تحریر : ایچ آر مصور
عجب طرفہ تماشہ ہے عجیب عجیب قانون بن رہے ہیں ایسے قوانین جس کا کوئی سر
نہ کوئی پیر ہے، ایک دم عوام پر کوئی نہ کوئی بم گرا دیا جاتا ہے ۔پتا نہیں
یہ فیصلے کون کرتا ہے کس کی ایما پر ہوتے ہیں بعض فیصلے تو ایسے ہوتے ہیں
کہ بندہ انگشت بد انداں رہ جاتا ہے سوچتا رہتا ہے کہ اس میں کون سی مصلحت
پنہاں ہے آج کل سندھ بھر میں ٹریفک پولیس کی جانب سے ہیلمٹ پہننے کو لازمی
قرار دیا گیا ہے، ٹریفک پولیس کی جانب سے بڑے شد ومد کے ساتھ مہم جاری ہے،
ہر سڑک پر بینر ز آویزاں کیے گئے ہیں کیمپ لگائے گئے ہیں، اخبارات اور ٹی
وی چینلز پر اشتہارات چل رہے ہیں،موٹر سائیکل چلانے والے کے ساتھ دیگر سوار
شخص کے لیے بھی ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ سزا کی
وعید بھی سنائی جارہی ہے قید سے ڈرایا جارہا ہے اور بھاری جرمانے عائد کرنے
کی بات ہورہی ہے مزے کی بات یہ ہے کہ خواتین کے لیے بھی ہیلمٹ پہننا لازمی
قرار دیا گیا ہے۔کم ازکم یہ روایات یہ معاشرہ اور یہ تہذیب بھی کسی بلا کا
نام ہے ،اس کا تو خیال رکھتے۔
بلا شبہ یہ انسانی زندگی محفوظ بنانے کے لیے قابل قدر اقدامات ہیں، لیکن
شہر کراچی سمیت پورے صوبے کے جو حالات ہیں اس میں اس طرح کے قوانین ان
لوگوں کو رعایت دینے کے مترادف ہیں جو جرائم میں ملوث ہیں ۔حال ہی میں
کراچی میں فوجی جوانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، اس کے سی سی ٹی وی فوٹیجز
سامنے آئے تھے تو شہر میں لگے سی سی ٹی کیمروں پر سوالیہ نشان اٹھایا گیا
کہ اس کی ریزولوشن صرف 2میگا فکسل ہے جس کی وجہ سے ملزمان کے چہرے صاف نظر
نہیں آرہے ہیں ساتھ ساتھ یہ مطالبہ کیا گیا کہ شہر میں زیادہ میگا فکسل کے
کیمرے نصب کیے جائیں شہر کے بیشتر کیمروں کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ
خراب پڑے ہوئے ہیں جس کا سختی سے نوٹس لیا گیا۔ کچھ ہی دنوں بعد شہر میں
کیمروں کی مرمت اور نئے کیمروں کی تنصیب کا کام شروع ہوا اور ابھی تک جاری
ہے اب کوئی یہ بتائے کہ یہ کیمرے کس لیے نصب کیے جارہے ہیں۔ کیا فائدہ ہوگا
ان کیمرں کا؟ اس کیمرے سے تو ہیلمٹ ہی کیپچر ہوگا یا اتنے پاور فل کیمرے
ہوں گے کہ ہیلمٹ کے اندر چہرے کو بھی فوکس کرلیں گے ؟ شکل تو نظر ہی نہیں
آرہی ہوگی۔اچھی ریزولوشن کا کیمرہ زیاد ہ سے زیادہ کیا کرے گا ہیلمٹ والے
شخص کو کیپچر کرے گا اس کا ہیلمٹ نظر آرہا ہوگا تو کیا اس ہیلمٹ سے مجرم کی
نشاندہی ہو جائے گی یاہیلمٹ کمپنی کے خلاف کارروائی ہوگی یا ہیلمٹ فروخت
کرنے والے کے خلاف یہ ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوگا اور اس کے لیے ایک نئے قانون
سازی کی ضرورت ہوگی۔
( ایک جاہلانہ تجویز میرے پاس ہے کہ ہیلمٹ پر ہیلمٹ پہننے والے شخص کی
تصویرلگانا،نام اور شناختی کارڈ نمبرلکھنا لازمی قرار دیا جائے آگے بھی اور
پیچھے بھی، مجھے یقین ہے کہ قانون سازی کا کام کرنے والے میری اس تجویز پر
غش غش کرکے اٹھیں گے اورآنکھیں بند کرکے اقدامات شروع کردیں گے کیونکہ
کاروبار میں ایک اور کاروبا رجو ہاتھ لگے گا)
اگر خدا نخواستہ پھر کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو کیمرے میں آئے ہوئے
ہیلمٹ سے کس طرح اندازہ ہوگا کہ واردات کرنے والا کون تھا بلکہ واردات کرنے
والے کون ہیں کیوں کہ ساتھ بیٹھے شخص نے بھی ہیلمٹ ہی پہنا ہوگا وہ بھی اس
ڈر سے کہ کہیں راستے میں چالان نہ ہوجائے ۔۔۔۔۔۔اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے
دہشت گرد لابی بڑی مضبوط اور منظم ہے اور اپنے افراد کو تحفظ دینے کے لیے
وہ کسی بھی سطح پر کوئی فیصلہ حکومت سے کرواسکتے ہیں ان کی رسائی ان
ایوانوں تک ہے جو عوامی فیصلے کرتی ہیں بظاہر تو یہ عوام کے تحفظ کی بات
کرتے ہیں لیکن در پردہ ان افراد کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جو جرائم پیشہ
ہیں ۔
محرم الحرام کی آمد آمد ہے اور شہر پر حالات خراب ہونے کے خدشات منڈ لارہے
ہیں ۔ایک طرف سرحدی حالات دگرگوں ہیں دوسری جانب شہر میں بڑے پیمانے پر
سیاسی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں ایسے تمام اقدامات کا فائدہ ان افراکو
پہنچتا ہے جو اس شہر ، صوبے اور وطن عزیز کی سلامتی کے لیے خطرہ بنے ہوئے
ہیں۔ آخر کوئی سوچنے والا کیوں نہیں ہے؟ اس پر کوئی سوچتا کیوں نہیں ہے؟ یہ
کوئی اتنا پیچیدہ مسئلہ تو نہیں کہ اس پر سوچ بچار ممکن نہیں یا اس کا حل
نا ممکن ہے ۔ آخر ہیلمٹ سے کتنی زندگیاں بچانے میں حکمران کامیاب ہو جائیں
گے؟ لیکن ہیلمٹ کی آڑ میں ہونے والی دہشت گردی کی روک تھا م کیسے کریں گے ؟اس
دہشت گردی کے نتیجے میں مارے جانے والے افراد کا ذمے دار کون ہوگا ؟اس سوال
کا جواب ہے کسی کے پاس۔۔۔۔۔۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سندھ بھر کیا ملک بھر میں ہیلمٹ کے استعمال پر
پابندی عائد کی جاتی اور ہیلمٹ ممنوع قرار دیا جاتا کیوں کہ ہیلمٹ سے خطرہ
ہے جو کیمرے نصب کیے گئے ہیں وہ کار آمد بنائے جاسکیں ۔بہر حال سننے میں
آیا ہے کہ یہ جو ہیلمٹ کا کاروبار ہے یہ بھی ایک بڑی مافیا ہے جس میں اعلیٰ
عہدوں پر فائز ذمے دارن ملوث ہیں اور سال بھر میں ایک مرتبہ یہ مہم چلا کر
کروڑوں کما لیتے ہیں اوراپنے بینک بیلنس میں خاطر خوا اضافہ کرلیتے ہیں۔
ایسے عوام دشمن فیصلوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اس مافیا کا خاتمہ ہونا
چاہیے اور عوام کو تحفظ دینا چاہیے ۔ حکمرانو !یاد رکھو موٹر سائیکل غریب
کی سواری ہے اور اس ملک میں غریب اپنے روز مرہ اخراجات کے لیے روتا رہتا ہے
وہ پورے نہیں ہو پارہے ہیں اس پر اضافی بوجھ ڈال کر حکمران اپنے لیے دعاؤں
کے بجائے بددعاؤں کا سامان پیدا کررہے ہیں۔ |