’’ماں ‘‘ کا نعم البدل کوئی نہیں
(Roshan Khattak, Peshawar)
’’ماں ‘‘ کہنے کو توتین حرفوں کا
مجمو عہ ہے لیکن اپنے اندر کل کائنات سمو ئے ہو ئے ہے۔ماں کی عظمت اور
بڑائی کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ ربِ جلیل جب انسان سے اپنی محبت
کا ذکر کرتا ہے تو اس کے لئے ماں کو مثال بنا کر پیش کرتا ہے۔ماں وہ ہستی
ہے جس کے آغوش میں پو ری دنیا کا سکون رکھ دیا گیا ہے اس لئے جب کسی کی ماں
کی فوت ہو نے کی خبر سنتا ہوں تو دل بے چین ہو جاتا ہے اور ماں کی محبت سے
محروم ہونے والے شخص کے ساتھ شریکِ غم ہو نے کو دل بے قرار ہو جاتا ہے اور
وہ بھی اگر کسی دوست کا دکھ ہو تو اس کے غم میں شریک ہو نا، تعزیت کرنا اور
دعا کرنا ایک لازمی امر سمجھتا ہوں۔
چند روز پہلے قبیلہ خٹک کے قابلِ فخر ایک بہادر پولیس آفیسر اختیار گل اور
عوامی خدمت سے سرشار ملک قدرت گل کی والدہ محترمہ کی انتقال کی خبر سنی تو
نہایت دکھ اور صدمہ سے دوچار ہوا ، ان کے آبائی گاوں ترکی خیل(کرک) سے دوری
اور انتقال کی اطلاع مین دیری نے جنازہ میں شرکت سے محروم کیا لہذا بعد
ازجنازہ پشاور سے ترکی خیل جانے کا پروگرام بنایا، میرے مہربان دوست جناب
جسٹس(ر) شاہ جی رحمان اور سابق کمشنراور معروف بیوروکریٹ شیر زادہ خان نے
پہلے سے ہی جانے کے لئے کمر باندھی تھی لہذا ہم تینوں اکھٹے عازمِ سفر ہوئے،
اگر چہ یہ سفر تعزیت کے لئے تھا اور ہمارے دل اپنے دوستوں کی غم کی وجہ سے
بوجھل ضرور تھے مگر شیر زادہ خان (جو کرک میں چالیس سال پہلے اسسٹنت کمشنر
رہ چکے تھے) کے کلام میں اتنی شگفتگی اور مٹھاس تھی کہ تین گھنٹے کا سفر
یوں گزرا جیسے چند لمحے ہی گزرے ہوں۔پکی سڑک سے جب ہماری گاڑی برساتی نالوں
اور گول مٹول پتھروں کو روندتی ہوئی اختیار گل کے حجرے پہنچی تو حجرے میں
کئی تعزیت کرنے والے غمزدہ چہرے موجود تھے۔جس میں خیبر میڈیکل کالج کے
پرنسپل جناب ڈاکٹر اعجاز صاحب بھی موجود تھے۔بات ماں کی پیار کی چلی تو سب
کی زباں پر ایک ہی حقیقت تھی اور وہ یہ کہ ماں کی پیشانی میں نور، آنکھوں
میں ٹھنڈک، باتوں میں محبت، دل میں رحمت، ہاتھوں میں شفقت ، پیروں میں جنت
اور آغوش میں جو سکون ہوتا ہے اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔اﷲ تعالیٰ نے شاید
اسی لئے ماں کی عظمت کا اعتراف اس طرح کیا ہے کہ خدا کی بندگی اور رسولﷺ کی
پیروی کے بعد اطاعت و فرمانبرداری اور خدمت گزاری کا سب سے بڑا درجہ اگر
کسی کو حاصل ہے تو وہ ’’ماں ‘‘ ہے۔ جس کو صرف محبت بھری نظر دیکھ لینے سے
حج کا ثواب ملتا ہے۔اختیارگل اور قدرت گل نے غمزدہ ہونے کے باوجود ہ حسبِ
روایت ہمارے مہمان داری میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی۔بحر حال ہم نے پشاور آنا
ہی تھا، سو براستہ صابرآباد ہم نے پشاور کی راہ لی۔ صابر آباد میں روزنامہ
’ عوامی دستک کے چیف ایڈیٹر اور اگلے الیکشن میں ایک مضبوط امیدوار کے طور
پر ابھرنے والے سعداﷲ خٹک نے چائے سے ہماری تواضع کی۔
واپسی کا سارا سفر خوشگوار تو تھا ہی مگر کڑپہ کے مقام پر کڑپہ فلور مِل کے
مالک ملک غنی الرحمٰن خٹک نے ہمارے لئے جس ریفرشمنٹ کا اہتمام کیا تھا ،وہ
یقینا قابلِ ستائش اور نا قابلِ فراموش ہے ، شام کو گھر پہنچے، تو تھکاوٹ
کے باوجود نیند نہیں آرہی تھی کیونکہ مجھے اپنی ماں یاد آرہی تھی جو مجھے
داغِ مفارقت تو کئی سال پہلے دے چکی تھی مگر اس کی شفقت ، اس کا پیار آج
بھی میری زندگی کا اثاثہ ہے، میں سوچتا رہا کہ واقعی ماں وہ ہستی ہے جس کا
کوئی نعم البدل نہیں،ماں ایک گھنے درخت کی مانند ہے جو مصائب کی تپتی دھوپ
میں اپنے تمام بچوں کو اپنی مامتا کے ٹھنڈے سائے تلے چھپا کے رکھتی ہے جیسے
ایک مرغی مصیبت کے وقت اپنے تمام چوزوں کو اپنے پروں میں چھپا لیتی ہے یہ
سوچ کر کے اسے چاہے کچھ ہو جائے مگر اس کے بچے محفوظ رہیں۔ ایسی محبت صرف
ماں ہی دے سکتی ہے۔ساری عمر بھی اس کے نام کی جائے تو بھی حق ادا نہ ہو، اس
کی ایک رات کا بدلہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔صبح اٹھا، تو قلم کاغذ اٹھایا،
ماں پر لکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ماں پر لکھنا کتنا مشکل کام ہے
کیونکہ ماں پر لکھنا سمندر کو کو زے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔ایک ایسا
سمندر جس کی گہرائیوں کا اندازہ کرنا بھی انسانی عقل سے بالا تر ہے۔ ہر
رشتے کی محبت کو الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے مگر ماں کی محبت ناقابلِ
بیان ہے۔ |
|