محرم الحرام ،چند تجاویز اور گزارشات
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
محرم الحرام کی آمد آمد ہے ہر سال
ملک بھر میں امن کے حوالے سے امن کمیٹیوں کو منظم کیا جا تاہے تاکہ کوئی
ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آئے سارے ملک کی مشینری کی محر م میں نیندیں حرام
ہوجاتی ہیں سوچنے کی بات ہے کہ امن کا سوال آخر محرم الحرام میں ہی کیوں
اٹھتا ہے ؟ جس کو قائم رکھنے کیلئے حکومتی حلقوں کی طرف سے سر دھڑ کی بازی
لگا دی جاتی ہے ملک میں دوسرے ایام بھی آتے ہیں ربیع الاول،ایام خلفائے
راشدینؓ،اولیاء اﷲ ؒکے ایام ان دنوں امن کو خطر ہ لاحق کیوں نہیں ہوتا؟ان
دنوں امن کمیٹیوں کو از سرنو منظم کرنے کی ضرورت پیش کیوں نہیں آتی؟ اس بد
امنی کی وجوہات زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہیں بزرگوں کا کہنا ہے کہ محرم میں
قیام پاکستان سے پہلے بھی ہنگامے ہوتے تھے وجہ بتائی جاتی ہے کہ شہدائے
کربلا ؓکے ایام شدومد سے منانے والوں نے ہمیشہ خلفائے راشدینؓ اور دیگر
اصحاب رسول ؓ ،امہات المومنین ؓکی توہین وتنقیص ہر دور میں کی ،جس کے باعث
ہنگامے ہوئے کیونکہ مسلمانوں کے نزدیک خلفائے راشدین ؓ ااور صحابہ کرام ؓ
کی توہین و تنقیص کرنے والے ظالم ،فاسق،فاجر،غیرمسلم اقلیت ہیں شہدائے
کربلا ؓکے ایام شد ومد منانے والوں کو چاہیے کہ ان ایام کو رسمی طور پر
ضرور منائیں لیکن جن ہستیوں کوقرآن اہل ایمان کاحصہ قرار دیتا ہے انکی
توہین و تنقیص کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے اگر ایسا ہوگا
تو حالات خراب ہوں گے حکومت جتنے مرضی انتظامات کرلے،
٭اس بارے میں حکومت کو مولانا عبدالستار خان نیازی ؒ کمیٹی کی سفارشات پر
عمل کرتے ہوئے قانون سازی کرنا ہوگی تاکہ اس مسلے کا مستقل بنیادوں پر حل
نکالا جا سکے اس کمیٹی کا راقم نے حوالہ اس لئے دیا کہ شیعہ مذہب کے لوگوں
نے بھی اسے تسلیم کیا تھا اس پر عمل کرنے سے کافی حد تک کشیدگی کو کم کیا
جاسکتاہے۔
٭ مزید ایام محرم میں اسپیکر ایکٹ پر سختی سے عمل کروایا جاتا ہے لیکن
قانون سازی کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا ،اسپیکر ایکٹ اتنا بڑا مسلہ نہیں
اگر اہل تشیع صحابہؓ و اہل بیت ؓکا احترام ملحوض خاطر رکھیں تو اسپیکر بند
کروانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
٭قابل اعتراض تقاریر یا نوحے دوکانوں،بازاروں، موٹر سائیکل رکشوں گاڑیوں
میں اونچی آواز سے ان دنوں عام استعمال ہوتے ہیں ان پر بھی پابندی ہونی
چاہیے،اگر کوئی اسے سننا چاہتا ہے تو اپنی حد تک آواز رکھ کر سن سکتا ہے اس
پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
٭حکومت کو چاہیے کہ محرم ہی نہیں بلکہ تمام مسالک و مذاہب کے تمام جلسے و
جلوس انکی عبادت گاہوں یا چاردیواری تک محدود کر دے تو تب بھی بڑی حد تک
سیکیورٹی،امن وامان قائم رکھنے میں معاونت ہو سکتی ہے لیکن اہل تشیع مذہب
کے چند ایک بڑے آدمی اس اہم ترین،مثبت ترین مطالبے پر سیخ پا ہوتے دیکھائی
دیتے ہیں اسے زندگی موت،اپنی خو ساختہ انا کا مسٔلہ بنا لیتے ہیں صرف اپنی
ایجارہ داری اور چودہراہٹ قائم رکھنے کیلئے کیونکہ یہ تو وہ بھی جانتے ہیں
کہ ان جلوسوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟( اگر کسی کے نزدیک یہ عبادت ہے تو سوال
پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی عبادات ہے جو ایک اقلیت کی طرف سے اکثریت مسلم
آبادی کے گھروں،مسجدوں،دوکانوں،مارکیٹوں کے سامنے ان کا نظام زندگی مفلوج
کرکے ادا کی جا رہی ہے ؟کیا دنیا کوئی مذہب مخلوق کو اس طرح تنگ کرنے کو
عبادت سے موسوم کرنے کی کی اجازت دیتا ہے ؟یقینا جواب نفی میں آئے گا ایسا
کرنا اخلاقی اعتبار سے بھی درست نہیں)عوام کے سامنے اسے یہ لوگ صرف اپنا
پریشر،خوف وہراس،رعب ودبدبہ عوام پر بڑھانے کیلئے بطور آلہ استعمال کر رہے
ہیں اگر یہ سخت گیر چند عناصرا عتدال کا دامن تھامے رکھیں اور اپنے لوگوں
کو اشتعال دلانے کی بجائے احسن طریقے سے سمجھائیں تو کوئی بڑی بات نہیں کہ
مفاہمت کی فضا قائم ہو جائے اور ملک کو دشمن عناصر کے شر سے بھی محفوظ
رکھاجاسکتا ہے، ان کی خدمت میں درد مندانہ اپیل ہے کہ قیمتی انسانی جانوں
کے بچاو،وطن عزیز کے تحفظ اور اس ملک کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے
ہماری اس تجویز پر سنجیدگی سے عمل کرلیں تو بہت سے ناخوش گوار واقعات سے
بچاجا سکتا ہے یہ پاکستان ہم نے بڑی قربانیوں سے کیا تھا اب یہ دشمن کے
عزائم خاک میں ملانے اور ان کی گھناونی سازشوں سے تحفظ کیلئے ہم سے مزید
خواہشات کی قربانی مانگ رہا ہے۔
٭حکومت ایسے افراد جو فرقہ واریت یا توہین کا ارتکاب کرنے میں معروف ہیں ان
پر شہروں میں داخلے کی پابندی کے اشتہارات خبروں تک محدود نہ رہے بلکہ ایسے
لوگوں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کرانکو پابند سلاسل کرے ۔
٭ملک بھر سے توہین آمیز لٹریچر کے خاتمے کیلئے عملی اقدا م مزید کئے جائیں
وہ شخصیات جنھوں نے ماضی بعید یا قریب میں صحابہ کرام ؓ ،امہات المونین ؓ،و
اہل بیت عظام ؓ کی توہین و تنقیص اپنی کتابوں،تقریروں تحریروں میں کی ان کا
نام استعمال کرنے یا انکی تصاویر کسی بھی تنظیم کو اپنے دفاتر میں لگانے کی
حکومت ہر گز جازت نہ دے حکومت ان کو خلاف فی الفور ایکشن لینا چاہیے۔
٭غیر قانونی تقاریب کے خاتمے کیلئے سخت احکامات جاری کئے جائیں،
٭تمام دینی قوتوں کو امن کمیٹیوں میں متناسب نمائندگی دی جائے،امن کمیٹیاں
بناتے وقت مقامی با اثر اورتمام مسالک کے مذہبی لوگوں کو شامل کیا جائے
اکثر خانہ پری کی جاتی ہے تمام مذہبی لوگوں کو شامل نہیں کیا جاتا جس کے
باعث مسٔلہ درپیش آنے کے بعد معاملات سلجھانہ ممکن نہیں رہتے ،
٭ان تمام جلوسوں کے شرکائے کو غیرمسلحہ ہونا چاہیے ماجی قریب میں راولپنڈی
جلوس والوں کو مسلحہ کرکے حکومت نے سانحہ روالپنڈی کی صورت میں جو نتیجہ
نکلادیکھ لیا کافی ہے۔
٭پاکستان میں موجود تمام مسلمان مسالک کو بھی چاہیے کہ عظمت ومقام اہل
بیتؓ،مقام شہدائے کربلا ؓ، فلسفہ شہادت ضرور بیان کریں مگر فرقہ وارنہ
،اشتعال انگیزتقاریر سے مکمل گریز کریں اگر کوئی ایسا کرے تو بلا تفریق
کاروائی کی جائے۔
٭صحابہ کرامؓ و اہل بیت عظامؓ کے گستاخ کو کافر،سزائے موت کا حقدار قرار
دیتے ہوئے قانونی شکل دینے سے سارے مسلے حل ہو سکتے ہیں ،امن کا ماحول قائم
رکھنا زیادہ تر ذمہ داری شیعہ مذہب پر عائد ہوتی ہے اسلئے کہ ہمیشہ ا عتراض
کی ان پر کیا جاتا ہے کہ یہ گستاخی کرتے ہیں تو محرم ہی نہیں عام ایام میں
بھی انھیں چاہیے کہ ملک کو کشیدگی سے بچانے کیلئے قابل اعتراض،توہین آمیز
زبان استعمال نہ کی جائے اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو اہل ایمان مسلمان
مسالک صحابہ کرام ؓکے دفاع کیلئے نکلیں گے لہٰذا نھیں ایسا کرنے کی اجازت
نہیں ہونی چاہیے یہ تب ممکن ہوسکے گا جب قانون سازی ہوگی تو۔۔۔ہم نے گذشتہ
سال بھی ارباب اقتدار سے التماس کیا تھا کہ خدارا ! گستاخان صحابہ کو
کیفرکردار تک پہنچائے کیلئے سخت قانون سازی کے بغیر یہ حالات یوں کے توں ہی
رہیں گے حکومت کو عارضی انتظامات کی بجائے مستقل بنیادوں پر قانون سازی
کرکے اس مسلے کا حل نکالنا ہوگا اس مسلے کے باعث ملک پاکستان کی سینکڑوں
علمی،ادبی،فکری،باوقار، بااثر اہل ایمان شخصیات شہید ہوچکی ہیں پتا نہیں
حکومت کو صحابہ کرام ؓ کی عزت و ناموس کے تحفظ کیلئے قانون سازی کرنے کیلئے
کتنے مسلمانان پاکستان کا خون درکارہے؟؟؟؟ |
|