وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن
نے پریس کلب گلگت میں اعلان کیا تھا کہ آئندہ سے ہر سال باقاعدہ طور پر یوم
شانٹی (گلگت بلتستان کی روایتی ٹوپی) کا دن منایا جائیگا اور دن یکم ستمبر
منتخب ہوا ۔ماہ اگست کے اختتامی ایام میں گلگت بلتستان کے ایام نے یکم
ستمبر کو یوم شانٹی سمجھ کر باقاعدہ طور پر سوشل میڈیا میں اپنے پیجز پر
شانٹی کے ساتھ تصاویر لگاکر اس بات کا ثبوت دیا کہ گلگت بلتستان کے عوام
اپنی ثقافت کے تحفظ چاہتے ہیں اور یوم شانٹی منانے کا اعلان وزیراعلیٰ کی
جانب سے ایک اہم قدم تھا تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے یکم ستمبر کو تبدیل
کرکے یکم اکتوبر کو یوم شانٹی منانے کا اعلان کردیا گیا جس وجہ سے یہ تحریک
صرف سوشل میڈیا تک محدود رہی ۔۔۔۔اس دن کو منانے کا مقصد گلگت بلتستان کی
مقامی ثقافت اور گلگت بلتستان کی متنوع و منفرد، قدیم روایات کی بھر پور
تشہیر کرتے ہوئے اسے ملکی اور بین الاقوامی سطح تک متعارف کرانا ہے ۔۔۔۔۔۔
گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے یوم شانٹی کو منانے کے سلسلے میں مختلف
تقاریب منعقد کرانے کا فیصلہ کیا ہے جن میں واک سمیت دیگر کلچرل تقاریب کا
بھی اہتمام کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ اور ممکنہ طور پر یکم اکتوبر(آج ) گلگت
بلتستان میں ممکنہ طور پر لوگ اپنی مٹتی ہوئی ثقافت کے ترویج اورتحفظ کے
لئے سفید کپڑے پہن کر باقاعدہ شانٹی پہن کر اس دن (یوم شانٹی )کے ساتھ اپنی
محبت کااظہار کرینگے اور صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے اہلکاران بھی تقاریب
اور واک میں روایتی لباس میں ملبوس ہوکر اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرینگے
۔۔۔۔۔
ثقافت شعوری طرز زندگی کا نام ہے اور وہ تمام عقائد شامل ہوتے ہیں جوہماری
انفرادی اور اجتماعی زندگی میں شامل ہیں ماہرین مذہب کو بھی ثقافت کا حصہ
قرار دیتے ہیں ۔۔۔۔ ثقافت سے سے کسی بھی قوم کی ترقی اور کامیابی ،فن اور
ہنر ،اور علم و دانشوری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔۔۔۔ جدید دور کو دنیا
میں ثقافتوں کی جنگ بھی کہا جارہا ہے مستقبل قریب میں دنیا میں انہی قوموں
کا نام رہے گا جنہوں نے اپنی ثقافت کو محفوظ کیا ہو اور ان قوموں کا نام
تاریخ بھول جائے گی جن کی ثقافت مغلوب ہوگئی ہو ۔۔۔۔گلوبل ویلیج کے تصورکے
بعد دنیا صرف ایک کلک کے فاصلے پر رہ گئی ہے اب تمام عادات ،رہن سہن کے
طریقے ، گھروں کے بنانے کا انداز ،اور ثقافت کے معاشرے پر اثرات ودیگر
چیزیں لوگوں سے دور نہیں رہی ہیں جس کی وجہ سے ایک ثقافت کے دوسرے ثقافت پر
نمایاں اثرات مرتب ہونے لگے ہیں اور جنگ وہی ہے جس میں لوگ اپنی ثقافت کو
محفوظ رکھیں اور دوسرے ثقافتوں کی یلغار سے محفوظ رکھیں ۔۔۔۔
دنیا بھر میں ثقافتوں کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔
گلگت بلتستان کی ثقافت دنیا بھر میں ایک منفرد ثقافت ہے اس علاقے کی پہچان
کرانے میں ثقافت کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے ۔۔۔گلگت بلتستان کی ثقافت میں تنوع
پایا جاتا ہے ۔۔۔ چند گھنٹوں کے سفر میں نئی ثقافت دیکھنے کو ملتی ہے
۔۔۔تاہم مجموعی طور پر گلگت بلتستان کی ثقافت بھی عالمی گاؤں کے یلغار سے
محفوظ نہیں ہے ۔۔۔خصوصی طور پر سی پیک کے انعقاد سے بھی یہ خدشات ظاہر کئے
جارہے ہیں کہ ثقافت کو شدید دھچکہ پہنچ سکتا ہے ۔۔۔ چیزیں رفتہ رفتہ تبدیل
ہورہے ہیں ۔۔۔تمام پرانے الفاظ کی جگہ نئے الفاظ نے لے لی ہے جیسے شانٹی کا
تصور آج کے دور میں بہت ہی کم ہوکررہ گیا ہے کیونکہ اب کیپ ،ہیٹ اور ہیلمٹ
جیسی چیزیں آئی ہیں ۔۔۔۔بہر حال صوبائی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کے
ثقافت کو محفوظ کرنے اور اس کی ترویج کے لئے شانٹی کا دن منانا ایک مثبت
اور لائق تحسین قدم ہے ۔۔۔۔
ثقافت کے اہم پہلوؤں اور اس کے اہم اجزا میں ایک ’زبان ‘ہے ۔۔۔شانٹی کو
محفوظ کرنے کے لئے جس طرح سے ایک دن مختص کیا گیا ہے اسی انداز میں ذبان کو
محفوظ کرنے کے لئے بھی ایک دن کی ضرورت ہے یا اسی دن میں زبان کو شامل کرکے
متفقہ دن منایا جائے ۔۔۔۔ فورم فار لینگویج انیشیٹیوز (FLI) ایک ایسا ادارہ
ہے جس میں چھوٹی زبانوں کی شاعری ، لوک کہانیاں ، اقوال زریں ، اور ثقافتی
ورثہ کو محفوظ کرتی ہے اور ان کے لغت کو مرتب کرنے ، حروف تہجی تشکیل دینے
سمیت ان زبانوں کو لکھائی پڑھائی کے لئے استعمال میں لانے کے لئے اقدامات
کرتی ہے ۔۔۔۔اس ادارے نے ملک بھر میں 30کے قریب ایسی زبانوں کی نشاندہی کی
ہے جن کے وجود کو مستقبل میں بڑی زبانوں سے خطرہ ہے ۔۔۔اور ان زبانوں میں
گلگت بلتستان میں بولی جانے والی 6زبانیں بھی شامل ہیں جن میں شینا ، بلتی
، بروشسکی ، ڈوماکی ، وخی اور کھوار شامل ہیں (مستقبل کے خطرے سے مراد یہ
کہ ڈوماکی زبان جو کہ گلگت بلتستان کے ایک قبیلے کی زبان تھی جسے موجودہ
دور میں صرف چند لوگ ہی جانتے ہیں اور ان کے الفاظ تک معدوم ہوگئے ہیں
)۔۔۔چند ماہ قبل اس ادارے نے گلگت بلتستان میں 7روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا
جس میں سیمپل کے طور پر شینازبان کو لیا گیا اور اس کے ریسرچ ایریا کے طور
پر دنیور کا علاقہ منتخب کیا گیا ۔۔۔ اس ورکشاپ میں راقم بھی شریک تھا اور
مطلوب سوالات کی بنیاد پر درجنوں لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے سامنے
یہی سوالات رکھے ۔۔۔ ۔۔۔ اول تو لوگوں نے شینازبان کو محفوظ کرنے کے لئے
مقصد ظاہر کرنے پر جس محبت کااظہار کیا وہ الفاظ میں ناقابل بیان ہے ۔۔۔
اور دوسری جانب جس انداز کاسوالنامہ تھا اور ان کے جوابات کی بنیاد پر یہ
محسوس کیا گیا کہ گلگت بلتستان کو اردو اور انگریزی جیسی زبانوں سے سخت
خطرہ ہے اور جس طرح موجودہ نوجوان نسل شینا کے کئی الفاظ سے ناآشنا ہے اسی
طرح مستقبل کے نوجوان شینا کے کئی الفاظ سے ناآشنا ہونگے جس کے لئے وقت کی
ضرورت ہے کہ شینا زبان کو زریعہ تعلیم بنادیا جائے اور فوری طور پر نصاب ،
لٹریچر ، اور مخصوص آوازوں کی نشاندہی کرکے مستقل دستاویزات تیار کئے جائیں
۔۔۔۔۔ان اعدادوشمار پر وہ افراد جو شینا کی ترویج پر محنت کررہے ہیں نے
اختلاف کرتے ہوئے مختلف فورمز پر بتایا کہ شینازبان نہ صرف گلگت بلتستان
بلکہ کشمیر ، انڈیا اورافغانستان میں بھی بولی جاتی ہے لہٰذا اس کے مستقبل
کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ایک صاحب نے خود شینا کے ٹھیکے کا دعویٰ کرکے
زاتیات تک کی تنقید بھی کی تاہم دونوں نظریات کا تعلق ترویج سے تھا اس لئے
کوئی جواب نہیں دیا گیا لیکن یہ بات سوچنے کی ہے کہ خطرے سے مراد یہ نہیں
کہ یہ زبان یکدم معدوم ہوجائے گی یاکوئی انقلاب آئیگا۔۔۔ہم جس علاقے میں
سوالنامے لیکر گئے وہاں پر دیگر اضلاع کے لوگوں کی بڑی تعداد کی رہائش
پذیری کی وجہ سے شیناکم اور دیگر زبانیں زیادہ بولی جاتی تھیں۔۔ اور یہی
حال گلگت شہر کا بھی ہے جس میں دیگر زبانیں بولنے والے زیادہ نظر آئیں گے
۔۔۔ دیکھنا پڑے گا کہ کاروبار کی زبان ، دفاتر کی زبان ، سکول اور کالج کی
زبان ، زریعہ تعلیم ، روزمرہ کے معاملات میں کونسی زبان بولی جاتی ہے ۔۔۔۔
بعد ازاں FLIنے پریس کلب گلگت میں بھی صحافیوں کے لئے ایک روزہ ورکشاپ کا
انعقاد کرکے مقامی زبانوں کی ترویج اور مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت پر
روشنی ڈالی ۔۔۔
اسلامی تحریک پاکستان کی رکن گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ریحانہ عبادی
نے تاریخی اقدام اٹھاتے ہوئے قانون ساز اسمبلی میں قرار داد پیش کی جس میں
انہوں نے کہا کہ ’میں فخر کے ساتھ قرارداد پیش کررہی ہوں کہ گلگت بلتستان
کے طلباء میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جدید
تعلیم کے ساتھ اپنی نئی نسل کو علاقائی زبانوں سے بھی متعارف کرائیں اس
قرارداد کے زریعے یہ مقتدر ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ جس طرح سندھ میں سندھی
، پنجاب میں پنجابی اور بلوچستان میں بلوچی اور کے پی کے میں پشتوزبان (کے
پی کے میں پشتو کے علاوہ دیگر مقامی زبانیں بھی ہیں)ان کا تعلیمی نصاب کا
باقاعدہ حصہ ہے اسی طرح گلگت بلتستان میں علاقائی زبانوں کو باقاعدہ تعلیمی
نصاب میں شامل کیا جائے آئین پاکستان کے آرٹیکل 28مین ادب ، ثقافت اور
زبانوں کے ترویج اور اشاعت کی ضمانت موجود ہے ‘۔۔۔۔
اس بکھرے ہوئے موضوع کا مقصد یہی ہے کہ جب آئین پاکستان کا آرٹیکل 28ادب ،
ثقافت اور زبانوں کے ترویج اور اشاعت کی ضمانت دیتا ہے تو صوبائی حکومت
گلگت بلتستان کو بھی شانٹی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ گلگت بلتستان کے
مقامی زبانوں کے ترویج اور اشاعت کے لئے اقدامات کریں ۔۔۔۔ |