مودی سرکار کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے علاقائی
تعاون خطرے میں پڑچکا ہے ،بھارت کے انکار کے بعد 9اور 10نومبر کو اسلام
آبادمیں ہونے والی سارک کانفرنس ملتوی کرنا پڑی کیونکہ کسی بھی ایک ملک کی
عدم شرکت کے باعث سارک سربراہ کانفرنس نہیں ہو سکتی۔بنگلہ دیش،افغانستان
اور بھوٹان نے بھی بھارت سے ہاتھ ملاتے ہوئے سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت
سے انکار کیا،بھارت اس سے پہلے بھی چار مرتبہ سارک کانفرنس میں شرکت سے
انکار کر چکا ہے۔اس بار کانفرنس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی کی گئی
جس کا ذمہ دار صرف اور صرف بھارت ہے،پاکستان بجائے اس کے کہہ سارک ممالک کو
آمادہ کرتا اتنے میں ہی خوش ہو رہا ہے کہ اب جب بھی کانفرنس ہوئی تو
پاکستان میں ہوگی،بھارت نے اپنی ناکامی چھپانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول
جھونکنے کیلئے سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا مگر بھارت کا فیصلہ خود
اس کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ سارک ترقی اور خوشحالی کا فورم
ہے کسی ایک ملک یا طبقے کی افادیت کیلئے نہیں۔دشمن کھل کر سامنے آچکا اور
ہمیں اس کی چالوں سے بچ کر رہنا ہوگامودی کی اب مذمت نہیں مرمت ہونی
چاہئے،مودی سرکار نے ایک روز میں سارک کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے 3ماہ کے حالات ہیں،بھارتی فوج نے مقبوبہ کشمیر
میں مظالم کی انتہا کر رکھی ہے،نہتے کشمیریوں کو زندگی بھر کیلئے معزور کیا
گیا۔بچوں،بچیوں کو بینانی سے محروم کیا گیا،سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کیا
گیاجس کے بعد پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے بھارت کے مظالم کیخلاف
آواز اٹھائی،الفاظی جنگ کا سلسلہ دونوں طرف سے جاری رہا۔مگر بھارت نے پھر
بھی درندگی نہ چھوڑی اور مقبوبہ کشمیر میں مظالم جاری رکھے،حریت رہنماؤں کو
گرفتار اور نظر بند کیا گیا،بھارتی مظالم اور پاکستان کی مذمت کا سلسلہ
چلتا رہا اتنے میں وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب
کرنے کیلئے امریکہ روانہ ہوگئے۔وزیراعظم کے امریکہ میں قیام کے دوران
پاکستان اور بھارتی حکام کی طرف سے بیانات کا سلسلہ جاری رہا ،دونوں اطراف
سے وزیراعظم کو مشورے بھی دیئے جاتے رہے کہ اس مسئلے پر بات کریں اور اس
مسئلے پر نہیں،پھر وزیراعظم کی تقریر کا دن آن پہنچا،میری رائے کے مطابق
وزیراعظم اس سے بہت اچھی تقریر کر کے بھارتی دہشت گردی دنیا کے سامنے بے
نقاب کر سکتے تھے مگر وزیراعظم نے صرف کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کی
کچھ بات کی جس کے بعد مودی سرکار کو مرچیں لگیں اور اعلیٰ سطحی کے اجلاس
بلائے گئے۔پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کا پروگرام بنایا مگر بھارتی فوجیوں نے
ہی مودی کو بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ ہمارے مفاد میں
نہیں ،حالانکہ بھارتی فوج اگلے مورچوں پرآچکی تھی مگر پاکستان کی فوجی طاقت
دیکھتے ہوئے مودی سرکاری کو پیچھے بھاگنا پڑا،جنگ کا خطرہ ابھی ٹلا ہی نہیں
کہ مودی سرکار نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا شوشہ چھوڑ دیا اور بھارتی
سپریم کورٹ میں رٹ بھی دائر کر دی تھی مگر بھارتی سپریم کورٹ نے ہی مودی کو
کوئی لفٹ نہ کروائی اور یہ کہاکہ سندھ طاس معاہدہ کی فوری سماعت نہیں کی جا
سکتی ملک میں اور بھی مسئلے مسائل ہیں،اس پر بھی مودی کو ہزیمت کا سامنا
کرنا پڑا۔مودی نے بلوچستان اور گلگت بلتستان کا بھی شوشہ چھوڑا کہہ وہاں کہ
لوگ میرا شکریہ ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں پاکستان سے آزادی دلائی جائے مگر
مودی یہ بھول گئے تھے کہ بھارت میں آزادی کی سینکڑوں تحریکیں چل رہی ہیں
مگر پاکستان نے کبھی بھی اس بارے کوئی بات نہیں کی کیونکہ یہ بھارت کا
اندرونی معاملہ ہے۔جب مودی نے بلوچستان بارے بیان دیا تو دو چار دن بعد ہی
پورا بلوچستان سر سبز پرچم اٹھائے میدان میں آ گیا اور پاکستان زندہ باد
مودی مردہ باد کے نعرے لگائے گئے جس کا درد مودی کو ضرور ہوا ہوگا۔اور اب
سارک کانفرنس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا، بھارت ہمیشہ ہی سے سارک
کانفرنس کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہاہے ،بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث خطے کے
پسے ہوئے عوام مزیدپسماندگی کاشکارہوجائیں گے ۔بھارت کے منفی رویئے کا مقصد
دنیا کی توجہ کشمیر کی صورتحال سے ہٹاناہے حالانکہ سارک کانفرنس کے پلیٹ
فارم کا بنیادی مقصد خطے کے عوام کی معاشی حالت بہتر بناناہے۔بھارت نہ ہم
سے جنگ جیت سکتا ہے اور نہ ہی ہمار اپانی بند کر سکتا ہے،پاکستان کے پاس
بھارت کی ہر چال کا توڑ ہے،بھارتیوں کے پاس واش رومز ہیں نہ ہی رہنے کیلئے
چھت،سکول جانے کیلئے کپڑے ہیں نہ ہی کتابیں اور سوچ رہا ہے پاکستان کے ساتھ
جنگ کرنے کی۔بھارت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ پاکستان سے جنگ کر سکے مگر
پھر بھی بھارت نے پاکستان سے جنگ کی تو خود بھارت درجنوں ٹکڑوں میں تقسیم
ہو جائے گا۔ بھارت پاکستان سے میڈیا ، سمیت کئی محاذوں پر جنگ ہار چکا اور
پوری دنیا میں بدنام ہور ہا ہے۔بھارت نے اڑی حملے کے چند گھنٹے بعد ہی
الزام پاکستان پر لگایا کہ پاکستان حملے میں ملوث ہے،بھارتی میڈیا بھی
جھوٹے پروپیگنڈہ میں حکومت کے ساتھ ساتھ رہا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہ کر سکا اور الزامات بلبلے کی طرح پھٹ گئے۔بھارتی
آبی جارحیت اور جنگ کی باتوں کا سلسلہ کچھ عرصے تک جاری رہے گا اور اس کو
پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اعلیٰ سطحی کے
اجلاس میں بڑے بڑے فیصلے کئے۔کشمیریوں کو تنہا نہ چھوڑنے اور بھارتی جارحیت
کا منہ توڑ جواب دینے کا عزم کیا گیا اور اس میں کوئی شک نہیں ہم بھارتی
جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے کیونکہ بھارت سے جنگ کا تذکرہ ہوتے ہی ہم
میں ایک جوش و جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے سامنے بھارتی ہتھیار کچھ بھی
نہیں۔حالیہ دنوں میں ہونے والی بڑی پیشرفت کا بھی آخر میں ذکر ہونا چاہئے
اور وہ پاکستان اور روس کا ایک دوسرے کے قریب آنا ہے بھارت کی سفارتی چالوں
کے باوجود پاک روس جنگی مشقیں کامیابی سے جاری ہیں ،مودی سرکار کی پوری
کوشش تھی کہ روس پاکستان کے قریب نہ ہو مودی کی سوچ اور چالاکیوں کے برعکس
روس نہ صرف پاکستان کے قریب ہوا بلکہ پاکستان کی فوجی مشقوں میں شانہ بشانہ
ساتھ ہے۔مودی کو پاکستانی شہری ہونے کے ناطے صرف اتنا کہنا چاہونگا کہ
پاکستان پاک صاف ملک ہے اور اس کو تم نے میلی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی تو
تمہاری آنکھ نکال دی جائیگی،آبی دہشت گردی کی کوشش کی تو تمہارا پانی بند
کر دیا جائیگا،جنگ کی تو تم بچو گے نہ ہی تمہارے ساتھی نہ تمہاری
فوج۔پاکستان ہمیشہ کیلئے بنا ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا بھارت سمیت کوئی بھی
دشمن پاکستان کو تباہ نہیں کر سکتا۔
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پائندہ باد |