سید بدر سعید۔ایک حوصلہ مند،کھرا لکھاری
(Haseeb Aijaz Ashir, Dubai)
عمر میں سید بدر سعیدچاہے چھوٹاسہی مگر
اِسکی بصارت اور بصیرت کسی بزرگ صحافی سے کسی درجے کم نہیں۔درواندیشی،
حالات شناسی، شخص شناسی جیسے غیر معمولی کمالات یہ جوان تو اپنے قلم کی نوک
پے لئے پھرتا ہے۔اور جب انہیں قرطاس کی زینت بناتا ہے تو نہ اسے سوچتے ہوئے
سر کھجانے کی ضرورت ،نہ کسی کتاب اور جریدے سے حوالہ جات تلاش کرنے کی
ضرورت آڑے آتی ہے ، نہ ہی کوئی طویل وقت درکار ہے۔انکا قلم ببانگ دہل چلتا
ہے۔ اِس کا اخلاص،حوصلہ مندی، کھری نیت ، کام سے لگن، کچھ نئا لکھنے کا
جذبہ نئا پانے کا جنون اِسکے راستوں کوآسان و منورکئے دیتے ہیں ۔ والدین کی
دعائیں، اساتذہ کی شفقت اور دوستوں کی محبت کو چھوڑ کر ایک قدم بھی آگے نہ
بڑھنے کا عمل ہی ہے کہ یہ جو کرنے کا اردہ کر گزرے وہ لمحہ بھر میں اِس کی
گرفت میں آ جاتا ہے ۔مزاح نگاری ہو، کالم نگاری ہو، فیچر نگاری ہویا تحقیق
ہی کیوں نہ ہو، ہر صنف میں اپنے نام کا لوہا خوب منوایا ہے۔میدانِ شاعری
میں بھی طبع آزمائی سے خاموشی نہیں برتی،موقع محل دیکھ کر داد و تحسین
بٹورے بغیر نشست برخاست نہیں ہونے دیتا ۔
بدر نے اپنے قلمی سفر کا آغاز2006 میں ماہنامہ چاندسے کیا اور مزاح نگاری
کے حوالے سے اپنے خوب قلمی جوہر دیکھاکر قلم قبیلہ کو اپنا معترف بنا دیا ۔پھریوں
حکایت، حسب حال، نوائے وقت، سیارہ، فیملی میگزین، گوگو، جناح سمیت کئی دیگر
اخبارات، جراید، آن لائن میگزین میں اپنی تخلیقات سے بھرپور پذیرائی حاصل
کی ہے اور اہل قلم حضرات میں وہ مقام حاصل کر لیا جو اتنے قلیل عرصے میں کم
کم کو حاصل ہوا ہے۔ کئی نجی چینل کے لئے سینکڑوں سکرپٹ بھی لکھ چکے ہیں ۔۔
انکی پہلی تہلکہ انگیز تصنیف’’خود کش بمبار کے تعاقب میں‘‘جو2012میں شائع
ہوئے، نے ادبی میدان میں ایک ایسی جنبش پیدا کر دی کہ مقبول و معروف ادبی،
صحافتی،سماجی اور سیاسی شخصیات نے انکی اس کاوش کو بھرپور سراہا ۔مایہ ناز
سائنس دان محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اِس کتاب اور صاحب کتاب کے
حوالے سے اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ’’ سید بدر سعید کی کتاب بے حد دلچسپ
ہے اور بدر سعید کی بے انتہا کاوش و ریسرچ ورک کا نتیجہ ہے ۔ اﷲ کرے زور
قلم اور زیادہ!‘‘سینئر تجزہ نگار سہیل وڑائچ اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں
کیا کہ ’’میں سید بدر سعید کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں انہوں نے خود کش
بمبار جیسے حساس موضوع پر غیر جانبداری سے دونوں پہلووں کا جائزہ لیا اور
ایک نئے نقطہ نظر سے تحقیقی کتاب لکھی جو قابل تحسین ہے اس سے قبل میں نے
اس حوالے سے جتنی کتابیں دیکھیں ان میں غیر جانبداری نظر نہیں آئی‘‘
حال ہی میں شائع ہونے والی اب اِس نوجوان کی دوسری کتاب’’صحافت کی مختصر
تاریخ۔قوانین و ضابطہ اخلاق‘‘ کی گونج بھی تمام صحافتی حلقوں میں سنائی دے
رہی ہے صحافی اور صحافت کا ذوق رکھنے والوں کی کثیر تعدادکا اِس کتاب کے
حصول اور مطالعے کی بے تابی کا اندازہ اِس بات سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے
کہ چند ہفتوں میں ایک ہزار سے زائد کتاب ہاتھوں ہاتھ بِک چکیں ہیں ۔ سوشل
میڈیا پے ایک طوفان برپا ہے صاحب کتاب کو مبارکبادوں کا جہاں سلسلہ جاری ہے
وہاں صحافت سے وابستہ احباب بھی اپنی ٹائم لائن پے اِس کتاب کے حوالے سے
صاحب کتاب کو تحسینی کلمات سے نواز رہے ہیں، اپنے اِس خوش نصیب دوست پے رشک
آتا ہے ۔ اور رشک کیوں نہ کر آئے اِس نوجوان نے میڈیا ہاوسز میں جاب بھی کی
اپنی ویب سائیٹ کے لئے مواد بھی لکھا مقبول نجی چینل کے لئے باقاعدگی سے
سکرپٹ بھی لکھا،دوست احباب سے کنارہ کشی بھی نہ کی ، گھریلو ذمہ داریوں سے
بھی راہِ فرار اختیار نہ کی اور ان ساری مصروفیات میں سے وقت نکال کر
لائبریریوں کے پرانے گوشوں میں پڑے پرانے اخبارات پر پڑی دھول بھی جھاڑی،
تاریخ کو چھانا، تحقیق بھی کی اور تصدیق بھی اور پھر تقریباً تین سو صضحات
پر مشتمل ’’صحافت کی مختصر تاریخ ‘‘ کتاب بھی منظرعام پر لے آئے۔اِس کتاب
کو ایورنیو بک پیلس نے شائع کیا ہے۔کتاب کا انتساب بدر نے جس انداز میں
اپنے والدین کے نام کر کے ان سے والہانہ محبت کا خوبصورت اظہار کیا ہے اپنی
مثال آپ ہے۔ملاحظہ کیجئے’’والد محترم سید ظفر نقوی اور ماں جی کے نام جو
گود میں اٹھائے سکول لے جاتے رہے اور جن کی انگلی تھام کر چلنے میں آج بھی
فخر محسوس کرتا ہوں ‘‘
حرفِ آغاز بعنوان ’’اپنی بات‘‘میں بدر لکھتا ہے کہ اپنے پبلشر سے کنٹریکٹ
میں صحافت کے مضمون کو پہلے سائن کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بطور صحافی میرے
نزدیک یہ انتہائی اہم مضمون ہے ۔میدانِ صحافت میں قدم رکھنے والوں کا جاننا
ضروری ہے کہ یہ ایسی دنیا ہے جو ہر آنے والے دن کیساتھ اپنا انداز بدل لیتی
ہے۔جاننا اہم ہے کون سے بات نشر ہو گی تو اس پر گرفت ہو سکتی ہے۔اپنی خواہش
کا اظہار کرتے لکھتے ہیں کہ اس کتاب کو نصاب نہیں بلکہ کامیاب صحافی بننے
کی نیت سے پڑھیں۔
کتاب کے ۲۵۶ باب ہیں ۔ہر باب میں داستانِ صحافت رودادِ صحافی ایسی سمیٹ دی
گئیں جیسے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہو اور یہ ہنرصرف بدر ہی جانتا
ہے۔بغیر کسی پیچ و خم کے الفاظ کے بناؤ سنگھار کے ،عام فہم انداز اور سلیس
اُردو میں بدر نے بڑی ہی خوش اسلوبی سے یہ کتاب لکھ کر صحافت کی عظیم خدمت
کر کے میدانِ صحافت کی اُس صف میں اپنے آپ کو لا کھڑا کیا ہے جہاں بڑے بڑے
نامور صحافی بھی اپنی جگہ بنانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔انہوں نے گزشتہ ۲۰
سالوں میں فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید اور زخمی ہونے والے صحافیوں کے
حوالے ان کے نام و مقام اور تاریخ کے ساتھ شام کر دیے جو کہ ایک بہت بڑا
کارنامہ ہے۔
اِس کتاب میں’’ صحافت آغاز و ارتقاء، برصغیر کی مقامی زبانوں میں صحافت کا
اغاز، آگرہ میں اردو صحافت کا آغاز، ۱۸۵۷ سے قبل اور بعد کی مسلم صحافت اور
مزاحمتی صحافت، بیسویں صدی کی ابتدائی صحافت، تحریک پاکستان میں غیر
جانبدار اور مخالف مسلم صحافت اور انکے رہنما چراغ۔سرسید احمد خان، مولانا
محمد علی جوہر، مولانا حسرت موہانی، ابو الکلام آزاد اور مولانا ظفر علی
خان کی صحافتی خدمات، پاکستان صحافت کا مختصر جائزہ،۔ریڈیو،فلم ،ٹی وی ،
کیبل چینلز اور نیوز ایجنسیز کا ارتقاء۔اہم پاکستان خبر رساں ادارے،
پاکستانی صحافت پر تدغن ۔پاکستانی کے مختلف سیاسی ادوار میں صحافت کی حالتِ
زار۔صحافیوں کی قربانیاں ان پر مقدمات و الزامات۔قیام پاکستان کے قبل اور
بعد کے صحافتی قوانین۔مختلف ادوار کے ایکٹ اور پریس اینڈ پبلی کیشنز
آرڈیننس ، پیمرا۔ضابطہ اخلاق، سائبر کرائم بل۔مختلف نوعیت کے ضابطہ اخلاق۔
اسلام و صحافت۔زرد صحافت ‘‘ جیسے موضوعات پر صدائے ضمیر پر سچ و حق لکھا ہے
اِس کے علاوہ اس کتاب میں ضمیہ جات جس میں قدیم اور معروف اخبارت کے پہلے
شمارے کے عکس موجود ہیں۔
چند روز قبل سید بدر سعید کی اسی کتاب ’’صحافت کی مختصر تاریخ‘‘کی رونمائی
کے حوالے سے لاہور پریس کلب میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیاگیا جس کی
صدارت بدر کے والدِ محترم سید ظفر نقوی نے کی تقریب میں سہیل وڑائچ، حافظ
شفیق الرحمن، روزنامہ دن کے ایڈیٹر میاں حبیب، نجم ولی خان، ایثار رانا،
عابد سلمان ، سہیل ریاض،سید انور قدوانی، اعتبار ساجد، عبدالمجید ساجد،
معین اظہر کے علاوہ عقیل خان، شہزاد اسلم راجہ، اختر سردار چوہدری، مہر
جنید، حافظ اسحاق جیلانی، ماجد احمد ثمر، الطاف احمد، زاہد حسین، وسیم عباس،
محمد طاہر تبسم درانی، پھول بھائی، رضوان ، محمد سہیل احمد، اسعد نقوی،
افتخار خان، محمد علی رانا، ذیشان انصاری، عقیل انجم خان، عثمان یوسف قصوری،
شہباز چوہدری، ملک ساجد اعوان، رانا فیصل عزیز، سمیت شہر کی کئی معروف ادبی
وصحافتی شخصیات نے شرکت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے سید بدر سعید
کی اِس کاوش کو خوب سراہتے ہوئے کہا کہ مصنف نے ایک تاریخ رقم کی ہے انہوں
نے بدر سعید کو دل کی اتہا ہ گہرائیوں سے مبارکبادیں بھی پیش کی ۔
مجھے قوی امید ہے کہ اِس نوجوان کا نام قلم قبیلہ کے اُن قدآورلکھاریوں میں
ضرورہوگاجنہوں نے جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر احساس ذمہ داری سے اپنے
قلم سے خوبصورت معاشروں کی تشکیل کی ۔ آمین
|
|