ماڈل سٹی یا مثالی شہر!
(Shaikh Khalid Zahid, Karachi)
نیو یارک، ٹوکیو، ویانا،سیول ، پیرس،
استنبول، اوسلو، شنگھائی، ایتھنز، اسٹوک ہوم، ٹورنٹو،زیورخ، لندن، ریاض،
ڈبلن وغیرہ۔۔۔ان شہروں کہ نام سے کیا چیز آپ کہ ذہن میں آئی۔۔۔یقینا ان کہ
نام پڑھ کر ذہن میں ایک مثالی شہر کی سی تازگی کا احساس ہوا ہوگا۔۔۔ان
شہروں کی اور ان جیسے لاتعداد شہروں کی کوئی نہ کوئی مخصوص خصوصیات
ہونگیں۔۔۔مگر یہ خصوصیات مثبت پہلومیں ہوں تو تاثر مثالی شہر کا آئے
گا۔۔۔ان شہروں میں رہنے والے افرادزمینی دنیا کہ ہی لوگ ہیں نہ کہ خلاسے
آئی ہوئی کوئی مخلوق ہیں۔۔۔ہماری طرح کھاتے پیتے چلتے پھرتے اشرف المخلوقات
ہیں۔۔۔معلوم نہیں انہیں اس بات کا علم بھی ہے کہ وہ اشرف المخلوقات
ہیں۔۔۔ہم جس ملک کہ باشندے ہیں یہاں تو لوگوں کو یہ بہت اچھی طرح پتہ ہے کہ
وہ قدرت کی خلق کی گئی اعلی ترین مخلوق ہیں۔۔۔خصوصی طور پر وہ افراد جو کسی
نا کسی دنیاوی عہدے یا منصب پرفائز ہیں۔۔۔
مثالی شہر پر لکھنے کا خیال کیوں آیا۔۔۔کراچی پچھلے کئی ماہ سے اضطرابی
کیفیت سے دوچار ہے۔۔۔گو کہ کراچی وہ شہرہے جو ساحلِ سمندر پر آباد ہونے وجہ
سے مضطرب ہی رہتا ہے۔۔۔ہوا یہ کہ ٹریفک پولیس نے اچانک فیصلہ کر لیا کہ
کراچی میں بغیر لائسنس کہ کسی بھی قسم کی گاڑی نہیں چلائی جائے گی۔۔۔یعنی
بغیر لائسنس ڈرائیونگ پر پابندی۔۔۔ایسا ہی ہونا چاہئے مگر مدتوں بعد کیوں
۔۔۔کچھ وقت پہلے اسلحہ کہ لائسنس کیلئے بھی ایسا ہی ہوا مگر نتیجہ ہم سب کہ
سامنے ہے ۔۔۔ویسا ہی نتیجہ اس حکم نامے کہ بعد ہوا۔۔۔کراچی میں اس سے پیشتر
شناختی کارڈ رکھنے پر بھی اسی قسم کا اعلان ہوا۔۔۔گاڑی کہ کاغذات پر بھی اس
طرح کا فرمان جاری ہوا۔۔۔ہمارے ملک میں قائدِ اعظم کی اہمیت کہیں ہو یا نا
ہو مگر آپ کی تصویر والے کاغذوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔۔۔اس تصویر والے
کاغذ کی ہمارے ملک کی پولیس سب سے زیادہ عزت و تکریم کرتی ہے ۔۔۔مگر سب لوگ
اس کا استعمال نہیں کرسکتے( نا ہونے کی وجہ سے) ۔۔۔دوسرے ہی دن ٹریفک پولیس
کہ دفاتر پر لائیسنس بنوانے والوں کا تانتا بلکہ حجمِ غفیر جمع ہوگیا۔۔۔یہ
حجم اتنا بڑا کہ فارم ہی نا پید ہوگئے۔۔۔خیر ہو اربابِ اختیار کا جنہیں
خیال آیا کہ ہم بھی یہاں کچھ کرنے بیٹھے ہیں۔۔۔ایک ماہ کی مدت کا اصافہ
کردیا گیا۔۔۔اس سارے معاملے سے قطع نظر کیا کسی بھی صوبے یا شہر میں اس قسم
کا کوئی بھی حکم نامہ کوئی بھی ادارہ بغیر حکومتی عملدرامد کہ شائع یا لاگو
کر سکتا ہے؟؟؟میری ناقص العقل تو یہ بات ماننے کیلئے تیار نہیں۔۔۔ پھر
حکومت بھی جمہوری ہو۔۔۔
بلدیاتی انتخابات سلسلہ وار جاری ہیں۔۔۔ جلد ہی یہ عمل پایہ تکمیل کو پہنچے
گا۔۔۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہونے جا رہا ہے کہ کسی جمہوری
حکومت نے بلدیاتی انتخابات کر وائے ہیں ۔۔۔گوکہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ
اس میں بھی اعلی عدلیہ کا بڑا کردار ہے ۔۔۔انشاء اﷲ جلد ہی تمام صوبوں میں
بلدیاتی ادارے ایک بار پھر بھر پور طریقے سے فعل ہوجائینگے ۔۔۔امید کی
جاسکتی ہے کہ کافی حد تک تیزی سے بڑھتے ہوئے بنیادی مسائل پر قابو پا لیا
جائے گا۔۔۔
وفاقی حکومت کواب ایک اعلان کرنا چاہئے کہ بلدیاتی ادارے جو شہری سطح پر
کام کرتے ہیں ۔۔۔اپنے شہر کو ماڈل سٹی یا مثالی شہر بنا کر دیکھائیں۔۔۔شہر
کو مثالی بنانے کیلئے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے ۔۔۔جس کے تحت شہر کو
مثالی یا ماڈل قرار دیا جائے۔۔۔ شہر ، شہریوں سے ہے اور شہری معاشرے کی
اکائی ہے ۔ مثالی شہر یا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ جو پرسکون ہو طبعی و
معاشرتی اعتبار سے۔۔۔مثالی شہر سے ہماری کیا مراد ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں؛
سب سے پہلے شہری اداروں میں کام کرنے والوں سے حلف لیا جائے کہ وہ اپنی ذمہ
داریاں احسن طریقے سے انجام دینگے۔حرام سے خود دور رکھینگے ۔بغیر انکی
ایمانداری کہ شہر آہستہ آہستہ گاؤں اور پھر بیابان کی صورت اختیار کر لے گا۔
یہ شہر آپ کہ بچوں کا بھی ہے، آپ کہ اہلِ خانہ بھی یہیں رہتے ہیں۔آپ یقینا
اپنے خاندان کہ سامنے شرمندہ ہونا نہیں چاہینگے۔ شہری یا بلدیاتی انتظامیہ
ہفتہ وار پرچہ شائع کرے جس میں اپنے بہترین کارندے کا اعلان کرے چاہے وہ
خاکروب ہی کیوں نہ ہو۔
انصاف و قانون کی بالادستی ہو ۔ شہریوں کو قانونی مدد شہری حکومت کی طرف سے
فراہم کی جائے۔انصاف بلا تفریق ہو۔
شہربھر کی سڑکیں(چھوٹی چھوٹی گلیوں ، محلوں سے لے کر اہم ترین
شاہرائیں)ہموار ہوں۔
شہری ٹریفک کہ قوانین کی پاسداری کو یقینی بنائیں۔
نکاسی آب کا بقاعدہ اور واضح انتظام ہو۔
پانی کی سپلائی کا نظام واضح ہو(دن اور وقت علاقے کہ حساب سے متعین ہواور
شہری آگاہ ہوں)۔
گلی محلوں اور شاہراہوں پر نصب بجلی کہ بلب کام کرتے ہوں۔
ذرائع نکل و حمل (ٹرانسپورٹ) کا واضح نظام ہو۔پبلک ٹرانسپورٹ شہریوں کی
ضرورت کہ مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہو۔دستیاب ٹرانسپورٹ کا
باقاعدہ فٹنس سرٹیفیکیٹ موجود ہو۔ ٹرانسپورٹ اپنی مخصوص جگہوں پر رکے ۔
ٹرانسپورٹ کا عملہ بھی نظم و ضبط کی اعلی مثال ہو۔
بازاروں کی کھلنے اور بند ہونے کہ اوقات کار واضح ہوں اور ان پر عمل درآمد
ہو۔ پارکنگ کا انتظا م لازمی قرار دیا جائے ۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے
کہ عام ٹریفک کی آمد ورفت میں کوئی خلل نہیں پڑے۔
مساجد ، امام بارگاہ، چرچ اورمند ر تمام عبادت گاہوں کہ مخصوس رنگوں سے
تخصیص کی جائے۔
اسکول ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بھی رنگوں سے موسوم کیا جائے۔
شہر میں موجود تمام صنعتیں رجسٹرڈ ہوں (اس بات کا خیال رکھا جائے کہ چھوٹی
چھوٹی صنعتیں کارخانے گھروں کہ بیچ چل رہے ہوتے ہیں ۔ انہیں جلد از جلد
صنعتی علاقے میں منتقل کیا جائے )۔
شہر میں موجود تمام صنعتوں کی سالامتی اور حفاظتی سرگرمیوں پر خاص توجہ دی
جائے۔
تعمیراتی کاموں پر معینہ وقت پر تکلمیل کیلئے زور دیا جائے اور اسے یقینی
بنایا جائے۔
پولیس کا کردار مثبت ہوعام شہری پولیس کو دیکھ کر ڈرنا چھوڑ دیں اور بد
معاش ، چور ، ڈاکو دیکھ کر یہ کام کرنا چھوڑ دیں۔پولیس کا نعرہ ہے کہ پولیس
کا ہے فرض مدد آپ کی پربھر پور عمل درآمد کرے۔
سرکاری ہسپتالوں کا انتظام ایسا ہو کہ لوگ نجی ہسپتالوں میں جانابھول
جائیں۔پیدائشی اور موت کہ سرٹیفیکیٹ ہسپتالوں سے جاری ہوں
شہری حکومت ، شہریوں کہ کیلئے مختلف موضوعات پر آگاہی سیمینار منعقد
کریں۔جن میں بیماریوں کہ حوالے سے ، دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے، بارشوں اور
زلزلوں کی احتیاطی تدابیر کہ حوالے سے وغیرہ وغیرہ۔
کوئی بھی مہم شروع کرنے سے پیشتر شہریوں کو آگاہ کیا جائے۔اس مہم کہ حوالے
سے امکانات پر بھرپور توجہ دی جائے۔
ادیبوں شاعروں اور مفکرین کو خصوصی اہمیت دی جائے اور ان سے معاشرتی اقدار
پر رہنمائی لی جائے۔
بزرگ کمیٹیاں بنائیں اور ان کو فعال بنائیں۔
کھیلوں کی کمیٹیاں تشکیل دیں۔شہریوں خصوصا نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیاں
فراہم کرنے کیلئے زیادہ کھیلوں کہ مقابلے منعقد کئے جائیں۔
مندرجہ بالا چند اقدامات ہیں جن کا بھرپور اطلاق معاشرے میں انقلابی تبدیلی
لاسکتا ہے۔یہ تجاویز نا صرف شہروں کی طبعی شکل سدھارنے میں اہم کردار
اداکرسکتی ہیں بلکہ معاشرے میں رہنے والے افراد بھی ان تجاویز کی بدولت
اپنی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبہانا شروع کردینگے۔
حکومتی ادارے عوام سے جو توقعات وابستہ رکھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ عوام
حکومت سے توقعات رکھتی ہے۔امید کی جا سکتی ہے کہ ان تجاویزکا خلوص کہ ساتھ
اطلاق کی بدولت شہری حکومت اور شہریوں کہ درمیان ایک خوشگوار تعلق قائم
ہوگا۔ نصرت فتح علی خان مرحوم کی آواز میں گائی گئی غزل کا ایک شعرنا جانے
کیوں مجھے یا د آرہا ہے اس کہ ساتھ ہی اپنے مضمون کا اختتام کرونگاکہ
تمھیں دلگی بھول جانے پڑے گی
محبت کی راہوں میں آکر تو دیکھو
اگر ایسا ہوگیا تو آنے والے وقتوں میں جب کوئی مثالی شہر کی بات کرے گا تو
پاکستان کہ شہرسب کیلئے ضرب المثل ہونگے ۔ |
|