائی کی اور آپ نے وہ پیسہ قانون
کے مطابق بیرونی ملک منتقل کیا اور اس پر ٹیکس ادا کیا ۔ اب عام لوگوں کے
لئے تو یہ عام سے سوالات ہے کہ وزیراعظم کو ان سوالوں کا جواب دینا چاہیے
لیکن حقیقت میں یہ اتنے آسان سوال نہیں جتنے یہ نظر یا سمجھ میں آتے ہیں جب
ان سوالوں کا جواب دیا جائے گا تو بہت سے راز کھل جائیں گے ۔ تمام حقا ئق
سامنے آجائیں گے ۔ اب تو آسان بات یہ ہے کہ جو کھر بوں روپے کی پراپرٹی یا
کاروبار وزیر اعظم کے بیٹوں کے نام پر ہے جن کو بیس ، پچیس سال پہلے خریدا
کیاتھا اس وقت وزیر اعظم کے بیٹوں کی عمر بیس سال بھی نہیں تھی اور بیٹے اس
وقت تعلیم حاصل کررہے تھے لیکن چونکہ وہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے بیٹے
ہیں اسلئے وہ اتنے قابل تھے کہ کاروبار شروع کرنے سے پہلے اربوں اور کھر
بوں کما دیے اس لئے آج اس دولت کا وزیراعظم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ
پراپرٹی اور کاروبار تو میاں نواز شریف کے نام پر بھی نہیں ہے اسلئے
وزیراعظم ان کھر بوں کا حساب قوم کو کیوں دے بلکہ قوم کو نہیں عمران خان کو
کیوں دے ۔ قوم بقول نون لیگ کے میاں نواز شریف کے ساتھ ہے۔ عمران خان ویسے
شور مچا رہے ہیں ان کے سا تھ کوئی نہیں ، اب رائیونڈ مارچ میں قوم گھروں سے
باہر نہیں نکلے گی ، دیکھنا یہ مارچ بھی ناکام ہوگا لیکن حقیقت اس کے برعکس
ہے عوام چاہتی ہے کہ پانامالیکس میں وزیراعظم کا احتساب ہو اور وہ ان تمام
سوالوں کے جواب دے جو عمران خان کررہاہے ، عوام کو یہ بھی معلوم ہے کہ کھر
بوں روپے ان کے بیٹوں کا نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی کاروبار کیا ہے جس
میں ان کوکھربوں کا سونا اور ہیرے ملے ہو بلکہ یہ وہ دولت ہے جو میاں نواز
شریف نے پاکستان سے لے جاکر پراپرٹی اور کمپنیاں بنائی ہے۔قوم کی مجبوری دو
وقت کی روٹی ہے جس کو ہمارے ان حکمرانوں نے اتنے مسائل میں جگاڑ کہ رکھا
دیا ہے جس کی وجہ سے وہ دن رات محنت اور مشقت کرکے دو وقت کی روٹی بھی اپنے
بچوں کیلئے پوری نہیں کر سکتے لیکن اس کے باوجود بڑی تعداد میں لوگ ان کرپٹ
حکمرانوں اور مافیاز کے خلاف احتجاج کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں ، جہاں وہ
پشاور ، نوشہر ،ایبٹ آباد، راولپنڈی اسلام ، گوجرانولہ، سیالکوٹ ،لاہور
،کراچی یا کوئٹہ میں جلسہ جلوس یا احتجاج ہو بہت سے لوگ اس میں شرکت کرتے
ہیں جن کو مل کر لاکھوں نہیں بلکہ کروڑں تک تعداد پہنچ جاتی ہے لیکن ہمارے
حکمرانوں کو وہ نظر نہیں آتا بلکہ ان کی سوچ یہ ہے کہ لوگ گھروں سے باہر
اتنے تعداد میں نکلے جس سے پورا ملک جام ہوجائے ۔بیس کروڑ کی آبادی میں ایک
کروڑ ووٹ لے کر آپ حکمرانی کررہے ہیں جبکہ آپ کے خلاف ڈھائی تین کروڑ ووٹ
اپو زیشن جماعتوں کو پڑے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ حکمران ہے ، بحرکیف
احتجاج ایک علامت ہوا کر تا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب سوالوں کا جواب
قوم کو دے ۔قوم آپ سے جواب چاہتی ہے ۔قوم کو یہ بھی معلوم ہے کہ جواب آپ دے
ہی نہیں سکتے لیکن استعفا تودے سکتے ہیں اور اپنے کسی بیٹے یابیٹی کو وزیر
اعظم بنا سکتے ہیں تا کہ ملک کو جو70سال سے تباہ کیا گیا اس میں کچھ بہتر
روایات کا آغاز ہوجائے باقی اداروں کوتو پہلے سے تباہ کیا جاچکاہے ۔اداروں
سے امید رکھنا ہی بے وقوفی ہے جو میاں نواز شریف کا احتساب کرے گی ۔ عمران
خان کو بھی یہ معلوم ہے کہ آپ حساب اور سوالوں کا جواب بھی نہیں دیں گے
اورنہ ہی استعفا دیں گے لیکن انہوں نے عوام میں یہ شعور بیدار کرنی ہے کہ
کرپٹ حکمرانوں کے خلاف کھڑا ہونا ہی ملک کو تباہی سے بچا سکتا ہے اور جب تک
ان کرپٹ مافیاز کے خلاف آواز بلند نہیں ہوتا اور ان کا احتساب نہیں ہوتا اس
وقت تک غریب اور عام آدمی کی زندگی بہتر نہیں ہوسکتی ۔ رائیونڈ مارچ ملک کی
تاریخ میں بڑا مارچ ہوگا لیکن زیادہ ذمہ داری لاہور کے باسیوں پر عائد ہوتی
ہے کہ وہ گھروں سے باہر نکلے اور کرپٹ مافیاز کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ
کر لے ، باقی شہروں سے لوگ کم ہی آئیں گے وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر کسی کے
اپنے مسائل ہوتے ہیں جس میں سب سے بڑا مسئلہ پیسوں کا ہے جو عام آدمی تین
چار ہزار خرچ نہیں کرسکتا۔اس لئے زیادہ ذمہ داری لاہوریوں پر عائد ہوتی ہے
کہ وہ اس مارچ میں بھر پور شر کت کریں۔جو ثابت کرے گا کہ پاکستانی قوم ایک
زندہ قوم ہے وہ لندن ، یورپ یا ترکی میں احتجاج کرنے والوں پر صرف خوش نہیں
ہوتے بلکہ خود بھی احتجاج کرتے اور آواز بلند کرتے ہیں۔
|