مرزا غلام احمد قادیانی انگریز کا وہ
خود کاشتہ پودہ تھا جسے سامراج نے کانٹ چھانٹ کر ایک خاص سانچے میں ڈھال کر
ختم نبوت کے بالمقابل لا کھڑا کیا تھا۔اس نے اپنے باطل عقائد و نظریات کے
ذریعے سادہ لوح مسلمانوں کو ورغلانے کی کوشش کی ۔لیکن ختم نبوت کے جانثار
سپاہیوں ،مجاہدوں اور علما نے آگے بڑ ھ کر اس باطل فتنے کے سرغنہ مرتد کے
عقائد و نظریات کا مقابلہ کیا۔اور بلاخر پاکستان کی نیشنل اسمبلی سے
قادیانیت کو کافر قرار دے دیاگیا۔
7 ستمبر 1974کا دن پاکستان کی تاریخ کا وہ عظیم دن تھا جب اسمبلی سے
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا اعلان ہوا۔اعلان ہونا ہی تھا کہ اسمبلی
نعرہ تکبیر اﷲ اکبر ،تاجدار ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونج
اٹھی۔پورے ملک میں جشن کا سماں بندھ گیا ۔ جگہ جگہ مٹھائیاں تقسیم ہو رہی
تھیں۔خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔جھوٹی نبوت کا بت اوندھے منہ گر گیا پاسبان
ختم نبوت ایک طویل کوشش اور جدوجہد کے بعد کامیاب و کامران ہو گئے۔
ساری قوم میں خوشی کی لہر کیوں دوڑ پڑی گھروں میں بند طوفان باہرکیوں امڈ
پڑاآخر وہ کون سی وجہ تھی کہ ساری قوم نے یکجا ہو کر طاقت کے بل بوتے پر
صاحبان اقتدار کواتنا بڑا فیصلہ سنانے پر مجبور کر دیا اس سب کے پیچھے ایک
درد ناک تاریخ رقم تھی جو دشمن کے زوال کا سبب بنی۔
22 مئی 1974کا دن تھا جب نشتر میڈیکل کالج کے طلبا شمالی علاقوں کی سیر و
سیاحت کے لیے بذریعہ ٹرین ملتان سے پشاور کو روانہ ہوئے گاڑی مختلف منازل
طے کرتے ہوئے جب ربوہ ریلوے سٹیشن پر رکی تو حسب معمول چند قادیانی نوجوان
ٹرین کی بوگیوں میں داخل ہوئے اور قادیانیت کا لٹر یچرتقسیم کرنا شروع کر
دیا طلبا نے دیکھتے ہی ختم نبوت زندہ باد قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگانا
شروع کر دیے تھوڑی ہی دیر بعد ٹرین چل پڑی۔
29 مئی کو جب طلبا سیر و تفریح کے بعد واپس آ رہے تھے جیسے ہی ٹرین ربوہ
سٹیشن پر پہنچی تو سٹیشن پر ایک حشر برپا تھا ہزاروں قادیانی غنڈے پستولوں
،خنجروں اور ڈنڈو ں سے مسلح کھڑے تھے ۔طلبا کو دیکھتے ہی ڈندہ بردار ٹرین
کے اندر گھس گئے اور ان پر ظلم و جبر کی انتہا کر دی ۔طلبا ان کے اس تششدد
سے بے ہوش ہو گئے بعض کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ان سے ضروری سازوسامان بھی
چھین لیا گیا۔
اس واقعے کی خبر فیصل آباد تک پہنچ چکی تھی غصے سے لبریز سارا شہر سٹیشن پر
پہنچ چکا تھا مجاہد ختم نبوت مولانا تاج محمد سمیت کئی دیگر شخصیات سٹیشن
پر موجود تھیں۔جب گاڑی فیصل آباد پہنچی تومولانا نے حالات کی نزاکت کا
اندازہ لگاتے ہوئے طلبا سے ایمان افروز بیان کرتے ہوئے فرمایا۔میرے
بیٹوتمہارے جسم سے بہنے والے مقدس خون کی قسم میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ
تمہارے خون کے ایک ایک قطرے کا قادیانیوں سے حساب لیا جائے گا۔اور اس وقت
تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اس ظلم کا حساب نہ چکا لیں۔
اس واقعے کی خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔قادیانیوں کے
خلاف احتجاجی جلسے جلوس شروع ہو گئے۔
16جون 1974کوفیصل آبادمیں ملک بھر کے علماو مشائخ کا ملک گیراجتماع
ہوا،عوامی سمندر کو دیکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے سانحہ ربوہ کی عدالتی
تحقیقات کا حکم دے دیا۔تحریک زوروں پر تھی پیر ہ سالی کے باوجود علامہ یوسف
بنوریؒنے ملک کے چاروں اطراف سفر کر کے اس تحریک کو مزید جان بخشی۔تحریک دن
بدن زور پکڑتی گئی ۔شعلہ بیان خطیب اور مقررین حضرات نے ملت اسلامیہ کے ہر
ہر فرد کو ختم نبوت کا رضا کار بنا دیا اور حکومت کو باور کروایا کہ ملت
اسلامیہ کسی ایسی حکومت کو برداشت نہین کر سکتی جو قادیانیت کی حامی ہو۔
بلاخر تحریک ختم نبوت کا مسئلہ قومی اسمبلی میں اٹھایا گیا ۔اکابرین ختم
نبوت کی صدر ذوالفقار علی بھٹو سے مسلسل ملاقاتوں کے نتیجہ میں امید کی اک
کرن جاگ اٹھی ،اﷲ تعالیٰ نے پاکستان اور مسلمانوں پرخصوصی کرم فرمایا ۔اس
طرح 7ستمبر4 197کو 4بج کر 35منٹ پر قادیانیوں کو نیشنل اسمبلی سے غیر مسلم
اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔
آج ایک مرتبہ پھر قادیانیوں کی سر گرمیاں تیز ہوتی جا رہی ہیں ۔وہ مختلف
انداز میں اپنی محنت جاری رکھے ہوئے ہیں ۔مذہبی و سیاسی زعماء اور نوجوانوں
کو ان کی اس بڑھتی ہوئی نقل و حرکت کو روکنے کیلئے ایک مرتبہ پھر اپنی
تاریخ دہرانی ہو گی تاکہ وہ اپنے اس مذ موم فعل سے باز رہ سکیں۔
|