نواسہ رسولؐ و جگر گوشہ بتول ؓ کی شہادت
(Attique Ur Rehman, Islamabad)
ابتدائی تعارف
حضرت حسین ؓ،حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے دوسرے صاحبزادے ہیں ۔آپؐ کو حضرت
فاطمہ اور حضرت حسن کی طرح ان سے بھی بہت زیادہ محبت تھی۔آپؐ ا ن کو اپنے
کندھے پر سوار کرتے اور ان اپنی گود میں بھی بیٹھاتے تھے ۔اور ان سے پیار و
محبت اس قدر تھا کہ اگر وہ سجدہ کی حالت میں نبی کریمؐ کی پشت مبارک پر
سوار ہوجاتے تھے تو حضورؐ اپنے سجدہ کو طویل کردیا کرتے تھے تاکہ انہیں
گرنے کے سبب کوئی گزند نہ پہنچے۔
ولادت
حضرت حسین کی ولادت 3شعبان 4ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔آپ ؐ ان کی ہیدائش
کی خبر سن کر حضر فاطمہ کے گھر تشریف لائے اور حسین کے کان میں اذان دیکر
حضرت فاطمہ سے عقیقہ کرنے کو کہا اور سر کے بال کترنے کے بعد اس کی بقدر
چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ان کی کنیت و لقب ابوعبداﷲ اور القاب میں سید
،شبیر،سبط،اصغر اور ریحٓنہ النبی مشہور ہیں۔
آپؓ کی اولاد
حضرت حسین ؓ نے کے چار بیٹے حضرت علی بن حسین(زین العابدین) ،علی اکبر اور
حضرت علی اصغر اور تین بیٹیاں فاطمہ ،سکینہ اور زینب شامل ہیں اور بعض
روایتوں میں ان کے ایک فرزند عبداﷲ بن حسین نے کربلا میں جام شہادت نوش
فرمایا ۔حضرت حسین کے صرف ایک صاحبزادے سے ان کی اولاد چلی ۔
سیدنا حسین بن علی کامقام و مرتبہ
سیدنا حسین و سیدنا حسنؓ کے مقام و مرتبہ سے متعلق متعدد احادیث مروی ہیں
جن میں حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے
فرمایاکہ ’’حسین و حسن ؓ دنیا و آخرت کے دو پھول ہیں‘‘۔اسی طرح حضرت
ابوسعید الخدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ’’حسن و حسین جنت
کے نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘۔ اسی طرح زر اور عبداﷲ سے روایت ہے کہ نبی کریم
ؐ نے فرمایا جو حضرت حسن اور حضرت حسین سے محبت کرتے ہیں وہ میری وجہ سے
محبت کرتے ہیں۔ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’حسین
مجھ سے اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اﷲ اس سے محبت کرے ،حسین
میری اولاد کی اولاد ہے‘‘۔
سیدنا حسینؓ کا مقام ومرتبہ صحابہ کرام ؓ کی نظر میں
حضرت ابوبکرؓ جب بھی حسین کو دیکھتے تو کہتے کہ’’ بیٹا علی کا ہے مشابہ
نبیؐ کے‘‘۔جب آپؓ خلیفہ بنے حیرہ کی فتح کے بعد مال غینمت میں سے بیش بہا
قیمتی چادرنواسہ رسول کو ہدیہ میں بھیجی جسے آپؓ نے بخوشی قبول کیا۔حضرت
عمرؓ نے مدائن کی فتح کے مال غنیمت میں’’ شہربانو‘‘عطیہ میں دی جن کے بطن
سے علی بن حسینؓ(زین العابدین )پیدا ہوئے۔ایک بار مال غنیمت میں کپڑا آیا
تو اس میں سیدنا حسین کے لئے نہ بچا تو سیدنا عمر فاروق ؓ نے یمن سے خصوصی
قاصد کے ذریعہ کپڑا منگواکر انہیں پیش کیا۔حضرت عثمان ؓ کے خاندان کے ساتھ
بنی ہاشم کے متعدد رشتے ہوئے جن میں حضرت حسین کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کا
نکاح سیدنا عثمان کے پوتے عبداﷲ بن عمربن عثمان سے ہو۔اسی طرح سیدنا حسین
کی صاحبزادی حضرت سکینہ کا نکاح حضرت عثمان کے پوتے زید بن عمر بن عثمان کے
ساتھ ہوا۔ سیدنا امیر معاویہ ؓ کے دربار میں سیدنا حسن و حسین کو خصوصی
اہمیت دی جاتی تھی ،ان کے ساتھ محبت و مودت کا رشتہ استوار ہوتاتھا اور ان
کو مناسب وظیفہ بھی جاری کیا جاتاتھا۔
احادیث کی روایت
حضرت حسین ؓ صغر سنی کے سبب نبی کریم ؐ سے تقریباً 8احادیث روایت کرتے ہیں
جبکہ اپنے والد حضرت علی و دیگر صحابہ سے متعدد احدیث کی روایات کتب احدیث
میں موجود ہیں۔مثال کے طورپر دو احدیث پیش خدمت ہیں۔علی بن حسین سے ،حسین
بن علی بن ابی طالب سے کہتے ہیں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ بیمار کھڑے ہوکر
نماز اداکرے اگر قدرت رکھتاہو، اگر کھڑا نہیں ہوسکتاتو بیٹھ کر نماز
بڑھے،اگر سجدہ نہ کر سکتاہوں تو رکوع سے کچھ زیادہ جھک کر سجدہ کرے،اگر
نماز بیٹھ کر بھی ادانہ کر سکے تو پھر دائیں کروٹ لیٹ کر نماز اداکرے اور
قبلہ روہوجائے۔اسی طرح ابی محمد بن علی کہتے ہیں بیان کیا میرے والد علی بن
حسین کہتے ہیں بیان کیا میرے والد حضرت حسین بن اؤعلی بن ابی طالب کہتے ہیں
کہ رسول اﷲؐ نے فرمایا کہ ’’جس نے انسانوں کے ساتھ معاملہ کیا تو ان پر ظلم
نہیں کیا ،جب بات کی تو جھوٹ نہیں بولا ،وعدہ کیا تو اس کو نہیں توڑا تو
یہی وہ شخص ہے جس کی عدالت متحقق ہے اور اس سے بھائی چارگی قائم کرنی چاہیے
اور اس کی غیبت سے احتراز کرنا چاہیے۔
بیعت یزید
حضرت امیرمعاویہؓ کی وفات کے بعد یزیزد منصب خلافت پر جلوہ آرا ہوا تو اس
نے سب سے پہلے ان لوگوں سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا کہ جن حضرات نے اس کی
ولی عہد ی کی بیعت نہیں کی تھی اور انہیں میں حضرت حسین ؓ بھی شامل تھے۔جب
سیدنا حسین کو معلوم ہوا کہ یزید نے مدینہ کے گورنر ولیدبن عتبہ کو ان سے
بیعت لینے کا حکم نامہ بھیجا ہے تو حضرت حسین ؓ نے مدینہ سے رات کی تاریکی
میں مکہ کی جانب ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ وغیرہ بھی ہمراہی
ہوئے۔راستے میں حضرت حسین اور حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ کی ملاقات حضرت عبداﷲ بن
عباس اور حضرت عبداﷲ بن عمر سے ہوئی انہوں نے استفسار کیا کہ خیریت تو ہے
کہ آپ مدینہ سے مکہ جارہے ہیں تو جواب میں دونوں حضرات نے بتایا کہ حضرت
امیرمعاویہ وفات پاچکے ہیں اور اب یزید خلیفہ بن چکا ہے اور وہ بیعت لینے
کا ارادہ رکھتا ہے۔اسی اثنا میں حضرت عبداﷲ بن عمر نہیں فرمایا ’’کہ اﷲ سے
پرہیزگاری اختیار کریں ملت اسلامیہ کو گروہوں میں تقسیم نہ کریں‘‘۔حضرت
عبداﷲ بن عمر اور حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ نے والی مدینہ کے ہاتھ پر بیعت
خؒافت کی یزید کے حق میں ۔جبکہ حضرت حسین ،ابن زبیر مدینہ سے مکہ اس لئے
ہجرت کی کہ وہ انکار کرتے تھے بیعت یزید سے۔اسی وجہ سے اہل کوفہ نے اپنی
سابقہ دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے حضرت حسین کو خطوط تحریر کئے کہ آپ ہماری
طرف آجائیں ہم آپ کی معاونت ومدد کریں گے ۔
مسلم بن عقیل کوفہ میں
امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد کوفہ سے متعدد خطوط حضرت حسین کی جانب آں ے
لگے جن میں یہ کہا جاتاتھا کہ کوفہ کے باسی آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنے
کے لئے تیار ہیں آپ یہاں تشریف لے آئیں ہم آپ کو مکمل تحفظ فراہم کریں گے
۔کثرت خطوط و رسول کی وجہ سے حضرت حسین ؓ کے دل میں سفر کوفہ کا خیال ظاہر
ہوا قبل اس کے کہ وہ روانہ ہوں کوفہ کی طرف انہوں نے کوفہ کے حالات کا
جائزہ لینے کے لئے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیجا اور ان کو خط
بھی دیا کوفہ کے نام کہ مسلم میری نیابت کرتے ہوئے آپ کے ہاں آئے ہیں اگر
انہوں نے مجھے آپ کے تعاون و مساندت کے بارے میں درست رائے دی تو میں سفر
کوفہ کے لئے روانہ ہوجاؤں گا۔مسلم بن عقیل کے دخول کوفہ کا جیسے اہل کوفہ
کو پتا چلا تو وہ دوڑے آئے اور 18000اٹھارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر
بیعت کی اور ان کی امامت میں نمازیں بھی اداکیں۔کوفی خفیہ طور پر مسلم بن
عقیل کے ہاتھ پر بیعت کررہے تھے کیوں کہ وہ خوفزدہ تھے کہ کہیں ان کو کوفہ
کے گورنر کی جانب سے معتوب نہ کیا جائے اسی اثناء میں یہ خبر یزید تک
پہنچائی گئی کہ کوفہ میں خلافت کے خلاف سازش ہورہی ہے تو اس خط کے فورا بعد
یزید نے بصرہ کے گورنر عبید اﷲ بن زیاد کو حکم دیا کہ وہ والی کوفہ نعمان
بن بشیرؓ کو معزول کرکے کوفہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیں اور کوفہ میں
پنپنے والی بغاوت و سرکشی کاخاتمہ کریں۔عبیداﷲ بن زیاد نے اپنے جاسوس و
مفتشین کے ذریعہ معلوم کرلیا کہ مسلم بن عقیل کی جائے پناہ کونسی ہے اور ان
کی معاونت کون کررہے ہیں تو فوراً مسلم بن عقیل کو گرفتار کیا اور ان پناہ
دینے والوں کو بھی اور پھر ان کو قتل کرکے بطور مثال بازار میں عیاں
کردیا۔یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مسلم بن عقیل کااٹھارہ ہزار
کوفیوں(ماسوائے دو) نے ساتھ چھوڑ دیا جس کی وجہ سے وہ کمزور و معتوب ہوگئے۔
سیدنا حسین کوفہ روانگی
کوفہ سے خطوط کی کثرت اور قاصدوں کے تبادلہ کے بعد جب مسلم بن عقیل کا خط
بھی پہنچ گیا جس میں خوش کن صورتحال کی خبر تھی اور دعوت بھی کہ وہ کوفہ
آجائیں ماحول سازگار ہے۔خط کی تحریر کے بعد کوفہ کے باشندوں نے والی گورنر
کے غیض و غضب کو دیکھتے ہوئے مسلم بن عقیل کو بے یارومددگار تنہا چھوڑ دیا
جس کے نتیجہ میں انہیں شہید کردیا گیا۔دوسری جانب حضرت حسین نے سفر کا قصد
کرلیا اس کی خبر جب کبار صحابہ اور مخلص ین و محبین اہل بیت نے ان کو عدم
سفر کا مشورہ دیا اور انہیں بتایا گیا کہ یہ وہی کوفہ والے ہیں جنہوں نے آپ
کے والد حضرت علی بن ابی طالب کو شہید کیا ور حضرت حسن کو دھوکہ دیکر ان کا
ساتھ چھوڑ دیا تھا لہذا ان پر اعتماد نہ کیا جائے وہ ہمیشہ طاقتور کا ساتھ
دیتے ہیں۔اسی وجہ سے فرزدق جو کہ مشہور شاعر تھا نے آپ کو سفر سے منع کرنے
کے لئے بتایا کہ کوفہ والوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں والی
کوفہ کے حق میں۔حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ نے حضرت حسین سے کوفہ نا جانے کا
مشورہ دیا اور بتایا کہ وہ دھوکہ دینے والے اور غداری کرنے والے ہیں آپ صؓر
و استقامت کو لازم پکڑ کر یہیں مکہ میں رکے رہیں یا پھر یمن چلے جائیں جہاں
آپ کے خاندان سے محبت کرنے والے موجود ہیں مگر حضرت حسین نے ان سے عرض کیا
چچازاد بھائی میں جانتا ہوں آپ مجھے مخلصانہ وہمدردانہ مشورہ دے رپہے ہیں
مگر اب میں اپنے فیصؒہ سے رجوع نہیں کروں گا تو حضرت عبداﷲ بن عباس نے ان
سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ نے سفر کرنا ہی ہے تو آپ اپنے ساتھ بچے اور خواتین
کو نہ لے کر جائیں چونکہ میں دیکھ رہاہوں کہ کہیں آپ کو حضرت عثمان کی طرح
بچوں اور اہل خانہ کے سامنے بے دردی کے ساتھ شہید کردیا جائے گا۔حضرت عبداﷲ
بن زبیر( جنہوں نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی)نے بھی آپؓ کو اپنے فیصلہ کو
ترک کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ کیا آپ ان لوگوں پر اعتماد کرتے ہیں جنہوں
نے آپ کے والد کو شہید اور آپ کے بھائی کو دھوکہ دیا تو ان کے جواب میں بھی
حضرت حسین ؓ نے فرمایا کہ میں یہ پسند کرتاہوں کہ میں قتل کردیا جاؤں مگر
یہاں رہنے کی وجہ سے کعبہ شریف کی حرمت پامال ہو یہ پسند نہیں کرتا ۔ادھر
سے یزید کو جب معلوم ہواکہ حضرت حسین عراق کی جانب روانہ ہوچکے ہیں تو اس
نے عبیداﷲ کو خط لکھا کہ معلوم ہواہے کہ حسین کوفہ کی جانب منزل ہیں لہذا
ہوش مندی کے ساتھ خلافت کی حفاظت کے لئے حکمت و دانشمندی سے کام کرو اور ان
کو گرفتار کرلو۔کسی کو قتل نہ کیا جائے جب تک وہ خود جنگ نہ کریں۔اس امر سے
واضح ہوتاہے کہ یزید نے حضرت حسین کے قتل کرنے کا ہر گز حکم نہیں دیا۔جس کا
ہمارے معاشرے میں پروپیکنڈا کیا جاتاہے۔سیدنا حسین ؓ کو عراق کے قریب پہنچ
کر پتہ چلا کہ حضرت مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا تو انہوں نے کہا کہ
ہمیں ہمارے شیعہ نے دھوکہ دیا اور اس کے بعد واپسی کا فیصلہ کیا مگر مسلم
بن عقیل کے بھائیوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے یاہم اپنے
بھائی کا بدلہ لے لیں یا پھر قتل ہوجائیں۔
کوفیوں سے خطاب
حضرت حسین ؓ جب عراق پہنچے تو ان کو ابن زیاد کی فوج نے گہرے میں لے لیا تو
حضرت حسین نے خطبہ پڑھا اور فرمایا ’’اے اﷲ مجھے بھروسہ ہے ہر مشکل و غم
میں ،آپ ہی سے مدد کا طالب ہوں مشکلات میں،آپ ہی پر اعتماد ہے مجھے کہ میری
معاونت کریں گے،کتنے ہیں جو کمزور تھے مگر کامیاب و سرخرو ہوئے ،دوست دھوکہ
دیتے ہیں اور دشمن بھی آپ سے امید رکھتے ہیں،آپ سے جاہ و مزلت اور شان و
شوکت کا طالب ہوں ،میرا کوئی سہارا نہیں ہے آپ کے سواآپ ہی مجھے مشکل و
تنگی سے نجات دلائیں اور آپ ہی ہر نعمت و خیر کے کارساز ہیں ‘‘۔اس کے بعد
آپ نے کوفہ کی فوج جو کہ حر بن یزید تمیمی کی قیادت میں سے خطاب کرتے ہوئے
فرمایا کہ’’اے لوگو! میں آپ سے اور اﷲ سے معذرت کرتاہوں،میں آپ کی طرف اپنی
مرضی و خواہش سے تمہارے پاس نہیں آیا بلکہ آپ نے خط تحریر کیے اور اپنے
قاصد بھیجے کہ ہمارا کوئی امیرو رہبر نہیں ہے آپ تشریف لائیں ہماری قیادت
سنبھالیں اسی طرح ہم ہدایت کے ساتھ وابستہ ہوں گے،پس جب میں آیا تو میری
اطاعت کرنا تم پر لازم ہے اور اگر میرا ساتھ چھوڑتے ہوتو یہ دھوکہ و فریب
ہے اور وعدہ خلافی ہے،اور ہم واپس لوٹ جائیں گے جہاں منساب سمجھیں گے مگر
حر بن یزید نے کہا کہ نہیں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم آپ کو گرفتار کر کے
کوفہ کے والی کے پاس لے جائیں تو حضرت حسین نے اپنے لشکر کے لوگوں سے مخاطب
ہوتے ہوئے فرمایا جو جدا ہونا چاہتا ہے تو ہوجائے کیوں کہ والی کو صرف میری
ضرورت ہے ،اور حضرت حسین نے تین شرائط پیش کیں کہ ان میں سے کوئی قبول کرلی
جائے تو میں بھی تیار ہوں اول مجھے واپس جانے دیا جائے جہاں سے ہم آئے ،دوم
مجھے یزید کے پاس جانے دو میں اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دوں گا،سوم مجھے
اسلامی سرحدپر بھیج دیا جائے تو میں وہاں پر کفار سے لڑتے ہوئے شہید ہوجاؤں
۔کوفی فوج کے سربراہ عمر بن سعد ابی وقاص ان شرائط سے متاثر ہوکر اس سے
والی کوفہ کو باخبر کیاتو ۔یہ پیشکش جب عبیداﷲ کو پیش کی گئی تو پہلے تو
ابن زیاد راضی ہوگیا مگر شمر ذی الجوشن کی مکارانہ رائے سے وہ بعد میں
متاثر ہوگیا جس میں اس نے کہا کہ اگر تم نے حسین کو چھوڑ دیا تو یہ یزید کے
پاس پہنچ گئے تو وہاں دونوں چچا زاد بھائی مل جائیں گے اور حضرت حسین کی
شکایت پر تمہیں اور ہمیں یزید معتوب کرکے سزادے گا۔اس لئے ان سے مطالبہ کرو
کہ وہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لے وگرنہ مت جانے دو۔ابن زیاد شمر کی سازش کے
جال میں آگیا اور اس نے یہی مطالبہ کیا تو حضرت حسین نے اسے قبول نہ کیا۔
شہادت حسینؓ
اس لئے ابن زیاد نے شمر کی سرکردگی میں عمر بن سعد سے مطالبہ کیا کہ اگر
حضرت حسینؓ بیعت نہ کریں تو ا ن سے جنگ کرو ورنہ قیادت شمر کو سونپ دو۔عمر
بن سعد نے قیادت شمر کو دینے کی بجائے خود انتھک کوشش کی کہ وہ حضرت حسین
کو سرنڈر کرنے پر راضی کر لیں مگر ایسا نہ ہو حضرت حسین نے انکار کردیا
استسلام سے جس سے یہ ظاہر ہوتاہے حسین ؓ نے جنگ کا آغاز نہیں کیا مگر یہ کہ
انہوں نے خودسپردگی کے مطالبہ کو مسترد کردیا۔اس کے بعد دونوں گروہوں میں
جنگ کا آغاز ہوا ،حضرت حسین کے لشکر میں 72جبکہ ابن زیاد کی فوج میں پانچ
ہزار لوگ شامل تھے، کوفیوں نے حضرت حسین کا ساتھ چھوڑ دیاجبکہ لازمی تھا کہ
وہ ان کا بھرپور دفاع کرتے مگر ایسانہیں ہوابلکہ انہوں نے خیانت کی جس کے
بعد حضرت حسین ؓ کے 72ساتھی جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگئے ۔
دربار یزید
سیدنا حسین ؓ کو شہید کرنے کے بعد ابن زیاد کے حواریوں نے ان کا سر کاٹ کر
جسد ِ اطہر سے الگ کیا اور ابن زیاد کو بھیجا جس پر اس نے یزید کو خوش کرنے
کے لئے یہ سر روانہ کیا جب یزید نے نواسہ رسولؓ کے سر کو دیکھا تو آہ و بکا
کرنے لگا اور کہا کہ لعنت ہو ابن سمیہ(عبیداﷲ بن زیاد)پر کہ میں ان کو
شہیدکرنے کی بجائے بھی ان سے راضی ہوتا اﷲ کی قسم میں وہاں موجود ہوتا تو
ان سے درگزر کرتا،اﷲ تعالیٰ رحمت نازل کرے سیدنا حسینؓ پر۔ابن زیاد نے حضرت
حسین کے صاحبزادے علی بن الحسین(زین العابدین) کومع اہل خانہ کے یزید کی
جانب دمشق روانہ کیا تو یزید نے خواتین کو شاہی محل میں اپنے اہل خانہ کے
ساتھ رکھا اور زین العابدین کو بھی شاہی مہمان بنایا ۔اہل بیت کے گھرانے کی
خدمت میں کسی طرح کی غفلت کو اختیار نہیں کیا گیا بلکہ ان کی ہر سطح پر
معاونت کی گئی۔یہاں تک کہ یزید نے آل حسین سے استفسار کیا کہ تم میں سے کسی
کے مال کو تو غصب نہیں کیا گیا جس پر انکار میں جواب دیا گیا کہ کوئی لوٹ
مار نہیں کی گئی۔جب آل حسین نے مکہ جانے کا قصد کیا تو یزید نے حضرت نعمان
بن بشیرؓ کو حکم دیا کہ وہ اس قافلہ کو باحفاظت مکہ پہنچانے کے لئے امانت
دار محافظوں اور ان کے ساتھ گھوڑے اور زاد راہ فراہم کرے۔حضرت زین العابدین
کو روانہ کرتے وقت یزید نے پھر ابن زیاد پر لعنت بھیجی اور کہا کہ میں نے
آپ کے والد کے ساتھ سفر جہادکیا اور ان کو کریم و رحیم پایا اور ان کی ہر
ممکن ضروریات کا میں نے خیال رکھا تھا مگر ہر ذی روح کو دنیا سے جانا ہے
۔یزید نے حضرت علی بن الحسین کو زاد راہ کی فراہمی کرنے کے ساتھ فرمایا کہ
جب بھی کوئی حاجت و ضرورت ہو تو مجھے لکھ بھیجنا۔
قاتلان حسین کون؟
حضرت زین العابدین فرماتے ہیں ’’ھیھات ھیھات اے غدارو!مکارو،تمہاری مرادی
پوری نہ ہوں ،کیا تم چاہتے ہوکہ مجھے بھی فریب دو جیسے میرے باپ دادا کو اس
سے قبل فریب دیا تھا‘‘(احتجاج طبری۴۸۱)۔حضرت زینب بنت علی نے کوفہ والوں کے
ماتم کے جواب میں کہا ’’اے ا ہل کوفہ کس وجہ سے تم روتے ہو؟جب رسول خداؐ تم
سے پوچھیں گے کہ تم نے میری اولاد اور اہل بیت کے ساتھ کیا سلوک کیا،تم ہم
پر یہ گریہ ونالہ کرتے ہو،حالانکہ تم نے ہی ہم خوقتل کیا ہے‘‘۔(جلاء
العیون۳۰۵)حضرت فاطمہ بن حسین ؓ ’’’اے اہل کوفہ تم نے ہم کو قتل کرنا حلال
جانا،ہمارے مال کو لوٹا ،تمہاری تلواروں سے اہل بیت کا خون ٹپک
رہاہے‘‘۔(احتجاج طبری۷۵۱) حضرت ام کلثوم بنت علی نے کوفی خواتین کے رونے پر
کہا ’’اے زنان کوفہ ! تمہارے مردوں نے ہمارے مردوں کو قتل کیا پھرتم کیوں
روتی ہو؟(جلاء العیون۷۰۵)
امت مسلمہ کیلئے درسِ عبرت موعظت
تاریخ کے تمام واقعات کا ماحصل یہ ہوتاہے کہ انسان اس کی ورق گردانی کرنے
کے ساتھ ان سابقہ ہستیوں کی کامیابیوں کو مطالعہ کرکے اترانے یا تکبر و
غرور کی بجائے خود کو مزید بہتر سنوار کر عروج کی منازل طے کی جائیں اور
اسی کے ساتھ یہ بھی لازمی و ضروری ہے کہ ماضی میں ہونے والی کمزوریوں اور
خامیوں کو دروکرنے کی سنجیدہ و عملی کو شش کی جانی چاہیے نہ کہ رونا دھونا
اور پیٹنا ایک معزز مسلمان کا طرزعمل ہو۔جگرگوشہ بتولؓ سیدنا حسین ؓ کی
حالات زندگی کا مختصر جائزہ لینے کے بعد یہ طے کیا جانا چاہیے کہ اب
مسلمانوں کو دنیوی و اخروری زندگی میں فلاح کے حصول کے لئے کونسا راستہ
اختیار کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی اپنے اذہان سے صحابہ کرام ؓ یا اہل
بیت عظام کی محبت و مودت کو وطیرہ بناناچاہیے جیسے وہ باہم شیر و شکر تھے۔ |
|