اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کے جب امام ؑ کو
پتا تھا کے کربلاء میں جا کر شہید ہونا ہے تو پھر گئے کیوں تھے میں آپ سے
سوال کرتا ہوں کیا حضرت ابراھیم ؑ کو نہیں پتا تھا کے اسماعیل ؑ کو کیوں
اور کہاں لے جا رہا ہوں پتا تھا پھر لے کر کیوں گئے ،اس لئے کیونکہ اﷲ کا
حکم اور امتحان تھا،حضرت ابراھیم ؑ نے جو خواب دیکھا تھا اُس کی تعبیر
کربلاء میں امام حسین ؑ نے پیش کی ،حضرت اسماعیل ؑ خنجر کے نیچے لیٹے تھے
پر ذبحہ تو دنبہ ہوا لیکن کربلاء میں جو بھی خنجر کے نیچے لیٹا وہاں امام
کے اصحاب زبح ہوئے،جب قربانی ہوتی ہے تو ہم جانور کو بھی پانی پلاتے ہیں
امام کو پیاسا شہید کیا گیا،ہم لوگ ایک جانور کے سامنے دوسرا جانور زبح
نہیں کرتے لیکن امام ؑ کے سامنے کبھی حر ؑ شہید ہوئے کبھی اکبر ؑکبھی قاسم
ؑکبھی عون ُمحمد ؑتو کبھی اصغر ؑ تو کبھی غازی عباس ؑشہید ہوئے،لوگ ہم سے
سوال کرتے ہیں کے امام ؑ گئے کیوں تھے کیا وجوہات تھیں وجوہات تو بہت سی
تھیں مثلاًیزید حلال کو حرام کر رہا تھا اور حرام کو حلال کر رہا تھا،اور
وقت کے ہادی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اگر دین کے اصول دین و فروع دین
خطرے میں پڑ جائیں تو امام ؑ اپنی حجت کو پورا کریں اور دین کو بچائیں اسی
لئے امام حسین ؑنے کہا میں اپنے نانا کا دین بچانے گھر سے نکلا ہوں ،میں
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے گھر سے نکلا ہوں ،امام چاہتے تھے مکہ
اور مدینہ کی گلیوں میں خون ناحق نہ بہایا جائے امام امن سے مسئلے کا حل
چاہتے تھے جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ امام حسین ؑ مدینہ
سے مکہ گئے اور جب امام کو علم ہوا کے خانہ کعبہ کی حرمت کو پامال کیا جا
سکتا ہے اور میرا خون ناحق یہاں بہایا جا سکتا ہے بس امام حسین ؑ نے اپنے
حج کو عمرے میں بدلہ اور کوفہ کے لئے روانہ ہوئے۔ لیکن جب امام ؑ کو حضرت
مسلم ابن عقیل کی شہادت کی خبر ملی اور امام کو علم ہوا کے کوفہ والوں نے
اپنے آپ کو یا تو بیچ دیا ہے یا ڈر کے مارے گھروں میں چلے گئے ہیں پس امام
نے ہند جانے کا ارادہ کیا راستے میں حر نے امام کے راستے کو روکا اور
زبردستی امام کو عراق لے کر آیا اس کا مطلب ہے امام کا مقصد فساد نہیں صرف
اصلاح تھا ،لوگ کہتے ہیں کربلاء کی جنگ دو شہزادوں کی جنگ تھی یہ بات غلط
ہے امام ؑ دین بچانے کربلا گئے تھے اگر جنگ کے لئے جاتے تو کبھی اپنی ماں
بہنوں کو ساتھ لے کر نہ جاتے امام ؑ کا ماں بہنوں کو ساتھ لے جانا بتا رہا
ہے کے امام ؑ دین بچانے کربلاء گئے تھے۔لوگ کہتے ہیں کربلا کی جنگ حکومت
حاصل کرنے کی وجہ سے لڑی گئی یہ بات بھی غلط ہے کیوں کے جو جنت کے جوانوں
کے سردار ہوں اُن کو دنیا کی حکومت کی کیا فکر،امام ؑ کو دنیا کی حکومت کی
ضرورت نہیں تھی بلکہ دنیا کو امام حسین ؑ کی ضرورت تھی،امام حسین ؑ نے
مدینے سے کربلاء تک مختلف افراد کے ساتھ مکالمہ کیا تا کہ جنگ ’’خطیب
خوارزمی‘‘نے نقل کیا ہے کہ حسین ابن علی ؑ نے اپنے ایک ساتھی ’’عمرہ ابن
قرظہ انصاری‘‘کی وساطت سے عمر ابن سعد کو ملاقات کرنے اور گفتگو کرنے کا
پیغام بھجوایا،عمر ابن سعد نے امام ؑ کی اس تجویز سے اتفاق کیا ۔بس امام
حسین ؑ رات کے وقت(۸ اور ۹ محرم کی رات) اپنے بیس صحابیوں کے ہمراہ اس خیمے
میں تشریف لے گئے جو دونوں لشکروں کے بیچ میں لگایا گیا تھا ۔امام ؑ نے حکم
دیا کے حضرت عباس ؑ اور حضرت علی اکبر ؑکے سوا خیمے میں کوئی اور نہ آئے
اور عمر ابن سعد کے ساتھ بھی اُس کا بیٹا ’’حفص‘‘اور خاص غلام خیمے میں گئے۔
پس مکالمے کا آغاز کچھ اس انداز میں ہوا:
امام حسین ؑ:
اے ابن سعد !کیا تم مجھ سے لڑنا چاہتے ہو؟کیا تمہیں خدا کا کچھ خوف نہیں جس
کی طرف تم کو پلٹنا ہے؟میں علی ؑ کا بیٹا ہوں جو آل ہاشم کے بہترین فرد ہیں
اور یہی میرے لئے سب سے بڑا افتخار ہے میرے جد رسول ؐ ہیں جو تاریخ کی
بہترین شخصیت ہیں اور ہم اﷲ کے وہ چراغ ہیں جو زمین پر روشن رہتے ہیں میری
ماں فاطمہ ؑ ہیں جو احمد ؐ کی پاکیزہ بیٹی ہیں میرے چچا جعفر ہیں،اﷲ کی
کتاب میرے پاس ہے
عمر ابن سعد نے کہا:
اگر آپ کا ساتھ دوں تو مجھے ڈر ہے کے یہ لوگ کوفہ میں میرا گھر ڈھا دیں گے۔
امام حسین ؑ نے فرمایا:
میں اپنے خرچے پر تیرا گھر بنوا دوں گا۔
عمر ابن سعد نے کہا:
یہ میرے باغ اور نخلستان کو ضبط کر لیں گے۔
امام حسین ؑ نے فرمایا:
میں تمہیں حجاز میں ایسے باغ دلوا دوں گا جو تمہارے کوفہ کے باغ سے بہتر
ہوں گے۔
عمر ابن سعد نے کہا :
میرے بیوی بچے کوفہ میں ہیں یہ لوگ انہیں مروا دیں گے۔
امام ؑ نے کہا:
زندگی موت اﷲ کے ہاتھ میں ہے
پھر جب امام نے دیکھا یہ بہانے پر بہانہ کر رہا ہے پھر امام ؑ نے کہا:
تو مجھے کربلا نہ لے جا مجھ کو ہند بھیج دے
عمر ابن سعد نے کہا:
ایسا ممکن نہیں حکم نامہ کربلاء کا جاری ہوا ہے۔جہاں آپ کو اذیت ناک موت دی
جائے گی ۔
پس امام ؑ نے جب یہ سنا تو یہ کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے :
تمہیں کیا ہوا ہے؟خدا جلد ہی تمہیں تمہارے بستر پر ذبح کروائے گا اور روز
محشر تمہارے گناہوں کو در گذر نہیں کرے گا خدا کی قسم مجھے اُمید ہے کے
عراق کی گندم میں سے بہت ہی کم تم کھا پاؤ گے۔اور رہی بات ’’رے‘‘کی تو
’’رے‘‘ کی گندم بھی تم نہیں کھا پاؤ گے۔
اس پر عمر ابن سعد نے مسکرا کر کہا:
میں جُو پر ہی گذارا کر لوں گا۔
آخر امام ؑنے اس مکالمے میں کیا پیغام دیا ہے یہی نہ کے امام ہادی ہیں
چاہتے تھے اپنی حجت تمام کریں امام نے اپنے خون کے پیاسے کی بھی خیر خواہی
چاہی اس کو بھی وعظ و نصیحت کی تا کہ اُسے بد بختی اور ہلاکت سے نجات
دلائیں ۔اور جب اُس نے مادی چیزوں کے جانے کا ذکر کیا تو بھی امام ؑ نے اُس
کی مکمل مدد کرنے کا وعدہ کیا یہ ہیں حسین ابن علی ؑ،علی ؑ کے بیٹے،زہرا ؑ
کے فرزند،رسول ؐ کے نواسے،جنت کے جوانوں کے سردار،گناہوں کو معاف کروانے
والے،بے اولاد کو اولاد دلوانے والے،بیمار کو شفاء دینے والے،مشکل میں مشکل
کشائی کرنے والے،حاجت روائی کرنے والے،سید الشہداء،امام التقین،غیب کا علم
رکھنے والے،خدا کا امتحان پاس کرنے والے،اپنی اولادوں کو دین کے لئے قربان
کرنے والے،انا من الحسین کی تفسیر،رسول ؐ کی آنکھوں کا نور،ماں کے دل کی
دھڑکن ،باپ کے دل کا چین و سکون، دین بچانے والے ،باطل مٹانے والے،رسول ؐ
کی زبان چوسنے والے،رسول ؐجن کی سواری بنے،سورہ دھر کا حصہ،انما یرید اﷲ کی
تفسیر،اﷲ کے خاص دوست، جن کی کربلاء کی جنگ نے یزید کا نام مٹی میں ملا دیا
آج کوئی بھی اپنے بچوں کا نام یزید نہیں رکھتا ،لیکن آدھی دنیا سے زیادہ کا
نام حسین ہے،مسلمان ان کو مانتے ہیں،عیسائی ان کو مانتے ہیں،ہندو ان کو
بھگوان سمجھتے ہیں،دنیا میں کسی ماں نے کوئی ایسی اولاد پیدا نہیں کی جو
حسین ابن علی ؑ کو نہیں جانتی دنیا کا ہر فرد مومن ہو یا منافق ہو،اہل کتاب
ہو یا غیر ِاہل کتاب،مشرک ہو یا کافر کوئی بھی ایسا نہیں ملے گا جو حسین
ابن علی ؑ کو نہ جانتا ہو،کوئی ایسا نہیں جس نے امام ؑ کی شان نہ بیان کی
ہو ۔ |