سیاست یا مذاق

پاکستان میں سیاست اب ایک سنجیدہ چیز کے بجائے کھیل بنتی جا رہی ہے، اور اس کے ذمہ دار ہیں عمران نیازی جو عرف عام میں عمران خان کہلاتے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ مختلف لوگوں سے بھری ہوئی ہے جو سیاست کے افق پر چمکے اور ڈوب گئے کچھ ایسے ہیں جنہیں آج بھی پیار سے یاد کیا جاتا جبکہ کچھ گوشہٗ گمنامی میں ہمیشہ کے لیے گم ہو گئے کبھی ان کا ذکر بھی آتا ہے تو ناک بھوں چڑھا کر نفرت سے طوعاََ وکرھاََ نام لیا جاتا ہے ۔

جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو وہ ایک الگ شخصیت تھے ایک سنجیدہ اور عام لوگوں کی نظر میں ایک معتبر شخصیت جس سے امید تھی کہ آگے جا کر یہ ضرور ایک کامیاب لیڈرثابت ہوں گے جن کا نام ہمیشہ زندہ اور اونچا رہے گا۔

مگر وقت گزرتا رہا اور وہ ایک نشست بھی نہ جیت پائے یہاں تک کہ پرویز مشرف کی آمریت نے جمہوریت کی بیساکھی استعمال کرنے کا پروگرام بنایا تو اس نے پی ایم ایل نون کو توڑ کر ان لوگوں کو اپنی طرف آنے کی دعوت دی جو نظریاتی لوگ تھے وہ اپنی جگہ ڈٹے رہے مگر جو ابن الوقت قسم کے لوگ تھے انہوں نے پٹڑی بدل لی اور پی ایم ایل ق بن گئی۔ مشرف نے الیکشن کروائے اور ق لیگ کو جتوا دیا ساتھ ہی ساتھ اس نے برسوں سے کوششیں کرتے دو لوگوں کو بھی اسمبلی میں بیٹھنے کا چانس دیا ان میں سے ایک عمران خان تھے دوسرے ملا کینیڈی طاہر القادری تھے۔ آج دھاندلی کا رونا رونے والے اور نواز شریف کو آمریت کی پیداوار کہنے والے خان صاحب پہلی بار دھاندلی کے زور پر ہی ایک آمر کی نظر کرم سے اسمبلی کی سیٹ پر بیٹھے تھے۔

ایک بار کرسی پر بیٹھ کر ان کے منہ کو بھی خون لگ گیا اور اب ان کی نظریں آگے دیکھ رہی تھیں یعنی پی ایم کی کرسی کی طرف وہ بھی شورٹ کٹ سے (شاید شورٹ کٹ عزیز سے متاثر ہو گئے تھے) ، مشرف کی رخصتی کے بعد پی پی پی کی حکومت آئی اس میں کیا کیا ہوا یہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہر کسی کو وہ دور ظلمت یاد ہے۔ پی پی پی کے پانچ سالہ دور حکومت میں نہ خان صاحب کو کوئی خیال آیا نہ ملا کینیڈی جاگے۔ یہاں تک کہ ۲۰۱۳ کے الیکشن آ گئے اس الیکشن سے پہلے ہی کئی برساتی مینڈک خان صاحب کے گرد جمع ہو گئے کہ اب ان کا چانس لگ رہا ہے،کچھ اچھے لوگ بھی عمران خان کی شخصیت اور نعروں کے سحر کا شکار ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خان کی قلابازیوں غیر سنجیدگی اور آمرانہ روش سے بد دل ہو کر پارٹی چھوڑ گئے ۔ خان کو یقین تھا کہ اتنے اور ایسے لوگ میرے گرد اکٹھے ہو گئے ہیں تو اب مجھے کوئی نہیں ہرا سکتا اور انہوں نے شیروانی پہن کر حلف اٹھانے کی مشق بھی شروع کر دی تھی مگر جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو سب لوگوں کے ساتھ عمران خان بھی سکتہ کی کیفیت میں آ گئے کہ یہ کیا ہو گیا ہم ہار گئے؟ نواز شریف نے واضح اکثریت سے یہ الیکشن جیت لیے۔ یہ ہار خان سے برداشت نہیں ہو رہی تھی جس کا مظاہرہ مختلف اوقات میں سامنے آتا رہا بالآخر دھاندلی کا شور مچا دیا گیا کبھی ۴ سیٹیں تو کبھی پینتیس پنکچر غرض جو بھی آ کر ان کے کان میں جو بات کہہ دیتا وہ آگے بڑھا دیتے مگر وہ اپنے کسی بھی دعوے کو اب تک ثابت نہیں کر سکے۔ اس چیز کو لے کر ملا کینیڈی سے سازباز کر کے ۲۰۱۴ میں طویل ترین دھرنا دیا جو ان کے لیے سانپ کے منہ میں چھچھوندر بن گیا نکلنے کا کوئی راستہ نہ پا کر ملا کینیڈی نے محرم کا بہانہ بنایا اور بھاگ گیا جبکہ خان کو آرمی سکول کے واقعہ کو سبب بنا کر اس بے مقصد دھرنے سے جان چھڑانے کا موقعہ ملا۔

اب ان کو خبروں میں بھی رہنا تھا تو وقتاََ فوقتاََ شور کرتے رہے پھر اچانک پینامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا تو اس کو بنیاد بنا کر پھر تھریکیں شروع کر دی گئیں ، مگر ہم نے ایک بات نوٹ کی ہے جو شاید دیگر لوگوں نے بحھی نوٹ کی ہو گی کہ عمران خان پیٹھ پیچھے نواز شریف کے خلاف کچھ بھی کہہ لیں کیسی بھی گندی زبان استعمال کر لیں مگر ان میں یہ ہمت نہیں ہے کہ نواز شریف کے منہ پر آ کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسی بات کہہ سکیں ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ نواز شریف پارلیمنٹ میں آ کر صفائی پیش کریں ، نوازشریف نے یہ شرط پوری کر دی اور پارلیمنٹ میں آ کر بات کی وہ موقعہ تھا کہ ساری قوم دیکھ رہی تحھی ساری پالیمنٹ موجود تھی آپ کروس سوال کرتے اسی وقت جواب مانگتے مگر ہوا کیا خورشید شاہ نے مختصر سی تقریر کی اور اٹھ کر نکل گئے عمران خان اپنی پارٹی کے سربراہ تھے جنہوں نے اتنے عرصے سے تحریک چلا کر یہ کامیابی سمیٹی تھی کہ نواز شریف کو آن دا فلور آ کربات کرنے پر مجبور کر دیا تھا تو اب کیوں آپ منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے اور جب خورشید شاہ اٹھے تو ان کے طفیلی کا کردار ادا کرتے ہوئے اٹھ کر نکل گئے اور چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ باہر خورشید شاہ بول رہے ہیں اور خان صاحب پیچھے شامل باجہ کی حیثیت سے کھڑے ہیں۔ یا للعجب۔

خانصاحب نے خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے مسلسل واقعات کا نوٹس لیتے ہو ئے جلسوں میں خواتین کی آمد پر پابندی لگا دی تھی مگر رائیونڈ کی سولوفلائٗیٹ کو کامیاب کرنے کے لیے یہ پابندی ہٹا دی گٗی اور وہ جنہیں عرف عام میں من چلے کہا جاتا ہے مگر جو درحقیقت بیغیرت ہوتے ہیں وہ آگئے ،بدتمیزی بھی ہوئی مگر جلسہ کسی طرح کامیاب ہو گیا۔ مگر ایک ہی تقریر بار بار بار بار سن سن کر کان پک گئے ہیں اور بچوں تک کو ازبر ہو گٗٗی ہے۔اس میں اپنے وزیراعظم کو اوئے نواز شریف بجکہ مودی کو مودی صاھب کہہ نکر مخاطب کیا ۔ پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن سے اجتناب کیا اور اسد عمر کو خوشخبری دی کہ اجلاس ناکام ہو گیا ہے اس وقت آپ کے دانت اندر نہیں جا رہے تھے ہمیں تو سوچنا پڑ رہا ہے کہ مودی کا یار غدار کون ہے؟ اب ہم کچھ کہیں گے تو شکایت ہو گی۔ سمجھنے والے سمجھ گئے ہیں نہ سمجھے وہ عمرانی ہے۔

آج ملک کی سلامتی خطرے میں پڑی ہے مودی کی حکومت پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی باتیں کر رہی ہے سرجیکل اسٹرائیک کے جھوٹے دعوے کیے جا رہے ہیں ، آج ہمیں آپسی رنجشیں بھلا کر اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے اے پی سی بلائی تو سب شریک ہوئے مگر جیسا کہ ہم نے اومر لکھا ہے کہ خان صاحب میں نواز شریف کا سامنا کرنے کی ہمت یا جرات نہیں ہے اس لیے خود آنے کے بجائے شاہ محمود قریشی کو بھیج دیا چلیں یہ بھی بہتر ہے کہ اس موقع پر اس میٹنگ میں حصہ تو لیا مگر یہ کیا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آنے سے انکار کر دیا جو ملک کی سلامتی اور کشمیر کے مسئلہ پر منعقد کیا جا رہا ہے ۔ یہ کوئی نواز شریف کے فائدے کے لیے نہیں ہو رہا۔ اور خان صاحب یہ وہ پارلیمنٹ ہے جس کے آپ رکن ہیں جہاں آپ نے حلف اٹھایا ہے جہاں آپ ساڑھے تین سال میں صرف ۴ مرتبہ آئے ہیں اور وزیر اعظم کی غیر حاضری پر اعتراض کرتے رہے ہیں اسی سیٹ کی تنخواہ اور مراعات آپ دونوں ہاتھوں سے سمیٹتے رہ ہیں مگر آج جب ملک کے لیے ضرورت پڑے تو نہ خود آ رہے ہیں نہ اپنی پارٹی کے کسی بندے کو آنے دے رہے ہیں یہ سب کیا ہے آپ کس کے اشاروں پر کھیل رہے ہیں ۔

اس وقت اگر کوئی سنجیدہ اور معتبر شخص ہوتا تو آپسی اختلافات بھلا کر دشمن کے سامنے ڈٹ جاتا مگر آپ کے لیے اپنا مفاد سب چیزوں سے یہاں تک کہ ملک سے بھی مقدم ہے۔ اب بھی وقت ہے ۲۰۱۸ اب زیادہ دور نہیں اگر آپ کے بقول اٹھارہ کروڑ عوام آپ کے ساتھ ہیں تو کیا فکر(اس کے باوجود آپ ہر ضمنی الیکشن بشمول کشمیر ہار گئے) ، آپ ۲۰۱۸ کے الیکشن جیت کر نواز شریف اینڈ برادرز کا تیا پانچا کر دیجیے گا مگر ﷲ اس وقت کچھ تو تدبر سے کام لیں اور اپنی یہ بے وقت کی راگنی بند کریں جس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ وزیراعظم کشمیر کا مقدمہ لڑنے جا رہے ہیں اور آپ دشمن کو پیغام دے رہے ہیں کہ یہ تو معتبر ہی نہیں ہم انہیں وزیر اعظم نہیں مانتے تو اس کا فائدہ کس کو ہو گا؟َ کیا یہ مقدمہ کمزور کرنے اور دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے والی حرکت نہیں؟ آپ اب پینسٹھ برس کے ہو چکے ہیں بچے نہیں ہیں جو بچکانہ حرکتیں کیے جا رہے ہیں ہاں اگر سٹھیا گئے ہیں تو یہ ایک الگ بات ہے۔

ٓآخر میں ایک سچا لطیفہ بھی سن لیں۔ مودی جب تک وزیراعظم نہیں بنا تھا تب تک گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی وجہ سے اس پرامریکہ سمیت کئی ملکوں کے دروازے بند تھے، کوئی اسے ویزا نہیں دے رہا تھا مگر اس سیٹ پر پہنچتے ہی سارے دروازے کھل گئے کیونکہ ایک وزیراعظم کو بیرونی دورے کرنے پڑتے ہیں کئی میٹنگز اور اجلاس میں شریک ہونا پڑتا ہے اس لیے یہ پابندی ہٹا لی گئی اور خان صاحب کو دیکھیں مطالبہ کر رہے تھے کہ وزیراعظم نواز شریف کا نا م ای سی ایل میں ڈالا جائے، اس کو کیا کہیں ان کی ذہنی حالت یا سطح کو کیا سمجھیں۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔

آخر میں خانصاحب اور ان کے ماننے والوں سے درخواست ہے کہ وقت کی نزاکت کو سمجھیں آپسی جھگڑے پھر نمٹ جائیں گے نوزشریف کا نام نہ سہی مگر انہوں نے جوابدہی کا عندیہ دیا ہے وہ کہیں بھاگ نہیں رہے ان کو بھی پاکستان میں ہی رہنا ہے یہ نازک وقت گزر جائے پھر آپ دوبارہ اپنی روش پر آ جایے گا مگر ﷲ اس وقت نواز شریف کے نہیں پاکستان کے ہاتھ مضبوط کریں مظلوم کشمیریوں سے اپنی ہار کا انتقام نہ لیں۔ اس وقت ان کو اور ملک کو آپ کی ضرورت ہے۔ایسے وقت جب کہ جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے کیا وزیراعظم سے استعفی مانگ کر ایک بحران کھڑا کرنا عقلمندی ہے؟
ملک ہے تو ہم ہیں آپ اگر وزیراعظم بنے تو پاکستان کے بنیں گے اب بھی سمجھ سے کام لیں ورنہ۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Tughral Farghan
About the Author: Tughral Farghan Read More Articles by Tughral Farghan: 13 Articles with 11734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.