اسلامی کیلنڈر کا مختصر تعارف

اسال نو مبارک اور اسلامی کیلنڈر کا مختصر تعارف
اللہ تعالی کے فضل سے اسلامی کیلینڈر کے لحاظ سے نئے سال کا آغاز ہوچکا ہے۔اللہ تعالی یہ نیا سال ہم سب کے لئےبہت بہت مبارک ہو اور ساری بنی نوع انسان کے لئے یہ نیا سال ہر لحاظ بہت زیادہ خیر وبرکت، قیام امن و یگانگت کی نوید ہو۔

دنیا میں اکثر وبیشتر دو قسم کے کیلنڈر پائے جاتے ہیں.

قمری کیلنڈر : قمری مہینے چاند کی رویت سے انتیس یا تیس دن کے ہوتے ہیں اورایک قمری سال تین سو چوّن دن (354.36) پر مشتمل ہوتا ہے ۔اس نظام کا انحصار چاند پر ہوتا ہے۔اسی نسبت سے اسے قمری نظام تقویم کہا جاتا ہے۔اکثر قدیم تہذیبوں میں مہینوں اور سالوں کے تعین کے لئے بنیادی طور پر چاند کو ہی معیار ٹھہرایا گیا ہے۔کیانکہ چاند کو ہر کوئی آسانی سے دیکھ سکتا ہے۔اور کی اس میں ہونے والی مسلسل تبدیلیاں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس لئے پرانی تہذیبوں نے قمری کیلنڈر ر ہی اعتماد کیا جاتا رہا ہے۔

قمری نظام کے بارے میں قرآنی ارشادات
1۔بےشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہے۔اللہ کی کتاب میں،جب سے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ سورۃ التوبۃ 36
2 ۔ لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ یہ لوگوں (کی عبادت) کے وقتوں اور حج کے موسم کے لیے ہے‘‘ (سورۃ البقرۃ آیت نمبر (189)
3 ۔وہ اللہ تعالی ایسا ہے جس نے آفتاب کو چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو نورانی بنایا اور اس کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔ اللہ تعالی نے یہ چیزیں بے فائدہ پیدا نہیں کیں۔
(سورۂ یونس آیت نمبر5 )

عیسوی کیلنڈر : اس میں کل تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں۔اس طرح عیسوی کیلنڈر کے بالمقابل ہجری کیلنڈر سے سال میں تقریباگیارہ دن کم ہوتے ہیں اور ایک صدی میں دونوں کیلنڈروں کے درمیان تین سال کا فرق پڑجاتا ہے۔ عیسوی کیلنڈر کے مطابق نئی تاریخ کا آغاز بارہ بجے رات سے ہوتا ہے۔

ہجری کیلنڈر کے اعتبار سے غروب آفتاب سے نئی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔

اسلامی کیلنڈر کے مہینوں کے اسماء اور ترتیب عرب دنیا میں قدیم سے رائج ہے۔احادیث شریفہ میں ان اسماء کا ذکر کئی اہم واقعات کے سلسلہ میں ۔

اسلامی مہینوں کی اسماء ،ترتیب اور ان کی وجہ تسمیہ
1۔ محرم الحرام ۔۔یہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔اس مہینہ میں جنگ و جدل حرام قرار دیا گیا ہے۔اس لئے اس کو محرم کہتے ہیں۔
2۔صفر : اس کو صفر اس لئے کہتے ہیں۔ کیونکہ عرب اس ماہ میں دیگر قبائل پر حملے کے لئے اپنے اہل خانہ سے الگ ہوجاتے ۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عرب اس میں قبائل پر حملہ کرتے تھے اور انہیں بے سروسامان کر جاتے تھے .
3۔ربیع الاول : اس کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ یہ موسم بہار میں آتا تھا اس لئے اس کا یہی نام پڑ گیا .
4۔ربیع الثانی : اس کا یہ نام اس لئے پڑا کہ عرب اس میں اپنے جانوروں کے لئے گھاس اکٹھا کرتے تھے اس لئے اس کا نام ربیع ہوا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مہینہ موسم بہار میں آیا کرتا تھا اس لئے اس کا نام ربیع پڑا .
5۔جمادی الاول : اسلام سے پہلے اس کا نام "جمادی خمسہ" تھا اور جمادی اس لئے کہا گیا کہ یہ موسم سرما میں واقع ہوتا تھا اور اس میں پانی جم جاتا تھا .
6۔جمادی الثانی : اسلام سے پہلے اس کا نام "جمادی ستہ" تھا اور اس کا یہ نام موسم سرما میں آنے کی وجہ سے پڑا .
7۔رجب : یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ، اس کا نام رجب اس لئے پڑا کہ عرب اس میں برچھیوں کے آہنی نیزوں کو نکال دیا کرتے تھے اور لڑائی سے گریز کرتے تھے . اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رجب کے معنی ہی جنگ سے گریز کرنا ہے .
8۔شعبان : اس کا نام شعبان اس لئے پڑا کہ لوگ اس میں پانی کے تلاش میں ادھر ادھر تتر بتر ہوجاتے تھے .
9۔رمضان : یہ تو مسلمانوں کے لئے روزہ رکھنے کا مہینہ ہے، اس کا یہ نام اس لئے پڑا کہ اس نام رکھنے کے وقت گرمی اور سورج کی شدت شباب پر ہوتی تھی ، اور جس وقت یہ نام رکھا جا رہا تھا اس وقت گرمی کی شدت تھی .
10۔ شوال : اس میں عید الفطر ہوتی ہے ، اس کا یہ نام اس لئے پڑا کہ اس میں اونٹنیاں حاملہ ہوا کرتی تھی اور ان کے دودھ خشک ہوتے تھے .
11 ۔ذوالقعدہ : یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے اس کا نام ذو القعدة اس لئے پڑا کہ عرب اس میں حملوں اور سفر سے اجتناب کرتے تھے اور اسے حرمت والا مہینہ سمجھ کر جانوروں کے لئے گھاس اور اپنے لئے توشہ کی جستجو سے پرہیز کرتے تھے .
12۔ذوالحجہ : اس میں حج اور عید الاضحی انجام دئے جاتے ہیں اور یہ بھی حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، اس کا نام ذو الحجة اس لئے پڑا کہ اس مہینہ میں عرب حج کو جایا کرتے تھے۔

اسلامی کیلنڈر کی موجودہ ترتیب

اس نظام کو ہجری اسلامی کیلنڈر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اگر چہ یہی مہینے قبل اسلام بھی عرب معاشرہ میں انہی ناموں کے ساتھ رائج تھے۔سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں جب اسلامی حکومت دور دور تک پھیل گئی۔

ایک مرتبہ حضرت ابو موسی اشعری ؓ جب کوفہ کے گورنر تھے۔انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی ۔آپ کی طرف سے ہمیں جو احکامات ملتے ہیں ان خطوط پر تاریخ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں حکم نامہ کی تاریخ کا وقت نہیں ہوپاتا۔ جس کی وجہ سے ان پر عمل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔

اس پر حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام کی ایک کمیٹی ترتیب دی جو اسلامی کیلنڈر مرتب کرے۔اس سلسلہ میں چند ایک تجاویزات زیر غور آئیں۔حضرت علی ؓ کی پیش کردہ تجویز کہ اسلامی کیلنڈر کا آغاز آنحضرت نبی کریم ﷺ کی مکہ سے مدینہ کی ہجرت کے وقت سے شروع کی جائے۔ کیونکہ پہلی اسلامی مملکت ہجرت کے بعد ہی مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔حضرت عمر فاروق ؓ کو حضرت علی ؓ کی یہ تجویز پسند آئی اور اسی کی آپ نے منظوری عطا فرمائی جو اللہ تعالی کے فضل سے آج تک دنیائے اسلام میں رائج ہے۔
کل عام و انتم بخیر
Munawar Khursheed
About the Author: Munawar Khursheed Read More Articles by Munawar Khursheed: 47 Articles with 53140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.