میں نے فیچر رائیٹنگ ایوارڈ جیتا تو
پاکستان پریس فاونڈیشن نے تقریب فیصل آباد میں رکھنے اور بر وقت پہنچنے کا
برقی پیغام بجھوا دیا۔ ماضی کے لائلپور فیصل آباد کو پہلے بھی دیکھا تھا
مگر اس بار کی دعوت نے عجیب سی سر شاری پیدا کر دی تھی۔فیصل آباد پاکستان
کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے، 1979 ء میں اسے سعودی عرب کے شاہ فیصل بن
عبدالعزیز السعود کے نام پر فیصل آباد کا نام دیا گیا۔ اپنے دیہاتی تمدن کی
وجہ سے ایک وقت تک اسے ایشیا کا سب سے بڑا گاؤں کہا جاتا تھا، تاہم وقت کے
ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم شہر بن کر نمودار ہوا اور اب اسے کراچی اور لاہور کے
بعد پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دنیا کے عظیم
قوال و موسیقار نصرت فتح علی خان کا تعلق اسی شہر سیہے۔اور وہ یہیں مدفون
ہیں۔فیصل آباد کی اہم خصوصیت شہر کا مرکز ہے، جو ایک ایسے مستطیل رقبے پر
مشتمل ہے، جس کے اندر جمع اور ضرب کی اوپر تلے شکلوں نے اسے 8 حصوں میں
تقسیم کر رکھا ہے۔ اس کے درمیان میں، جہاں آ کر آٹھوں سڑکیں آپس میں ملتی
ہیں، مشہورِ زمانہ گھنٹہ گھر کھڑا ہے۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر ملنے والی
آٹھوں سڑکیں شہر کے 8 اہم بازار ہیں، جن کی وجہ سے اسے آٹھ بازاروں کا شہر
بھی کہا جاتا ہے۔ گھنٹہ گھر سے شروع ہو کر بیرونی طرف پھیلتے ہوئے بازار اس
جگہ کو برطانوی پرچم کی شکل دیتے ہیں، جو سر جیمزلائل نے اپنے ملک کی
یادگار کے طور پر یہاں چھوڑا ہے۔یہ شہر ہمدم دیرینہ غلام محمد آباد والے
صحافی ملک اجمل کا بھی مسکن ہے۔فیصل آباد پہنچنے پر مجھے ڈی چوک میں واقع
ہوٹل میں جانا پرا جہاں پاکستان پریس فاونڈیشن کے ہر دلعزیز اویس اسلم علی
موجود تھے۔اس شہر نے جہاں مجھے برسوں بعد ملک اجمل کا دیدار کرایا وہیں تین
صحافتی قد آور شخصیات جناب قدرت اﷲ چوہدری صاحب ،عابد عبداﷲ اور ایاز خان
سے بھی ہم کلام اور راہ رسم بڑھانے کا موقعہبھی فراہم کیا۔استاد محترم
مقتدی منصور،نسیم اختر شیخ اور مصور شاہد کا بھی ساتھ رہا۔عابد عبداﷲ صاحب
کے ہاتھوں مجھے فیچر رائیٹنگ کی توصیفی سند اور انعامی چیک دیا گیا۔عابد
عبداﷲ کی مسکراہٹ تادیر میں بھول نہ سکا تھا۔وہ میڈیا ایکسپرٹ مانے جاتے
ہیں،متعدد پاوں پر کھڑے اداروں میں عابد عبداﷲکے وژن اور تکنیکی جدت کا بڑا
حصہ ہے۔وہ مارکیٹنگ سے لے کر ادارت تک کے مراحل سے بخوبی آشنا اور اپنے
پیشے سے ہمہ وقت مخلص نظر آئے۔یہ کہانی مشرف دور کی ہے۔مذکورہ تینوں شخصیات
سے ملاقات اور انہیں سننا آج بھی یاد ہے۔ میڈیا کی اس قد آو ر اور غیر
متنازعہ شخصیت کو پشاور سے بدھ کی شب اغوا کر کے جمعرات کی شب اسلام آباد
میں رہا کر دیا گیا۔عابد عبداﷲ کو قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے متصل حیات
آباد انڈسٹریل ایریا سے نامعلوم افراد نے اسلحے کے زور پر اغوا کیا
تھا۔عابد عبداﷲ کے بھائی حامد عبداﷲ نے بی بی سی سے مختصر بات چیت میں صرف
اتنا بتایاتھا کہ عابد خیریت سے گھر پہنچ گئے ہیں اور اغوا کار انھیں اسلام
آباد میں کسی مقام پر چھوڑ گئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ عابد تھکے ہوئِے تھے
اور وہ آرام کرنا چاہتے تھے اس لیے ان سے تفصیلی بات نہیں ہو سکی۔ پشاور
میں مقیمارشد عزیز ملک کے مطابق عابد عبداﷲ کے اغوا کے واقعے کے بعد پولیس
حکام نے ان کی بازیابی کے لیے کوششیں شروع کر دی تھیں۔سپرنٹنڈنٹ پولیس کاشف
ذوالفقار نے بی بی سی کو بتایا تھاکہ اب تک اغوا کی وجوہات معلوم نہیں ہو
سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ راستے میں کینٹ پولیس ٹریفک پولیس اور آرمی کے
کیمرے نصب ہیں لیکن چونکہ یہ رات کا وقت تھا اور اندھیرے کی وجہ سے اس میں
کچھ واضح نظر نہیں آ رہا۔ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات سے ایسا لگیا
ہے کہ اس اغوا میں ریاست مخالف قوتوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔پولیس حکام کے
مطابق تحقیقات میں جس راستے سے عابد عبداﷲ کو لے جایا گیا وہاں راستوں سے
تمام کیمروں کی ریکارڈنگ حاصل کی گئی ہے اور اس کے علاوہ موبائل فون کی جیو
فینسنگ کرائی جا رہی ہے۔پولیس کے مطابق عابد عبداﷲ انڈسٹریل سٹیٹ میں اپنے
اداریکی پرنٹنگ پریس کا معائنہ کرنے آئے تھے۔ پریس کا معائنہ کرنے کے بعد
وہ ہوٹل جا رہے تھے کہ راستے میں نامعلوم افراد انھیں اسلحے کے زور پر ساتھ
لے گئے۔عابد عبداﷲ کے ڈرائیور نے پولیس کو بتایا کہ آٹھ سے دس افراد نے
اسلحے کی نوک پر انھیں روکا اور دو سے تین افراد ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ
گئے اور پشاور میں جی ٹی روڈ پر فردوس سٹاپ کے پاس ڈرائیور کو کہا کہ تم
گاڑی میں بیٹھے رہو اور مسلح افراد عابد عبداﷲ کو دوسری گاڑی میں بٹھا کر
نامعلوم مقام کی جانب لے گئے۔ ڈرائیور کے مطابق گاڑی میں بیٹھے مسلح افراد
نے عابد عبداﷲ کو بتایا کہ وہ انھیں پیسوں کی خاطر اغوا نہیں کر رہے بلکہ
ابھی تو ان کے اور ساتھیوں نے بھی آنا ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ وہ جس شام
پہنچے اسی رات کو اغوا کر لیے گئے لیکن انھیں نہ تو کوئی ایسی دھمکیاں ملیں
یا کوئی بھتے کے حوالے سے کوئی پیغام ملا تھا اب معلوم نہیں ہے کہ انھیں کس
نے اغوا کیا ہے ۔کیوں کیا اور اس مختصر دورانیہ کے اغواء کا مقصد کیا تھا
کی سائینسی بنیادوں پر تحقیقات کی جائیں ۔عابد عبداﷲ صحافتی انڈسٹری میں
جدت کے بانی ہیں ان کا وژن اس صنعت کو فروغ دینا ہے۔عابد عبداﷲ کو مناسب
سیکیورٹی فراہم کی جائے۔صحافتی حلقوں کو اپنی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ
نہیں کرنا چائیے۔ |