کسی بھی ملک کی ترقی میں جتنا کردارتعلیم
کوحاصل ہے اتنا دیگر شعبہ ہائے زندگی کو کم ہی حاصل ہوتا ہے کیونکہ تعلیم
ہی کے ذریعے انسان اپنے آپ کو اور اپنے اردگردکے معاشرے کو سمجھنے کی
صلاحیت حاصل کرتا ہے،وگرنہ وہ اپنے آپ سے ا ور معاشرے سے الگ تھلگ
ہوجاتاہے۔یوں وہ معاشرہ تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں
پیچھے رہ جاتاہے۔اسی طرح ملک خدادادمیں بھی ہر پانچ سال بعد کئی حکومتیں
اور کئی جماعتیں برسراقتدارآئیں ،جن کے نعروں میں دیگر کارہائے کے علاوہ
تعلیمی میدان میں ترقی بھی اولین ترجیح تھی ،مگر جب بھی کوئی جماعت
برسراقتدارآئی تو آتے ہی دیگر جھمیلوں میں پڑ کر انہوں نے تعلیمی ترقی کو
خیرآبادکہا یا دوسر ے الفاظ میں تعلیمی میدان میں کسی بھی قسم کا کارنامہ
انجام دینے سے قاصر نظر آئے یوں ملک تعلیمی میدان میں خاطرخواہ ہدف
پوراکرنے میں یکسر ناکام رہا۔اور ہم ترقی پذیر کالیبل لئے دنیا کے سامنے
کھڑے رہے۔اسی طرح دہشت گردی،بدامنی اور دیگر انتشارات کا شکار صوبہ
خیبرپختونخوا بھی نہ صرف تعلیمی میدان میں دیگر صوبوں سے پیچھے رہ چکاتھا
بلکہ ساتھ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں اس صوبے کی حالت نہایت ابتر تھی۔مگر
2013کے عا م انتخابات کے نتیجہ میں صوبہ خیبرپختونخوامیں پاکستان تحریک
انصاف برسراقتدار آئی ،اپنے دیگر وعدوں کے ساتھ ساتھ پاکستا ن تحریک انصا ف
نے تعلیمی میدان میں بھی کارہائے نمایاں دکھائے۔پاکستا ن تحریک انصاف کا سب
سے بڑا کارنامہ صوبہ بھر میں 85000سے زائد اساتذہ کی شفاف طریقے سے بھرتی
کاعمل تھا جسے ایک نجی ادارے کے ذریعے پورا کیا گیا۔اس عمل کے ذریعے صوبہ
بھرمیں نہ صر ف اہل اورتعلیم یافتہ افرادکو بھرتی کیا گیا بلکہ ساتھ رشوت
اور سفارش کلچر کے خاتمے کے لئے بھی صوبائی حکومت نے اپنا بھرپور
کرداراداکیا۔اسی طرح صوبہ بھرمیں صوبہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ٹی لیبز
بنائی گئیں جس کا مقصد سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء
وطالبات کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنا تھا۔اس کے علاوہ نئے بھرتی ہونے والے
اساتذہ کو بین الاقوامی معیار کی خصوصی تربیت بھی دی جارہی ہے تاکہ نئے
بھرتی شدہ اساتذہ اپنے اپنے سکولوں میں طلباء وطالبات کو جدید دور کے
تقاضوں سے ہم آہنگ کرسکیں۔یقینا صوبہ کی تاریخ میں اتنے بڑے پیمانے پر
اساتذہ کی بھرتی ایک چیلنج سے کم نہیں تھالیکن پاکستا ن تحریک انصاف کی
صوبائی حکومت نے اسے احسن طریقے سے انجام تک پہنچایا ۔اس سے قبل محکمہ
تعلیم میں اساتذہ کی بھرتی ان کی پیشہ ورانہ قابلیت اور سینئر جونیئر کی
بنیادپر کی جاتی تھی۔اور جن میں اکثریت سفارشی اور رشوت کے بل بوتے پربھرتی
کئے جاتے تھے اور جن کا مقصد قوم کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا
نہیں بلکہ صرف اور صرف سرکاری عہدہ حاصل کرنا ہوتا تھا ۔اور جن میں اکثریت
نااہل اور غیر تربیت یافتہ لوگوں کی بھی ہوتی تھی۔مگر پاکستان انصاف کی
صوبائی حکومت کی 2013میں این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی نے ثابت کردیا کہ
پاکستان تحریک انصاف واقعی میں تعلیمی تبدیلی کے لئے کوشاں ہے۔اور جس
کوعلمی جامہ پہناتے ہوئے اب تک 85000سے زائد اساتذہ بھرتی کئے جاچکے
ہیں۔اورامسال مزید 15000اساتذہ بھرتی کئے جائیں گے۔جس سے تعلیمی ہدف کو
پوراکرنے میں خاطرخواہ حد تک مدد مل سکے گی۔اس سے پہلے ادوار میں اتنے بڑے
پیمانے پر اساتذہ کی بھرتی کاعمل کبھی دیکھنے کونہیں ملااور شاید ہی دیکھنے
کومل سکے کیونکہ این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی سے رشوت اور سفارش کلچر کاخاتمہ
ہوا ہے اور ایسا ہمارے معاشرے کے چند عناصر ہرگز نہیں چاہتے اس لئے ایسے
عناصر پاکستان تحریک انصا ف کی حکومت کا دورانیہ ختم ہونے کے انتظارمیں ہیں
کہ کب پاکستان تحریک انصاف اپنا دور اقتدارختم کرتی ہے اور پھران کی
کارروائیاں شروع۔۔جیسے اوپر ذکر ہوچکاکہ پہلے بھرتی ہونے والے امیدواروں کے
کاغذات کی جانچ پڑتا ل کا عمل مکمل خفیہ ہوتا تھا ۔اب چونکہ بھرتی این ٹی
ایس کے ذریعے کئی جارہی ہیں اس لئے ہر امیدوار اپنے سے آگے اورپیچھے کے
ایجوکیشن کیرئر اورپیشہ ورانہ مہارت بارے جانکاری حاصل کرسکتا ہے یوں نااہل
اور جعلی کاغذات پر بھرتی ہونے کا خدشہ بھی مکمل ختم کیا جاچکاہے۔اس کے
علاوہ پہلے پرائمری اساتذ ہ کی اکثریت کم تعلیم یافتہ تھی لیکن این ٹی ایس
کے ذریعے یہ با ت بھی دیکھنے کوملی ہے کہ پرائمری سکول ٹیچر کے لئے پی ایچ
ڈی ڈگری ہولڈربھی کوالیفائی ہوئے ہیں جس سے یقینا تعلیمی اہداف کے حصول میں
مدد ملے گی۔ ان سب باتوں کے علاوہ اہم بات بھرتی ہونے والے اساتذہ کی
کارکردگی ہے کیونکہ صوبائی حکومت یا پاکستان تحریک انصاف نے تو اپنا وعدہ
ایفا کردیا ا ب دیکھنا یہ ہے کہ بھرتی ہونے والے اساتذہ کہاں تک اپنی قومی
اوراخلاقی ذمہ داری نبھاتے ہیں کیونکہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی
کے اس دورمیں سرکاری جاب کاحصول ناممکن کی صورت اختیار کرچکا ہے ،ایسے میں
صوبائی حکومت اگر تعلیمی شعبہ میں بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرتی ہے
تویقینا بھرتی ہونے والوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کس طرح سے اور
کہاں تک اپنی قوم کے نونہالوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کرنے میں اپنا مثبت
کرداراداکرتے ہیں۔کیونکہ اکثر دیکھاگیا ہے کہ پہلے تو ہمارے نوجوانوں کو
سرکاری نوکری نہیں ملتی اور جس کے لئے دردرکی ٹھوکریں کھانے کے ساتھ ساتھ
بھاری رشوت اور تگڑی سفارش سے بھی دریغ نہیں کرتے لیکن جونہی ان کے ہاتھ
کوئی سرکاری عہدہ آجاتاہے تب وہ ہواؤں میں اڑنے لگتے ہیں ۔یوں قوم پھر سے
کئی سال پیچھے چلی جاتی ہے۔اس کے علاوہ پہلے چونکہ نااہل اور کم تعلیم
یافتہ لوگ بھرتی ہوتے تھے اورجن کاتدریس کے ساتھ ساتھ دوردور تک کوئی واسطہ
تعلق نہیں ہوتا تھا ۔ایسے افراد صرف ٹائم پاس کرنا جانتے تھے۔مگر اب چونکہ
اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہل لوگ آرہے ہیں اور جن کا مقصد قوم کو جدید دورکے
تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی ہے اس لئے ہمارے نئے بھرتی ہونے والے نوجوانوں
کو اپنی حتی الوسعی کوشش کرنی ہوگی کہ وہ قوم کو تیا رکرنے میں کوئی کسر نہ
اٹھا رکھیں۔قوم کو تیارکرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔اور اسی
لئے تو بڑے بزرگ کہہ گزرے ہیں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ۔اگر ایک طرف
صوبائی حکومت شفاف طریقہ سے بھرتی کا عمل پورا کرتی ہے تودوسری طرف بھرتی
ہونے والے امیدواروں کی بھی قومی اوراخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی ذمہ
داریاں نبھانے میں کوئی کسر باقی نہ رکھیں۔یقینا ہم ایک عرصہ سے ترقی پذیر
کا لیبل لئے ہوئے ہیں۔اب پڑھتے ہیں کہ فلاں فلاں ملک سو فیصد تعلیم کا ہدف
پورا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔وہاں کے اساتذہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں
اپنی تمام تر توانائیاں صرف کررہے ہیں۔وہاں کے اساتذہ پیشہ ورانہ قابلیت پر
پورااترتے ہیں۔وہاں کے اساتذہ جدید دورکے تمام تقاضوں پر پورااترتے
ہیں۔توکیا ہمارے ہاں جدید دورکی تمام تر سہولیات میسرنہیں۔کیا نئی عمارت
اوردیگر سہولیات ہماری تدریس میں رکاوٹ کا باعث بن رہی ہیں ،ہرگز نہیں
کیونکہ تدریس کا عمل سہولیات سے کوسوں دورہے۔اگر ہم تعلیم وتربیت کو
سہولیات سے وابستہ کرنے لگیں تو یقینا ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔اس کے
برعکس ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہرگز دیکھنے کونہیں ملتا۔آج اگر مغربی
ممالک تعلیمی میدان میں ہم سے آگے ہیں تو اس کی بڑی وجہ وہاں کے اساتذہ
تربیت یافتہ اور اعلیٰ یافتہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ کو جدید دور
کے ساتھ چلانے میں اپنی حتی الوسعیٰ کوشش کرتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا
بہہ رہی ہے۔ہم سب کچھ حکومت پرڈال دیتے ہیں۔اوریہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ
ہمارے ہاں فلاں فلاں سہولت نہیں جس کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہورہی
ہیں۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ نئے بھرتی شدہ اساتذہ اپنے قومی اوراخلاقی
فریضہ کو علمی جامہ پہنائیں تاکہ قوم کامستقبل سنورسکے اور ہم ترقی یافتہ
ممالک کی صفوں میں کھڑے ہونے کے قابل ہوسکیں۔اور ایسا کوئی مشکل نہیں اگر
ہمارے اساتذہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ایمانداری دکھائیں۔ |