بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بعض تاریخی واقعات صدیاں گزرجانے کے بعد بھی ایک گنجلک راز کی حیثیت رکھتے
ہیں۔اﷲتعالی ان رازوں سے کب پردہ اٹھائے گا کچھ معلوم نہیں۔واقعہ کربلا بھی
شایدان رازوں میں سے ایک راز ہے۔نواسہ رسول ﷺکا اپنے مقدس خانوادہ سمیت
تاریخ کی مختصرترین مدت میں کنارفرات تپش و پیاس کی انتہاشدتوں میں جام
شہادۃ کونوش جان کرجانا، کوئی معمولی و آسان فہم امر نہیں ہے۔چندہفتوں پہلے
تک بھی اتنے بڑے واقعے کے کچھ بھی اثرات کا بالکل معدوم ہونا اور انگلی پر
گنے چنے چند ایام میں دیکھتے ہی دیکھتے اتنے بڑے سانحے کاظہور،تاریخ کے کسی
بھی طالب علم کے لیے ایک لاینحل مسئلہ ہی ہو سکتاہے۔تاریخ کے معمولی معمولی
واقعات بھی وقوع پزیر ہونے سے پہلے تاریخ کو چند بڑی بڑی کروٹیں ضرور دلاتے
ہیں،کہیں تو پیشین گوئیاں بھی نظر آنے لگتی ہیں کہ انسانی حالات کی نبض پر
نظررکھنے والے ذہین افرادوقت سے پہلے ہی بدلتے حالات کی چاپ سن لیتے
ہیں۔لیکن واقعہ کربلا ان تمام تاریخی حقائق سے الگ ایک ایسا وقوعہ ہے کہ
تجزیے،جائزے اور جس پر تبصرے صدیوں سے جاری ہیں اور نہ معلوم کتنی صدیاں
اور جاری رہیں گے کہ کبھی اس راز سے پردہ اٹھ پائے گا یا پھر کبھی نہیں۔
واقعہ کربلا کی تفہیم کاایک حوالہ مکۃ المکرمہ کے جوارمیں منی کی وادی میں
واقع ہونے والا ’’ذبح عظیم‘‘بھی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اﷲتعالی کے
حکم پر اپنے خانوادہ مختصرکو بیابان میں چھوڑا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام جب
کسی بلند چوٹی پر پہنچتے تواﷲتعالی سے پوچھتے کہ یہاں اپنی بیوی اور بچے کو
چھوڑ دوں؟؟؟،ان کے ذہن میں شاید یہ بات تھی کی بلندی پر ہونے کے باعث کسی
مشکل کی صورت میں دوردورتک کسی گزرنے والے کو پکار نے کاامکان
ہوسکتاہے،جواب میں اﷲ تعالی کی طرف سے انکار سن کر آگے کو سدھارجاتے،پھرکسی
بلند چوٹی پر پہنچتے تویہی عمل دہرایاجاتا یہاں تک ایک انتہائی کی نشیبی
مقام پر بے آب و گیاہ ،بنجروویران اور کل اطراف میں بلندوبالا پہاڑوں میں
گھراایک مقام جب قدموں تلے آیاتو حکم خداوندی ہواکہ اس مقام پر اپنی بیوی
اور بچے کو چھوڑ کر چلے جائیں۔یہ غریب الدیاری تو حضرت اسمائیل علیہ السلام
پرآئی تھی اور انہیں قدرت نے ویرانے میں چھوڑاتھا لیکن فیصلہ ربانی کہ ان
کے لیے تو ایک شاندار شہر اور اس شہر میں ایک عظیم الشان تاریخ و تمدن
اورلازوال تہذیب کی بنیاد ڈال دی گئی لیکن بلآخر یہ غریب الدیاری حضرت امام
عالی مقام امام حسین بن علی پر آن کر ٹوٹی کہ ان کی قسمت میں کرب و بلا کی
ویرانیاں لکھ دی گئی تھیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کادیاہوا پانی کا مشکیزہ جب ختم ہوا تو ننھے
اسمائیل علیہ السلام پیاس کی شدت سے پڑپنے لگے،مامتانے صفاو مروہ کے درمیان
سات چکر لگائے جب تک تو لخت جگرنظر آتارہتا تو آہستہ آہستہ دوڑتی تھیں لیکن
جب مزید نشیب میں جاتیں اور فرزندارجمندنظروں سے اوجھل ہو جاتا تودیوانہ
وار بھاگ پڑتی تھیں یہاں تک کہ پھر مرکزمحبت پر نگاہیں ٹک جاتیں۔سینکڑوں
سالوں سے اسی طرح ہی سعی بین الصفا والمروہ جاری ہے اور رہتی دنیاتک جاری
رہے گی۔قدرت کو اس معصوم جان پر ترس آیااور اس کے قدمو ں کی رگڑ سے زم زم
کا چشمہ پھوٹ نکلا جو تادم تحریرگزشتہ چا ہزارسالوں سے جاری ہے اور اس کے
بہاؤ میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی یہاں تک کہ صوراسرافیل میں پھونک ماردی
جائے ۔پیاس کی شدت کا شکار تو حضرت اسمائیل علیہ السلام ہوئے لیکن ان کے
لیے ایک چشمہ جاری کر دیاگیا جبکہ یہی پیاس امام عالی مقام امام حسین پر آن
کر ٹوٹی اور دریائے فرات کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں کے کنارے پیاس کی جان
لیوا شدت نے اہل بیت اطہار کے ہونٹوں کی نمی بھی چوس لی۔
حضرت اسمائیل علیہ السلام لڑکپن میں پہنچے تو اﷲ تعالی نے ذبح کا حکم صادر
فرما دیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باربارخواب دیکھا کہ اپنی پیاری
چیزراہ ﷲ قربان کررہے ہیں۔بہت غوروحوض کے بعد اسی نتیجہ میں پہنچے پیرانہ
سالی میں نوخیزاولاد نرینہ کے سوا اور کیا متاع عزیز ہوسکتی ہے؟؟حضرت
اسمائیل علیہ السلام سے ذکرکیاتو باپ کی طرح بیٹابھی چونکہ حامل وحی
تھا،اﷲتعالی کا حکم سن کر فوراََہی سمعنا واطعناکی عملی تصویر بن گیا۔اچھے
کپڑے پہن کر باپ بیٹا مکہ مکرمہ سے وادی منی کی طرف روانہ ہوئے،دونوں نے
اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھیں کی مبادا اس ’’ذبح عظیم ‘‘کے عمل میں نظروں
کے ٹکرا جانے سے شفقت و محبت کاجذبہ حائل ہو جائے۔چھری کواچھی طرح
تیزکیاتاکہ جگرگوشہ نبی کو زیادہ دیرتکلیف نہ ہونے پائے،جب چھری گردن پر
چلی اور پورے زور اور پوری قوت سے چلنے کے باوجود گردن کٹنے کانام ہی نہ لے
رہی تھی،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ساتھ پڑے پتھرپر چھری چلائی تووہ پتھر
دو ٹکڑے ہو گیالیکن حضرت اسمائیل علیہ السلام کی گردن پر یہ چھری ناکام رہی
تاآنکہ جب چھری چلی تو جنت سے لایاگیامینڈھاذبح ہوگیا۔جس چھری کو حضرت
اسمائیل علیہ السلام کی گردن پر چلناتھا ،تاریخ کا مسافر بلآخر اس چھری کو
کرب و بلا کی تپتی دوپہر میں امام عالی مقام امام حسین کی گردن پر چلتے
دیکھتاہے۔
حضرت اسمائیل علیہ السلام کے زمانے سے چلنے والی چھری سے درمیان میں ایک
بار پھر بھی حضرت عبداﷲ بن عبدالمطلب ذبح ہونے سے بال بال بچ گئے تھے۔واقعہ
یہ ہے کہ بنوجرہم کے جانے کے بعد سقایۃ الحاج کامنصب حضرت عبدالمطب کے حصے
میں آیااور چاہ زم زم کو بنوجرہم نے مٹی ڈال کر زمین کے برابر کر
دیاتھا۔کنویں کی تلاش کاکام حضرت عبدالمطلب نے اس وقت کیاجب ان کاایک ہی
بیٹا ’’حارث‘‘تھا اور دونوں باپ بیٹے نے تین دن مسلسل محنت شاقہ کے بعد زم
زم کا نشان نکالا تھا۔افرادی قوت کی کمی کے مشاہدے و تجربے کے بعداس موقع
پر حضرت عبدالمطلب نے منت مانی تھی کہ اگران کے دس سے زیادہ بیٹے ہو گئے تو
ایک بیٹاوہ اﷲ تعالی کے راستے میں قربان کردیں گے۔دس بیٹوں کے پیداہونے اور
ان کے جوان ہونے میں ایک طویل عرصہ گزر گیااور حضرت عبدالمطلب اپنی منت
بھول بیٹھے۔کاتب تقدیرکویہ گوارانہ ہوا اور ایک سچے خواب کے ذریعے خانہ
کعبہ جیسی مقدس عمارت کے اس متولی و نگران بزرگ کو اپنی منت یاد دلائی
گئی۔اپنے کل بیٹوں کے ہمراہ کاہن کے پاس گئے اور کرہ ڈالا تو کرہ فال امام
عالی مقام امام حسین کے پرناناکے نام نکل آیا۔حضرت عبداﷲ بن عبدالمطلب
کوکیاخبر تھی کہ یہ ذبیحہ اصل ذبح کے آغازوانجام کادرمیان ہے۔ایک ہاتھ میں
بڑی سی چھری اور دوسرے میں اپنے نورنظرعبداﷲ کی کلائی تھامے جب حضرت
عبدالمطلب قربان گاہ کی جانب بڑھے تو حضرت عبداﷲکی خالائیں،پھوپھیاں اور
دیگررشتہ دار آڑے آ گئے۔لیکن منت کاپورا کرنا بھی توضروری تھا،چنانچہ کاہن
کے مشورے سے حضرت عبدالمطلب نے بیٹے کی جان کے عوض اگلے حج کے موقع پر ایک
سو اونٹوں کی قربانی کی۔ایک جان کی دیت ایک سو اونٹ کے قانون کی تاسیس بھی
دراصل یہی واقعہ ہے۔
اپنے مختصرخاندان،والدہ محترمہ،کے ساتھ تو حضرت اسمائیل علیہ السلام نے
اپنے گھر سے دیار ویران کی طرف ہجرت کی ،لیکن انہیں اس ویرانے میں گزرتے
قبائل کے قیام کی صورت میں رونقیں اور آبادیاں میسر آگئیں،ان کی شادی بھی
انہیں خانہ بدوش قبائل میں ہو گئی اور ان کی تنہائی کو بارالہ نے محفل میں
بدل دیاگیااور ان کی خلوتیں اپنی حقیقت میں جلوتوں میں تبدیل ہو گئیں لیکن
اپنے خاندان کے ساتھ گھرسے ویرانے کی طرف ہجرت بلآخرامام عالی مقام امام
حسین کے مقدر میں آن کر ٹہر گئی اور کل خانوادہ مقدس کے ساتھ امام عالی
مقام کرب و بلا کے تپتے ہوئے خشک صحرامیں غریب الدیاری کے ساتھ خیمہ زن
ہوئے۔حضرت اسمائیل علیہ السلام کے ساتھ تو صرف والدہ محترمہ تھیں لیکن امام
مظلوم کے ساتھ پورے خاندان کی وہ مقدس روحیں تھیں جن کے باہر نکلنے پر شمس
و قمر بھی اپنی آنکھیں موند لیتے تھے اور آسمان دنیا اپنے وجود پر شرم و
حیاکی ردا تان لیتاتھا،یہاں تو تقدیس و احترام کے ایسے وجود مقدسہ تھے جن
کے پاؤں تلے فرشتے اپنے پر بچھاتے تھے اورکل مخلوقات ان کے لیے بارگاہ
ایزدی میں دعا گورہتی تھی۔
کرب و بلا کے راز کو اﷲ تعالی ہی سمجھتاہے ،کوئی انسان تن تنہا یااجتماعی
طور پر کبھی اسے سمجھ پائیں گے یا نہیں؟؟؟یہ ایک تاریخی سوال ہے جس کاجواب
تاریخ کا سفر ہی شاید دے سکے لیکن اس کے لیے کسی وقت یامدت کی قید انسانی
حواس خمسہ کی دسترس سے باہر ہے۔اس ایک کرب و بلا کے بعد کیاخانوادہ نبی ﷺکا
سفر رک گیاہے یا جاری ہے؟؟؟اس سوال کاجواب تاریخ دیتی آئی ہے دے رہی ہے اور
جب تک اس زمین کے سینے پر اور اس نیلے آسمان کی چھت کے نیچے ایمان کا حامل
ایک انسان بھی زندہ ہے اس سوال کا جواب ملتا رہے گا۔تاریخ کاپہیہ جب چلتاہے
توجلد یابدیروقت اپنے آپ کو ضرور دہراتاہے۔واقعہ کرب و بلا کے کردارتوشاید
ہمیشہ بدلتے رہیں لیکن مقدارومعیار کے تغیرکے ساتھ یہ داستان ہمیشہ زندہ
رہی ہے اوررہے گی۔وقت کا طاغوت یزیدکی صورت میں اہل حق کے ساتھ ہمیشہ ستیزہ
کاررہاہے اور کنارفرات کرب و بلا کاتندور ہمیشہ گرم رہاہے۔خاص طور پر گزشتہ
چند دہائیوں سے توگویا پھر کوئی کرب و بلا مسلمانوں کو مسلسل پکاررہی ہے
اوردھیرے دھیرے وقت کا دھارا امت مسلمہ کو ایک بار پھر میدان کرب و بلا کو
تازہ کرنے چلاہے۔مشرق سے مغرب تک سیکولرازم،لبرل ازم، فرقہ بندی اور
انتشارکا یزید امت مسلمہ کے حسینی کردار کوباربار للکار رہاہے ،اب یہ امت
مسلمہ کی بیدارمغزقیادت کا وقت امتحان ہے کہ اس معرکہ سے سرخروہوکر نکلیں
اور قریب ہے کہ وقت کے یزید اپنی موت آپ مریں گے اورامت مسلمہ کی اقبال
مندی کا سورج مشرق سے طلوع ہوکر کل انسانیت کو اپنے سایہ امن و سلامتی میں
لے لے گا،انشاء اﷲ تعالی۔
|