سوچ اور منزل
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
اخبار نے اپنے آخری صفحہ پر ایک کالمی
تصویر شائع کی ہے، جس میں ایک شخص بکھرے ، الجھے اور بڑھے ہوئے بالوں کے
ساتھ زمین پربیٹھا ہے، اس کی داڑھی سفید ہے، گریبان کا بٹن کھلا ہوا ہے،اس
نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کی زنجیر سے گھٹنوں کو حصار میں لیا ہوا ہے۔ اس
کے ایک ہاتھ پر ہتھکڑی لگی ہوئی ہے اور اس کی نگاہیں دور کسی چیز کو گھور
رہی ہیں، دراصل وہ خیالوں میں گم ہے، اپنے ماضی کو سوچ رہا ہے یا مستقبل کے
مناظر میں جھانکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شکل سے یہ کوئی جیب کترا لگتا ہے، یا
پھر نشہ کا عادی شخص کہ پولیس کے ہتھے چڑھ گیا، یا کوئی مخبوط الحواس کہ
جسے پولیس نے کسی جرم کے کھاتے میں ڈال دیا۔ مگر یہ سارے اندازے غلط ہیں،
یہ عام آدمی نہیں، یہ ایک بہت بڑا دہشت گرد ہے، کہ جس کے نام سے جنوبی
پنجاب کے جاگیر دار اور سرمایہ دار کانپتے تھے، اس کے ایک اشارے پر اس کی
مراد پوری کی جاتی تھی۔ اس نے زندگی کی سرگرمیوں کا آغاز تو عام آدمی کے
طور پر کیا تھامگر بہت جلد وہ راہ گم کر بیٹھا، ایسا بھٹکا کہ علاقے کا
بدمعاش بن گیا، پھر دنیا اسے ’چھوٹو ‘کے نام سے جاننے لگی، پھر وہ آگے
بڑھتا گیا اور کارواں بنتا گیا۔ اب وہ اکیلا نہیں تھا، اس کے ساتھی بے شمار
تھے، یوں چھوٹو گینگ معرضِ وجود میں آ گیا۔
چھوٹو کی کہانی دہرانے کی ضرورت نہیں۔ مگر اخبار میں شائع ہونے والی
تصویربھی ایک کہانی ہے، یہ معاملہ بھی ایک داستان ہی ہے کہ وہ ڈاکو کیسے
بنا؟ ایسی داستانیں معاشرے میں بکھری پڑی ہیں۔ ایسی کہانیوں پر فلمیں بنتی
رہی ہیں۔ ایک ایسا فرد جو جنگل کا بادشاہ ہے، جنگل کے قانون کا قائل ہے،
جنگل کی طرف اسے کیوں جانا پڑا؟ اس بات پر معاشرے کے دانشوروں کو سوچنا
چاہیے، تھنک ٹینک اداروں اور افراد کوا یسے مشورے دیں، جن پر عمل کرکے
معاشرے میں امن اور رواداری کو فروغ ملے، دوسروں کے احترام اور ان کے حقوق
کا خیال رکھا جائے۔ ادیبوں کو ایسی کہانیاں ترتیب دینی چاہیئں، جن سے ایسے
مسائل کو پیش نظر رکھا جائے، جو مسئلے یا برائی کو ابتداء میں ہی روکنے کا
راستہ نکالیں۔ قانون ساز ادارے ایسے قوانین مرتب کریں جن کی روشنی میں
دوسروں کا استحصال نہ کیا جائے۔ طاقت کا قانون نہ ہو، قانون کو ہاتھ میں
لینے کا تصور نہ ہو، قانون کے احترام اور اس پر عمل کا رواج ہو۔ عجب بات ہے
کہ کبھی جاگیر دار ظالم ہوتے ہیں اور غلام رسول (چھوٹو) جیسے لوگ مظلوم
ہوتے ہیں، اور جب چھوٹو طاقتور بن جاتے ہیں تو پھر جاگیر دار مظلومیت کا
روپ دھار لیتے ہیں، طاقت کا غلط استعمال ہی دراصل معاشرے میں عدم توازن
پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح جب طاقت کا توازن پولیس کے ہاتھوں میں منتقل ہوجاتا
ہے تو ایسی صورت میں ایک مرتبہ پھر یہی ڈاکو کسی حد تک مظلومیت کی ذیل میں
آجاتے ہیں۔
طاقت کے غلط استعمال کا انجام بھی ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے، جس نے بھی
اپنی طاقت کو ظلم کے لئے استعمال کیا وہ چھوٹو کی طرح خوار ہوا۔ تصویر میں
وہ عبرت کی تصویر بنا بیٹھا ہے، اب وہ عدالتوں کے رحم وکرم پر ہے، اس نے نہ
جانے کتنے بڑوں کو لوٹا ہوگا، قتل بھی کئے ہونگے، اس کی گینگ نے نہ جانے
کتنے گھروں کے چراغ گل کئے ہونگے۔ اس گینگ کے لگائے ہوئے زخم کب مندمل
ہونگے؟ اب معاملہ عدالتوں میں ہے، پولیس مقابلوں کا کلچر بھی عام ہے،
قاتلوں کو پھانسیاں بھی لگ رہی ہیں۔ وہ یقینا اپنے انجام کو تو پہنچ جائے
گا، مگر ان معاملات کا سدّ باب کب ہوگا؟ کون کرے گا؟ یقینا ان بڑی معاشرتی
برائیوں کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ سب سے پہلی درسگاہ
تو بچے کا گھر ہے، بدقسمتی سے اپنے ہاں بہت ہی کم گھر ایسے ہوتے ہیں، جہاں
تربیت کا مناسب بندوبست کیا جارہا ہو۔ تاہم کسی حد تک یہ کمی تعلیم پورا
کرتی ہے، مگر المیہ یہی ہے کہ سکولوں میں بھی تربیت نام کی کوئی چیز کم ہی
دیکھنے میں آتی ہے۔ اساتذہ کا معاملہ یہ ہے کہ بس پرانے اساتذہ کو یاد کر
کے دل بہلایا جاتا ہے، ورنہ اب تو شفیق ، محنتی اور دیانتدار اساتذہ ڈھونڈے
سے نہیں ملتے، ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اور رہ گئیں
حکومتیں اور اس کے ادارے، وہاں تو ہر کوئی اپنی دھن میں مگن ہے، اپنے پیٹ
سے آگے اُن کو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ ہے۔ جب تک
سوچ کی گاڑی پٹڑی پر نہیں چڑھے گی، منزل تک رسائی ممکن نہیں۔ |
|