والدین کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں

اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر خصوصی وعمومی نعمتوں کی بارش ہرآن ہرگھڑی جاری وساری ہے جس سے انسان ہر لمحہ لاکھوں کی تعداد مین نفع حاصل کررہا ہے ۔انسان پر ابتداء پیدائش سے لیکر موت تک ایسا کوئی لمحہ نہیں گزرتا جس میں وہ اﷲتعالیٰ کی لاتعداد نعمتیں استعمال نہ کررہا ہو یہ الگ بات ہے کہ کسی کوان نعمتوں کا احساس ہوتا ہے اور کسی کونہیں ۔لیکن ان تمام نعمتوں میں ایک بہت اہم اور ہردلعزیز نعمت والدین ہیں ۔اور اس میں کیا شک ہے ہرشخص اپنے والدین کے دلوں میں اپنے لئے محبت ،شفقت اور مہربانیاں محسوس کرسکتاہے ۔اگر یہ والدین نہ ہوتے تواس دنیا میں انسان کو اتنا پیار اور اتنی محبت کون دیتا ۔انسان کی تربیت کی اتنی فکرکون کرتا۔انسان کو گرمی سردی دھوپ بارش سے کون بچاتا ۔خاص کر انسان کی بچپن کی زندگی میں جب وہ ہرقسم کے سہاروں کامحتاج تھا وہ کھانے پینے کا قابل نہ تھا اس کو پیشاب پاخانے کی کوئی خبر نہیں تھی وہ اپنے اپ کو کسی ضررسے بچانے یا کسی فائدہ کو حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا معدہ کی خرابی،الٹی،کان درد،زکام ،بخار وغیرہ جیسے عوراض شب وروز کامعمول تھے۔یہ والدین ہی تو تھے جنہوں نے اس بچے کو ہنسایا اگرچہ خود روتے رہے ۔اپنی راحت اسکی راحت پر قربان کی جب تک بچہ نہ سوتا ممتاکو آرام کیسے آتا والد بیچار نے سخت گرمی اور دھوپ میں مزدوری کرتے کرتے اپنے اپکو تھکایا مگر بچے کو آرام وسکون پہنچا یا اسکے دودھ کی فکرکی دوائی،ڈاکٹر کی فکر کی ۔بچے کے کان میں اگر تھوڑا سابھی درد ہونے لگتا تو والدین بے چین رہتے ۔معلوم ہوا کہ والدین اﷲتعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہیں ۔کاش ہمیں اس کا احساس ہوجائے ۔جب تک والدین کے یہ احسانات باربار یاد نہیں کریں گے تو اس وقت تک ہمارے دلوں میں ان کے ساتھ احسان کرنے کا وہ کامل جذبہ پیدانہیں ہوگا ۔شریعت الہی نے والدین کے ساتھ احسان کرنے کی بار بار ترغیب دی ہے ۔لیکن مذکورہ بالا احسانات یااسکے علاوہ دوسرے ہزاروں احسانات جوذکر تو نہیں کئے گئے مگر خارج میں موجود ہیں ۔کو دیکھ کر قانون ،عرف اور شریعت سے قطع نظر عقل انسان کو اس پر اکساتی ہے اور اندر ہی اندر ترغیب دیتی ہے ۔کہ والدین کو مت ستاؤہمیشہ ان پر احسان کر و لیکن یورپ کا اندھا معاشرہ اور یورپی تہذیب وتمدن شاید اندر سے بالکل کھوکھلی ہے ۔کہ وہ عین اس وقت جب والدین کو اولاد کی خدمت کی ضرورت ہو والدین کو اولڈ ہاسٹل کے حوالہ کردیتے ہیں ۔اﷲجانے کہ یہ انصاف یا پھر انصاف کے نام پر یہ ظلم لوگ کہاں سے لیکرآئے ہیں ۔جہاں تک اسلام کی بات ہے تواس نے بڑے واشگاف الفاظ میں پوری اھمت کے ساتھ والدین کے حقوق ان کی خدمت اور ان پر احسان کرنے کو بیان کیا ہے ۔ایک مقام پر نہیں اورنہ ایک بار، بلکہ کئی مقامات پرکئی مرتبہ ،تکرار کے ساتھ بھی اور نئی نئی نوعیتوں کے ساتھ والدین کے ادب واحترام،حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک پر نہایت زور دیا ہے ۔چنانچہ سورہ احقاف میں اﷲتعالیٰ نے نبی نوع انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کے برملا اعلان فرمایا ہے ۔
"ووصینا الانسان بوالدیہ احسانا "
(ترجمہ)اور ہم نے انسان کواسکے والدین کے ساتھ حسن سلوک کا امر کیا ہے"یہاں امر کے بجائے وصیت کا صیغہ لایا گیا ہے جواس حکم میں مزید تاکید پیدا کرتاہے ۔کیونکہ وصیت میں حکم کی بجائے تاکید زیادہ ہے وصیت کا وقت بڑے اہتمام کا ہوتاہے ۔اسی طرح سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ "لاتعبدون الا اﷲوبالوالدین احسانا"
(ترجمہ)تم اﷲتعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت مت کر و۔اور والدین کے ساتھ نیکی کیا کرو۔اس ایت میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرنے کے بعد سب سے بڑی عبادت والدین کے ساتھ احسان کرنا ہے ۔یہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید میں مزید تاکید پیدا کی گئی ہے ۔اسی طرح سورۃ بنی اسرائیل میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا "وقضی ربک الا تعبدوا الا ایاہ وبالو الدین احسانا اما یبلغن عند ک الکبر احد ھا اوکلاھما فلاتقل لھما اف ولا تنھرھما "
ترجمہ :اور تیرے رب نے فیصلہ کیا ہے۔کہ تم ہرگز عبادت مت کرو مگر صرف اسکی اور والدین سے نیک رویہ رکھو ۔ان میں سے کو ئی ایک یا دونوں بڑی عمر کو پہنچے تو انکو اف تک مت کہو ۔اور نہ انہیں ڈانٹوں۔اف تک نہ کہنے کے مطلب یہ ہے کہ ان کو کسی طرح کی تکلیف مت پہنچا ؤ۔یہاں تک کہ زبان سے ایسا کلمہ نہیں نکلنا چاہیے ۔جو والدین کی تکلیف کا سبب بنے چہ جائیکہ کہ ان کو ہاتھوں سے تکلیف دی جائے ۔ان کو ڈانٹو مت بڑی عمر تک پہنچنے کے بعد وہ ایک گونہ بچگانہ ذھن کے حامل ہوجاتے ہیں ۔تو وہ معمولی معمولی باتوں پر بحث کرتے ہیں ۔معمولی سی بات سے بڑی بات بناتے ہیں ۔لیکن ان کو ہرگز مت ڈانٹوں کیونکہ جب تم بچے تھے ۔تو تم نے اس سے زیادہ ان کو ستایا ہوگا۔لیکن ان والدین نے تمھاری ہرادا کو سینے سے ملایا تمھاری ہاں میں ہاں ملاتے رہے ۔اب جب وہ خود بوڑھے ہوکر ان کا بچگانہ ذھن واپس لوٹا۔تویہ تمھارا متحان ہے ۔اگر ایک بات پچاس بار بھی پوچھتے ہیں ۔تو ہر بار خوش اسلوبی سے جواب دو تاکہ ان کا دل نہ ٹوٹنے پائے۔میں نے یہاں صرف ایک زاویہ اور ایک جہت کو تحریر کیا ۔طبائع مختلف ہونے کی وجہ سے والدین مختلف ہونگے ۔اسی طرح بڑھاپے میں ان کی صدا اور ادائیں بھی مختلف ہونگی ۔لیکن کسی بھی صورت میں ان کو تکلیف نہیں دینی اور نہ ان کو ڈانٹا ہے بہر صورت ان کی خوشی کو یقینی بناؤ ۔اورجو شخص والدین کے ساتھ اچھا رویہ رکھتا ہے ان کی خدمت کرتا ہے باہر دنیا میں نظر دوڑائے ایسا شخص کبھی مار نہیں کھائیگا۔اور کبھی ناکام نہیں ہوگا۔وہ والدین کی دعاؤں کو قدم قدم پر محسوس کرتا رہتا ہے لیکن یہ بات ذہن نشین ہوکہ جس طرح توحید کے بعد سب سے بڑی عبادت والدین کی خدمت ہے اسی طرح شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ بھی والدین کی نافرمانی ہے ۔چنانچہ بخاری روایت میں کبیرہ گناہوں کے ذکر میں ترتیب کچھ اسطرح رکھی گئی ہے ۔
الکبائر:الاشراک باﷲوحقوق الوالدین وقتل النفس و الیمین الغموس "
کبیرہ گنا ہ یہ ہیں ۔اﷲتعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک بنا نا ۔اور والدین کی نافرمانی کرنا۔قتل کرنا ۔اور یمین غموس یعنی جان بوجھ کر جھوٹی قسم اٹھانا اسی طرح فرمایا کہ رب کی رضا والد کی رضا میں اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے ۔یعنی جس نے اپنے والد کو ناراض نہیں کیا ۔بلکہ اسکو راضی کیا تو گویا اس نے اپنے رب کو راضی کیا ۔
چنانچہ ترمذی کی روایت ہے "رضی الرب فی رضی الوالد وسخط الرب فی سخط الوالد"(ترمذی)
اس حدیث سے والد کے حقوق اور اسکا احترام بالکل واضح ہے ۔اس لحاظ سے بھی کہ اسکے حقوق ادا کئے جائیں اور ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ حقوق کی ادائیگی سمیت والد کے ادب اور احترام بھی ملحوظ ہو اس طرح سے کہ وہ ناراض نہ ہو ورنہ رب ناراض ہوگا ۔گویا کہ اولاد پر شریعت نے یہ چیز لازم کردی ہے ۔کہ وہ والدین کا مزاج اور ان کے جذبات کو معلوم کرلینے کے بعد ان کی طبیعت مزاج کی اسطرح رعایت رکھیں کہ وہ ناراض نہ وہوں والدہ کا ذکر غالباً اس لئے نہیں کیا گیا ہے ۔کہ اولاد اور والدہ کے مابین بے تکلفی زیادہ ہوتی ہے اور عام معمول کی بے تکلفی جو ناراضگی کی باعث نہ ہوـــــــــــــ بے ادبی میں شامل نہیں بہرحال والدین کے احترام بھی ضروری ہے ۔اور ان کے حقوق کی ادائیگی بھی تاہم لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق "اس حدیث کی بنیاد پر والدین کی ایسی تابعداری جواﷲکی ناراضگی کا سبب ہوجائز نہیں لیکن ایسے موقعوں پر بھی والدین کی بات ماننا شرعا جائز نہ ہو ان کے بے اکرامی سے اجتناب ضروری ہے بلکہ پہلو تہی کرتے وقت حکمت وبصیرت سے کام لیا جائے اخر میں ایک بار پھر گذارش کرونگا کہ جن لوگوں کے والدین یا ان میں سے کوئی زندہ ہو تو اسے سعادت سمجھیں اور کبھی بھی ان کی خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی کا مظاہر ہ نہ کریں ۔اور جن لوگوں کے والدین بدقسمتی سے انتقال کے بعد باالکلیہ ان کی خدمت سے محروم ہوگئے بلکہ وہ نیک اعمال اور دعاؤں کے ذریعے سے اب بھی ان کی بہترین خدمت کرسکتے ہیں۔ایسی اولاد اس احساس کمتری کے ہرگز شکار نہ ہوں بلکہ میں تو یوں کہونگا کہ اب والدین کو ان کی خدمت کی ذیادہ ضرورت ہے ۔ذیل میں چند دعائیں جوقرآنی دعائیں ہیں اورخاص کروالدین کیلئے ہیں ان دعاؤں کے ذریعے سے اولاد والدین کے بہترین خدمت کرسکتی ہے "ربنا اغفرلی ولوالدی وللمؤمنین یوم یقوم الحساب "اے ہمارے رب مجھے ،میرے والدین اور ایمان والوں کی روز حساب مغفرت فرما دے ۔"رب ارحمھما کما ربینٰی صغیرا"اے رب دونوں (والدوالدہ)پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میرے تربیت کی ہے ۔ان دعاؤں کا ہرنماز کے بعد اور دعاؤں کے خاص مواقع پر اہتمام کرنا والدین کے حق میں انتہائی موثر ہے اور انکی اخروی زندگی کیلئے بے حد مفید ہے۔
Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 189761 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.